Urdu Deccan

Friday, September 30, 2022

شگفتہ الطاف

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1967

عین ممکن ہے کسی روز قیامت کر دیں 
کیا خبر ہم تجھے دیکھیں تو بغاوت کر دیں 

مونس غم ہے ہمارا سو کہاں ممکن ہے 
تجھ کو دیکھیں تو ترے ہجر کو رخصت کر دیں 

پیش گوئی کسی انجام کی جب ملتی نہیں 
زندگی کیسے تجھے وقف محبت کر دیں 

اس کو احساس ندامت ہے تو پھر لوٹ آئے 
شاید اس بار بھی ہم اس سے رعایت کر دیں 

صوفیٔ عشق کی مسند مرے ہاتھ آ جائے 
میرے احباب اگر مجھ کو ملامت کر دیں 

موسم ہجر بھی ہنس دیتا ہے جس وقت تری 
یاد کے پھول خیالوں سے شرارت کر دیں 

آخری بار اسے اس لیے دیکھا شاید 
اس کی آنکھیں مری الجھن کی وضاحت کر دیں

شگفتہ الطاف


 

زرینہ زریں

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1968

ویرانیوں میں سبزہ اگاتی رہی ہوں میں 
ہریالیوں کا روپ دکھاتی رہی ہوں میں 

خون جگر سے سینچ کے بنجر قدم قدم 
پتھر کے دل میں پھول کھلاتی رہی ہوں میں 

اس کا فریب راس اسے آ گیا مگر 
سچائیوں سے آنکھ ملاتی رہی ہوں میں 

تیری نوازشیں بھی رہیں میری زندگی 
اور تجھ کو آئنہ بھی دکھاتی رہی ہوں میں 

اس کی نگاہ تکتی رہی مجھ کو غور سے 
اور میٹھی چاندنی میں نہاتی رہی ہوں میں 

زریںؔ اگرچہ چھڑ ہی گیا قصۂ وفا 
تصویر بس وفا کی بناتی رہی ہوں میں

زرینہ زریں



شوکت واسطی

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1922

جنوں سکون خرد اضطراب چاہتی ہے 
طبیعت آج نیا انقلاب چاہتی ہے 

نہ آج تیری نظر سے برس رہا ہے نشہ 
نہ میری تشنہ لبی ہی شراب چاہتی ہے 

نہیں سرور مسلسل نباہ پر موقوف 
مدام آنکھ کہاں لطف خواب چاہتی ہے 

سنا رہا ہوں فسانہ تری محبت کا 
یہ کائنات عمل کا حساب چاہتی ہے 

وہ عزم ہائے سفر لا زوال ہوتے ہیں 
حیات موت کو جب ہم رکاب چاہتی ہے 

جھلس رہا ہے بدن دھوپ میں جوانی کی 
یہ آگ زلف کا گہرا سحاب چاہتی ہے 

حریف حسن و محبت ہو دیر تک شوکتؔ 
نگار عمر وہ عہد شباب چاہتی ہے

شوکت واسطی



ہمایوں جاوید

یوم پیدائش 30 سپتمبر 1972

چراغِ گمشدہ میں خواب کی تعبیرروشن تھی
اسی سے عشق نامے کی ہر اک تحریر روشن تھی

فضائیں مضطرب تھیں، غرفہ و دالاں میں ماتم تھا
نوا حِ جان میں بھی ساعتِ دل گیر روشن تھی

ندی، صحرا، ستارے اشک باراں تھے شبِ غم میں
ادھر خیمے کے اندر رات کی جاگیر روشن تھی

چراغِ آہ و زاری سے فروزاں طاقچے سارے
شبِ ہجراں میں وحشت کی نئی تصویر روشن تھی

عجائب خانہ ء گردش میں صورت تھی کوئی ایسی
جہاں تلوار ٹوٹی تھی وہاں شمشیر روشن تھی

چراغوں کی لویں جب کم سخن تھیں،اک صدا ابھری
جبینِ سرخ آتش پر وہی تقریر روشن تھی 

غلام آباد کے صحن و دریچہ تھے سراسیمہ
در و دیوار پر کیسے ر گِ زنجیر روشن تھی

بریدہ تھے لب و رخسار ، آنکھوں میں چمک باقی 
پسِ زنداں نگاہِ حسرتِ توقیر روشن تھی

ہمایوں جاوید



شمس الرحمن فاروقی

یوم پیدائش 30 سپتمبر 1935

سر میں ہے تپاں طاقت جتنی ہے ابھی
پیچیدہ دھواں ہیں شان اتنی ہے ابھی
رہ رہ کہ یہ پوچھتی ہے ثابت قدمی
پسپا ہونے میں دیر کتنی ہے ابھی

اس ملک میں صدیاں ہوئیں آئے کہ ابھی
اس رات گریں گے ہم پہ پردے کہ ابھی
اکتاہٹ شور و غل سے کہتی ہے بتا
کچھ دیر میں اٹھیں گے یہاں سے کہ ابھی

نیچی تھی گرم تھی ہواؤں میں ابھی
جولاں تھی مثل خوں دعاوں میں ابھی
سینے میں مرے یار وفادار کی سانس
روشن ہو کر ملی نواؤں میں ابھی

تنہا نہیں جاں دادۂ کثرت ہوں ابھی
سچا ہوں تصویر کی صورت ہوں ابھی
افلاک کی کال کوٹھری کے پاتال
آنکھیں مری مت کھول حقیقت ہوں ابھی

جنگل تھرا اٹھا ہے سویا تھا ابھی
سنسان ہوا سے کوئی بولا تھا ابھی
ساکت گمبھیر فرش شب کے اوپر
لمبے قدموں سے کون گزرا تھا ابھی

شمس الرحمن فاروقی



پرویز شاہدی

یوم پیدائش 30 سپتمبر 1910

منزل بھی ملے گی رستے میں تم راہ گزر کی بات کرو 
آغاز سفر سے پہلے کیوں انجام سفر کی بات کرو 

ظالم نے لیا ہے شرما کر پھر گوشۂ داماں چٹکی میں 
ہے وقت کہ تم بے باکی سے اب دیدۂ تر کی بات کرو 

آیا ہے چمن میں موسم گل آئی ہیں ہوائیں زنداں تک 
دیوار کی باتیں ہو لیں گی اس وقت تو در کی بات کرو 

ہے تیز ہوا ہلتا ہے قفس خطرے میں پڑی ہے ہر تیلی 
فریاد اسیری بند کرو اب جنبش پر کی بات کرو 

کیوں دار و رسن کے سائے میں منصور کی باتیں کرتے ہو 
رکھنا ہے جو اونچا سر اپنا تو اپنے ہی سر کی بات کرو 

کیوں اہل جنوں ارباب خرد کی محفل میں خاموش رہیں 
وہ اپنے ہنر کی بات کریں تم اپنے ہنر کی بات کرو 

کیا بربط و دف دم توڑ چکے موت آ گئی کیا ہر نغمے کو 
تم مطرب جام و مینا ہو کیوں تیغ و سپر کی بات کرو

پرویز شاہدی



Thursday, September 29, 2022

یاورؔ ځبیب ڈار

یوم پیدائش 29 سپتمبر 1997

رو داد سن کے میری خدا خیر اب کرے
چھیڑی ہے بات ایسی دِل نا گزار میں

دنیا جتن کرے گی کسی کار زار کی
محبوب میرا ہے وہی جس کا نگار میں

کنجِ قفس میں قید ہے کیوں زندگی مری؟
وارفتگی ہے کوئی گل و لالہ زار میں

بست و کشاد سے میرا کہلا یہ بیج دو!
صدیوں سے پل رہا ہوں میں مشتِ غبار میں
 
یاورؔ ځبیب ڈار



عزیر زاہد

یوم پیدائش 29 سپتمبر 2000

میری ہر بات پہ کہتی ہو کہ اچھا کیا ہے!
پہلے بتلاؤ کہ تم نے مجھے سمجھا کیا ہے

کچھ نہیں کچھ بھی نہیں تیری توجہ کے بغیر
تیری آنکھیں نہ رہیں تو مِرا چہرہ کیا ہے

یونہی پھرتے رہو اُس خواب کنارے ہر دم
پھر کہیں تم پہ کُھلے گا کہ وہ دریا کیا ہے

ملکوں ملکوں تو پھر آئے ہو مرے دوست مگر 
گر گلی اسکی نہیں دیکھی تو دیکھا کیا ہے

پوچھنے آتے ہیں سڑکوں پہ ٹہلتے سائے
رات ساری تُو یہاں جاگ کے کرتا کیا ہے

اے دو عالم کے خدا اب تو بتا اپنی جا
اے قریبِ رگِ جاں بول یہ پردہ کیا ہے

بھرگیا ہوں جو لبالب کسی خوشبو سے عزیر
بند کھڑکی سے مِرے پھول نے بھیجا کیا ہے

عزیر زاہد



سید اختر رضا زیدی

یوم وفات 28 سپتمبر 1979
نوحہ
سرور شہید ہوگئے تاثیر رہ گئی
دنیا میں صبر و شکر کی تصویر رہ گئی

سرور نے رو کے لاشۂ اکبر پہ یہ کہا
ریتی پہ ہائے چاند سی تصویر رہ گئی

اٹھارہ سال والے کی میت پہ بولی ماں
رونے کو ہائے مادرِ دل گیر رہ گئی

خنجر گلے پہ شمرِ لعیں پھیرتا رہا
سر اپنا پیٹتی ہوئی ہمشیر رہ گئی

زینب یہ بین کرتی تھی ، ہائے ستم ہوا
بے گور لاشِ حضرتِ شبیر رہ گئی

اہلِ حرم اسیر ہوئے ، دربدر پھرے
کیا آلِ مصطفیٰ کی یہ توقیر رہ گئی

فریاد کرتی جاتی تھی یہ دخترِ حسین
در در پھرانے کو مجھے تقدیر رہ گئی

اخترؔ بہ فیضِ خونِ شہیدانِ کربلا
بس مٹتے مٹتے دین کی تقدیر رہ گئی

سید اختر رضا زیدی


 

کیف رضوانی

یوم وفات 28 سپتمبر 2014

تقدیر سنور جائے سرکار کے قدموں میں
یہ جان اگر جائے سرکار کے قدموں میں

اک بار رکھو ں اُن کے قدموں میں یہ سراپنا
پھر عمر گذرجائے سرکار کے قدموں میں

یہ کیفؔ کی حسرت ہے ڈھل جائے وہ خوش بومیں
اور جاکے بکھر جائے سرکار کے قدموں میں

کیف رضوانی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...