Urdu Deccan

Sunday, October 2, 2022

بدر جمیل

یوم پیدائش 02 اکتوبر 1946

پہلے تو کبھی وقت یہ ہم پر نہیں آیا 
ہم چلتے رہے چلتے رہے گھر نہیں آیا 

سورج کی ہے بے خبری کہ موسم کی شرارت 
کیوں سایہ مرے قد کے برابر نہیں آیا

کیا لوگ تھے بستی میں کہ جلتی رہی بستی 
اور گھر سے نکل کر کوئی باہر نہیں آیا 

کیوں ولولے محدود ہوئے لفظ و بیاں تک 
کیوں دار تلک کوئی قد آور نہیں آیا 

اس بار بھی کیا یوں ہی گزر جائے گا ساون 
اس بار بھی تو پیڑ پہ پتھر نہیں آیا

بدر جمیل


 

Saturday, October 1, 2022

احمد رحمانی

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1909

یہ عجب کرشمہ کار ہے ترا طرفہ نظم بہار ہے 
کہیں پھول ہے کہیں خار ہے کہیں نور ہے کہیں نار ہے 

کہیں کوئی لائق سرزنش ہے تو کوئی برسر دار ہے 
یہ وفا شعاروں کا کھیل ہے یہی عاشقوں کا شعار ہے 

یہ تیرے خیال کی رفعتیں یہ تری نگاہ کی وسعتیں 
یہ ترے شعور کی عظمتیں تیرا اوج عرش وقار ہے 

یہ لحد سے کس کی صدا اٹھی ہے مآل عشق بتاں یہی 
نہ سکون پا سکے جیتے جی نہ قرار زیر مزار ہے 

نہ کسی سے بات بری کہی نہ کسی کی بات بری سنی 
نہ کبھی کسی سے خلش رہی نہ کسی سے دل میں غبار ہے 

نہ کلی کھلی ہے نہ گل ہنسے نہ ہیں بلبلوں کے یہ چہچہے 
اسے فصل گل کوئی کیا کہے یہ بہار کوئی بہار ہے 

نہ جہاں میں جس کا وقار ہو جسے زیست تنگ ہو عار ہو 
جو مصیبتوں کا شکار ہو وہ غریب احمدؔ زار ہے 

احمد رحمانی



احمد رحمانی

کلمہ حق گفتار محمد 
جلوہ حق دیدار محمد 

طور کی شوکت کعبہ کی عظمت عرش کی رفعت خلد کی نزہت 
دربار دُربار محمد 

باخبرانِ رمزِ طریقت نکتہ رسانِ سّر حقیقت 
سرمست وسرشار محمد 

طلعت میں رشک ماہ تاباں غیرت صد خورشید درخشاں 
ذرّۂ رہ گذار محمد 

قبلہ اعظم کعبہ اعظم نور نگاہ عرش معظم 
روضہ پر انوار محمد 

دو گل ترحسنین ہیں جس کے حضرتِ زہرا جس کی کلی ہیں 
صل علی گلزارمحمد 

صدیق وفاروق وعثمان وحیدر یہ چاروں احمدؔ 
اصحاب وغم خوارمحمد

احمد رحمانی



افسر ناروی

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1912

تجھ کو جوش جنوں ہوا کیا ہے 
الجھنوں کی مرے دوا کیا ہے 

کرب کیا چیز ہے بلا کیا ہے 
ہم سے پوچھو رہ وفا کیا ہے 

گرد آلود اپنا چہرہ دیکھ 
آئینہ کو تو دیکھتا کیا ہے 

سانس آئے نہ لوٹ کر آئے 
زندگی تیرا آسرا کیا ہے 

شمع تربت سے تو کوئی پوچھے 
تیز رو تند رو ہوا کیا ہے 

اپنے افسر سے بد ظنی کیسی 
محترم دوست یہ ادا کیا ہے

افسر ناروی



امتیاز احمد شہزاد

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1976

خود سے پردہ چاک اب ہونے کو ہے
درد کا ادراک اب ہونے کو ہے

ہو رہی گفتار ہے اذنِ عمل
دل گنہ سے پاک اب ہونے کو ہے

تاک پر یوں منتظر ٹھہری نظر
تکتے تکتے تاک اب ہونے کو ہے

امتیاز احمد شہزاد



عرشم خان نیازی

یوم پیدائش 01 اکتوبر 

ہاتھ باندھے ہوئے سب رنگ کھڑے ہوتے ہیں
اس کی رنگین کلائی میں کڑے ہوتے ہیں

آدمی قد سے نہیں کام سے جانا جائے
چھوٹی قامت کے کئی لوگ بڑے ہوتے ہیں

کتنی اُلفت ہے انہیں مجھ سے جدھر جاتا ہوں
زخـم ہاتھـوں میں لیے پھول کھڑے ہوتے ہیں

توڑ دیتا میں غرور آپ کا دریا لیکن
اب کسی گاؤں میں سوہنی نہ گھڑے ہوتے ہیں

آج نزدیک سے دیکھی ہیں چمکتی آنکھیں
ایسے موتی کسی خنجر میں جَڑے ہوتے ہیں

ہر اُداسی کا سبب عشق ہو لازم تو نہیں 
اِمتحاں اور بھی دنیا میں کڑے ہوتے ہیں

لینے آتے ہیں سبھی پاؤں کا بوسہ عرشم
جتنے پتھر مِری راہوں میں پڑے ہوتے ہیں

عرشم خان نیازی

ممتاز صنم

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1962

جب مسیحا قاتلوں کے بھیس میں آیا نظر
ہم نے اپنے درد کو اپنا مداوا کرلیا

ممتاز صنم



علی شیداؔ

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1953

تجھ سے منسوب سو بہانے ہیں
لوگ کتنے ترے دوانے ہیں

فہم و ادراک کے دریچے کهول 
درد کے زاوئے سجانے ہیں 

وقت کے دائرے سے ہوں آزاد
قید مجه میں کئی زمانے ہیں 

فاصلے کم کرو دعاوں سے
ہاته ٹوٹے بهی ہو اٹهانے ہیں 

ٹوٹنے دے صدا صدا پایل 
رقص کے دائرے گهمانے ہیں

یوں اندهیروں سے لڑ نہ پاو گے
آو مل کر دئے جلانے ہیں

دیکه تشہیر حرف رسوائی 
خواب آنکهوں سے یا چرانے ہیں

تم حقیقت مرے جنوں کی ہو
رہ نوردی یہ سب بہانے ہیں 

ہجرتیں کب تلک یہ آوارہ
غم جو اتنے کہیں بسانے ہیں 

اب کے موج سخن پہ واہ شیداؔ 
میر کے درد کے زمانے ہیں

علی شیداؔ


 

اثر بہرائچی

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1946

طلب کے ساتھ اگر بے خودی نہیں ہوتی
قسم خدا کی خدا آگہی نہیں ہوتی

جسے نصیب نہ ہو آنسوؤں کی تابانی
شب فراق وہ تاروں بھری نہیں ہوتی

ترا ستم بھی نوازش ہے میرے دل کے لئے
 تری خوشی سے مجھے کیا خوشی نہیں ہوتی
 
 رہ حیات کو روشن کرے ہزار خرد
 بغیر دل کے جلے روشنی نہیں ہوتی
 
کسی کے پیار کا نفرت سے دیجئے نہ جواب
مرے حضور! محبت بُری نہیں ہوتی

سنا تھا ہم نے مگر دل لگا کے دیکھ لیا
بتوں میں خوئے وفا واقعی نہیں ہوتی

سلگ رہے ہیں نشیمن مگر یہ کیا ہے اثر
چمن میں پھر بھی کہیں روشنی نہیں ہوتی

اثر بہرائچی


 

سید صادق حسین شاہ

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1898

تو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کے لیے
یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کے لیے

تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

کامیابی کی ہوا کرتی ہے ناکامی دلیل
رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کے لیے

چرخ کج‌ رفتار ہے پھر مائل جور و ستم
بجلیاں شاہد ہیں خرمن کو جلانے کے لیے

نیم جاں ہے کس لیے حال خلافت دیکھ کر
ڈھونڈ لے کوئی دوا اس کو بچانے کے لیے

چین سے رہنے نہ دے ان کو نہ خود آرام کر
مستعد ہیں جو خلافت کو مٹانے کے لیے

دست و پا رکھتے ہیں اور بیکار کیوں بیٹھے رہیں
ہم اٹھیں گے اپنی قسمت کو بنانے کے لیے

سید صادق حسین شاہ


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...