Urdu Deccan

Monday, November 21, 2022

حشمت کمال پاشا

یوم پیدائش 02 نومبر 1945
نظم ممی پاپا یہ بتلاؤ

کیوں ہوتا ہے نو دو گیارہ 
تین تیرہ اور نو اٹھارہ 
چھکا پنجہ اور پو بارہ 
ممی پاپا یہ بتلاؤ 

مکڑا کیوں ہے جالا بنتا 
سانپ کا پاؤں کیوں نہیں ہوتا 
مرغی پہلے ہے یا انڈا 
ممی پاپا یہ بتلاؤ 

تاڑ کے نیچے کیوں نہیں سایا 
رنگ حنا کیوں لال ہے ہوتا 
کیوں ہے گل کے ساتھ ہی کانٹا 
ممی پاپا یہ بتلاؤ 

اونٹ کے منہ میں زیرہ کیسا 
بڑے بول کا سر کیوں نیچا 
کیوں کہتے ہیں دال میں کالا 
ممی پاپا یہ بتلاؤ 

حل ہونے کی نہیں ہے آشا 
یہ سب ہے اک کھیل تماشا 
سر نہ کھپاؤ ممی پاپا 
کہہ گئے اپنے بھیا پاشاؔ

حشمت کمال پاشا



امرت لعل عشرت

یوم پیدائش 02 نومبر 1930

قدم قدم پہ ہمیں رنگ و بو کا دھوکا ہے
خزاں نصیب رفیقو یہ دور کیسا ہے

جو تو کہے اسے چھو کر ذرا یقیں کر لوں
تری جبیں پہ مجھے چاندنی کا دھوکا ہے

مری نگاہ نے بخشی ہے حسن کو رونق
نسیم صبح سے پھولوں کا رنگ بکھرا ہے

بنائے شعر ہے میرا مشاہدہ عشرتؔ
مرے کلام میں ہر دل کا درد ہوتا ہے

امرت لعل عشرت



بدر محمدی

یوم پیدائش 02 نومبر 1963

مری زمین ترے آسماں سے بہتر ہے 
یقیں یقیں ہے کسی بھی گماں سے بہتر ہے 

کہاں نہیں ہے تو جلوہ نما خدا میرے 
یہ لا مکانی تری ہر مکاں سے بہتر ہے 

میں اس کے ساتھ دلوں کے سفر پہ رہتا ہوں 
خیال اس کا کسی کارواں سے بہتر ہے 

ذرا سا وقت ہے اس کا رہے خیال تمہیں 
وہیں سے قصہ سناؤ جہاں سے بہتر ہے 

گزاری عمر ہی اب تک نہ آیا جینا ہمیں 
ہماری زندگی جانے کہاں سے بہتر ہے
 
دعائیں دینا کسی کو شعار خوب سہی 
دعائیں لینا مگر اپنی ماں سے بہتر ہے 

سکھائے وہ اسے جنت ہے جس کے قدموں میں 
زبان مادری ہر اک زباں سے بہتر ہے 

بدر محمدی


 

حاذق فریدی

یوم پیدائش 02 نومبر 1957

امن و اماں نہیں ہے کبوتر سمیٹ لو
جشن طرب ہے خوب تو پیکر سمیٹ لو

پی لیں گے پھر کبھی درمیخانہ بیٹھ کر
آج ان کے احترام میں ساغر سمیٹ لو

اسلام کا نظام ہی کام آئے گا یہاں 
سب جنگلوں کے کھیل کو مل کر سمیٹ لو

لفظوں سے کھیلنے کا ہنر ہے یہ شاعری
لفظوں میں فکروفن کے ہی گوہر سمیٹ لو

حاذق فریدی


 

نیلوفر فضل

یوم پیدائش 02 نومبر 1973

غم کو اس طرح سے چھپاتے ہیں
اشک پی پی کے مسکراتے ہیں

جن کو ہم پھول پیش کرتے ہیں
سنگ ہم پر وہی چلاتے ہیں

ایک رخ سے نقاب اٹھتے ہی
کتنے چہرے نظر میں آتے ہیں

زہر پیتے ہیں مسکرا کر ہم
رشتۂ درد یوں نبھاتے ہیں

کیوں کسی سے کریں گلہ شکوہ
ہم تو دانستہ زخم کھاتے ہیں

کوئی پوچھے گا آج نیلوفرؔ
موت پر اشک سب بہاتے ہیں

نیلوفر فضل



زاہدہ شمسی

یوم پیدائش 02 نومبر 1972

پہلے مسرور تھا ، غم سے اب چور ہے
وہ بھی دل کو بنائے ہوئے طور ہے

بس صداقت کی محفل سجایا کرو
سر کٹانا اگر تم کو منظور ہے

کردیا سامنے سب کے رسوا مجھے
میری غزلوں کو پڑھ کر جو مشہور ہے

مت سناؤ محبت کی رنگیں غزل
میرا پردیسی ساجن بہت دور ہے

غم ہی ملتا ہے شمسی رہِ عشق میں
زندگانی کیا ، یہ تو دستور ہے

زاہدہ شمسی


 

مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

یوم پیدائش 02 نومبر 1958

خامہ ناقص میں بھی دریا سی روانی لکھ دے
اے قلم نعتِ محمدؐ کے معانی لکھ دے

میری نسبت ہے بلالی تو مجھے خوف کہاں 
سر محمدؐ پہ بھی قربان جوانی لکھ دے

بے قراری نے تَجَسُّس سے نمو پائی ہے 
بس مدینے کی فضا شام سہانی لکھ دے

قلبِ بیمار کو دیدارِ محمدؐ کی طلب 
زیست میں ایک حقیقی یہ کہانی لکھ دے

کاش وہ کوچہِ انوار فضائیں دیکھوں
خشک ہونٹوں پہ مدینے کا تو پانی لکھ دے

ہر ادا ہو بھی محمدؐ کے غلاموں کی طرح
کوئی اجداد کی معروف نشانی لکھ دے

اب لیے جاتا نہیں عشق کہیں اور مجھے
ان کی مل جائے اگر قید سہانی لکھ دے

نالہ ارشدؔ کا یہی کاتبِ تقدیر سدا 
پس مقدر میں وہاں نقل مکانی لکھ دے

مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی


 

Tuesday, November 1, 2022

قوی خان

یوم پیدائش 01 نومبر 1997

جتنی مہلت ملی، ہے غنیمت یہاں
ساٹھ، پینسٹھ کہ ستر برس، خوش رہو

جو ملا جس قدر بھی ملا خوب ہے
مال و دولت کی چھوڑو ہوس، خوش رہو

کوئی گل تم کو سمجھے یا موتی کوئی
یا ہی سمجھے کوئی خار و خَس، خوش رہو

لاکھ دنیا تمہاری مخالف رہے
تم نہ ہونا مگر ٹس سے مَس، خوش رہو

عشق کا بھی قوی وہ ہی دستور ہے
ہے جو دستورِ قید و قفس، خوش رہو

قوی خان



حرا رانا

یوم پیدائش 01 نومبر 1972

آج پھر سے ترے دیار میں ہوں
یعنی پھر تیرے اختیار میں ہوں

اس کہانی کا یہ ہوا انجام
آج میں دشتِ بے کنار میں ہوں

کوئی رستہ دکھائی دیتا نہیں
دھند کیسی ہے کس غبار میں ہوں

آج کل کس پہ ہے کرم تیرا
میں تو ویسے بھی کس شمار میں ہوں

ہوش کیسےرہےگا دل کو ترا
میں ترے درد کے خمار میں ہوں

ایک دنیا ہے میرے در پہ حراؔ
اور میں تیرے انتظار میں ہوں

حرا رانا



آفاق فاخری

یوم پیدائش 01 نومبر 1956

کیا ضروری کہ گروں میں تو سنبھالے کوئی 
اور مرے پاؤں کا کانٹا بھی نکالے کوئی 

خوشبوؤں کی طرح چاہیں گے زمانے والے 
پہلے کردار کو پھولوں سا بنا لے کوئی 

آج کے دور میں شہرت کی تمنا ہو اگر 
اپنے چہرے پہ کئی چہرے لگا لے کوئی 

اک دیا ہم نے جلایا جو سر راہ گزر 
کر نہ دے اس کو ہواؤں کے حوالے کوئی 

شب کی تاریکی میں بھی نور کا عالم ہوگا 
پہلے پلکوں پہ ستاروں کو سجا لے کوئی 

چاہے تو اپنے ہر اک حسن عمل سے آفاقؔ 
اپنے ماں باپ کی ہر وقت دعا لے کوئی 

آفاق فاخری



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...