Urdu Deccan

Wednesday, October 26, 2022

وصفی بہرائچی

یوم پیدائش 22 اکتوبر 1914

کیا چیز محبت ہے زمانے کو دکھا دو 
دل صاف کرو اتنا کہ آیئنہ بنا دو

تعمیر گلستاں کے لیے کیا ہے ضروری 
بھولے ہیں جو یہ بات انھیں یاد دلا دو

معلوم ہوں سب ایک ہی کنبے کے ہیں افراد 
یوں شمع مساوات واخوت کی جلا دو

اب دور نہیں آپ سے کچھ آپ کی منزل 
منزل کی طرف ایک قدم اور بڑھا دو

یوں مل کے رہو اہل چمن صحن چمن میں
دشمن کے لیے آہنی دیوار بنا دو

یہ اندرا گاندھی سے سبق ہم کو ملا ہے 
فتنہ جب اٹھے کوئی تو طاقت سے دبا دو

وصفیؔ ہے یہی فرض یہی شرط وفا بھی 
اس خاک کے ہر ذرے کو گلزار بنا دو

وصفی بہرائچی


 

اقبال ارشد

یوم پیدائش 22 اکٹوبر 1940

تو اسے اپنی تمناؤں کا مرکز نہ بنا
چاند ہرجائی ہے ہر گھر میں اتر جاتا ہے

اقبال ارشد

 

ریحانہ نواب

یوم پیدائش 21 اکتوبر 1958

اک شہزادہ بھیس بدل کر ایسے محل میں آتا ہے 
ذکر تمہارا جیسے جاناں میری غزل میں آتا ہے 

حیراں حیراں کھویا کھویا پاگل پاگل بے کل سا 
جانے کس کو ڈھونڈنے چندا جھیل کے جل میں آتا ہے 

آنکھوں میں دیدار کا کاجل میں بھی لگا کر جاتی ہوں 
وہ بھی اکثر ڈھونڈنے مجھ کو تاج محل میں آتا ہے 

گاہے اماوس کی راتوں میں گاہے چاندنی راتوں میں 
اک غمگیں افسردہ سایہ شیش محل میں آتا ہے 

جانے کہاں سے اتنے پرندے شاخوں پر آ جاتے ہیں 
کھٹا میٹھا البیلا رس جوں ہی پھل میں آتا ہے 

جس کو سن کر دل بھر آئے آنکھیں بھی نم ہو جائیں 
ایسے شعروں کی شرکت سے حسن غزل میں آتا ہے 

آ ریحانہؔ اس سے پوچھیں ماضی کی روداد حسیں 
جو چھوٹی سی کشتی لے کر شام کو ڈل میں آتا ہے

ریحانہ نواب



مرشد ندوی

یوم پیدائش 21 اکتوبر 1964

آئینے سے سارے چہرے گم ہوئے
میری یادوں کے خزانے گم ہوئے

منظروں سے رونقیں جاتی رہیں
وہ سبھی موسم سہانے گم ہوئے

بھیڑ ہے اور بھیڑ کی تہذیب کیا
بھیڑ میں انسان سارے گم ہوئے

دن میں سائے خاک پر تڑپا کئے
رات میں وہ بھی بچارے گم ہوئے

زندگی کی داستاں ہے مختصر
آئے ہم، رستے سنوارے، گم ہوئے

حسرتوں کی دھول نظریں کھا گئی
راہ میں کیا کیا نظارے گم ہوئے

وقت کی رفتار میں بچتا بھی کیا
زندگی کے سب نگینے گم ہوئے

تیر کر ساحل پہ آئے وہ بچے
ورنہ مرشد سب سفینے گم ہوئے

مرشد ندوی


بہزاد فاطمی

یوم پیدائش 21 اکٹوبر 1914

وجہ شہرت تری آشفتہ سری میری ہے
شہر تیرا ہی سہی دربدری میری ہے

چن لیا لاکھ خدائوں میں پرستش کے لئے
حسن تیرا ہی سہی دیدہ وری میری ہے

ہے خبر موسم سفاک کی مجھ کو لیکن
بارش سنگ میں بھی شیشہ گری میری ہے

اب تو مانوس ہوں اس درجہ غموں سے بہزادؔ
بزم احباب میں بھی نوحہ گری میری ہے

بہزاد فاطمی



گوہر شیخ پوروی

یوم پیدائش 21 اکٹوبر 1951

روز دل کو مرے اک زخم نیا دیتے ہیں 
آپ کیا اپنا بنانے کی سزا دیتے ہیں 

میری بیتابیٔ دل کا جو اڑاتے ہیں مذاق 
وہ بھڑکتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں 

لوگ کہتے ہیں جسے ظرف وہ اپنا ہے مزاج 
اپنے دشمن سے بھی ہم پیار جتا دیتے ہیں 

کوئی آواز نہیں ہوتی بھرے برتن سے 
اور خالی ہوں تو ہر گام صدا دیتے ہیں 

دیکھ کر میرے نشیمن سے دھواں اٹھتا ہوا 
سوکھے پتے بھی درختوں کے ہوا دیتے ہیں 

زخم دل چاند کی مانند چمکتے ہیں مرے 
آپ جب بھولی ہوئی بات سنا دیتے ہیں 

آپ چپ چاپ ہی آتے ہیں تصور میں مگر 
میرے خوابیدہ خیالوں کو جگا دیتے ہیں 

صرف اک دیوتا سمجھا ہے تمہیں میں نے مگر 
لوگ پتھر کو بھی بھگوان بنا دیتے ہیں 

کچی دیوار کی مانند ہیں ہم اے گوہرؔ 
ایک ٹھوکر سے جسے لوگ گرا دیتے ہیں

گوہر شیخ پوروی



کاشفؔ اورا

یوم پیدائش 20 اکتوبر 2000

ہنستی رہو کہ دیپ کے تیور میں دم رہے
مجھ کہکشاں کے ساتھ ہوا کا بھرم رہے

گنتی کے چند سال مقدر میں ماں رہی
بچپن گزر چکا تھا سو خوشیوں سے تھم رہے

ہم نے تمہارے ساتھ بتائے ہیں چار دن
الحمد! زندگی کی صدا کا ردھم رہے

بیشک! کوئی کسی کا بھی نعم البدل نہیں
لیکن وہ چاند جس کی محبت میں ہم رہے

وہ تھا تو زندگی کے مقاصد تھے لیکن اب
کاشفؔ میں چاہتا ہوں یہ طوفان تھم رہے

کاشفؔ اورا


جلالؔ لکھنوی

یوم وفات 20 اکتوبر 1909

کیوں وصل میں بھی آنکھ ملائی نہیں جاتی 
وہ فرق دلوں کا وہ جدائی نہیں جاتی 

کیا دھوم بھی نالوں سے مچائی نہیں جاتی 
سوتی ہوئی تقدیر جگائی نہیں جاتی 

کچھ شکوہ نہ کرتے نہ بگڑتا وہ شب وصل 
اب ہم سے کوئی بات بنائی نہیں جاتی 

دیکھو تو ذرا خاک میں ہم ملتے ہیں کیونکر 
یہ نیچی نگہ اب بھی اٹھائی نہیں جاتی 

کہتی ہے شب ہجر بہت زندہ رہوگے 
مانگا کرو تم موت ابھی آئی نہیں جاتی 

وہ ہم سے مکدر ہیں تو ہم ان سے مکدر 
کہہ دیتے ہیں صاف اپنی صفائی نہیں جاتی 

ہم صلح بھی کر لیں تو چلی جاتی ہے ان میں 
باہم دل و دلبر کی لڑائی نہیں جاتی 

خود دل میں چلے آؤ گے جب قصد کرو گے 
یہ راہ بتانے سے بتائی نہیں جاتی 

چھپتی ہے جلالؔ آنکھوں میں کب حسرت دیدار 
سو پردے اگر ہوں تو چھپائی نہیں جاتی

جلالؔ لکھنوی



منور مرزا زرمی


یوم پیدائش 20 اکتوبر 1955

یہ مانا توجہ کے قابل نہیں ہوں
مگر میں کسی سے بھی غافل نہیں ہوں

ہدایت سے اسلام کی چشم پوشی
میں ایسی ترقی کی قائل نہیں ہوں

رہوں کیوں زمانے کے رحم و کرم پر
بھروسا ہے خود پر ، میں کاہل نہیں ہوں

سمجھ لیتی میں ماسوا کی حقیقت
ابھی عقل میں ایسی کامل نہیں ہوں

سدا مے کدوں میں گزر کرنے والو!
خبردار میں عیشِ منزل نہیں ہوں

سمجھتی ہوں میں سب کے انداز رزمیؔ
اب اتنی بھی آخر میں جاہل نہیں ہوں

منور مرزا زرمی


نادر کاکوری

یوم وفات 20 اکتوبر 1912

کدورت بڑھ کے آخر کو نکلتی ہے فغاں ہو کر 
زمیں یہ سر پر آ جاتی ہے اک دن آسماں ہو کر 

مرے نقش قدم نے راہ میں کانٹے بچھائے ہیں 
بتائیں تو وہ گھر غیروں کے جائیں گے کہاں ہو کر 

خدا سے سرکشی کی پیر زاہد اس قدر تو نے 
کہ تیرا تیر سا قد ہو گیا ہے اب کماں ہو کر 

کوئی پوچھے کہ میت کا بھی تم کچھ ساتھ دیتے ہو 
یہ آئے مرثیہ لے کر وہ آئے نوحہ خواں ہو کر 

ارادہ پیر زاہد سے ہے اب ترکی بہ ترکی کا 
کسی بھٹی پہ جا بیٹھوں گا میں پیر مغاں ہو کر 

تلاش یار کیا اور سیر کیا اے ہم نشیں ہم تو 
چلے اور گھر چلے آئے یہاں ہو کر وہاں ہو کر 

سخنؔ کی بزم میں نادرؔ اسی کے سر پہ سہرا ہے 
رہا جو ہم نوائے بلبل ہندوستاں ہو کر

نادر کاکوری



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...