Urdu Deccan

Tuesday, November 22, 2022

ساجد اختر

یوم پیدائش 05 نومبر 2000

ہم مقدر کو آزماتے ہیں
اور ہوا میں دیا جلاتے ہیں

آؤ ہم سے ملو وہی ہیں ہم
شعر میں کچھ نیا جو لاتے ہیں

دیکھ کر ہم نئے دیوانوں کو
جو پرانے ہیں منہ بناتے ہیں

چومتی ہے ہوا ہمارے ہاتھ
تیری تصویر جب بناتے ہیں

اُن کا احسان مانیے ساجد
جو مصیبت میں کام آتے ہیں

ساجد اختر



شکیبؔ کلگانوی

یوم پیدائش 05 نومبر 1997

فرصت میں مجھ سے ملنا بھی اک کام ہی تو ہے
جلدی نہ کر تو جانے کی بس شام ہی تو ہے

ڈر ڈر کے جینا چھوڑ یہاں لوگ ہیں عجیب
بدنام ہے تو کیا ہوا بدنام ہی تو ہے

کیا رنج و غم ہے کیا ہے خوشی کیا ہے زندگی
پی لے مزے سے صرف یہ اک جام ہی تو ہے

کوئ بھی شئے یہاں کی نہیں مستقل رہی
انجام کو یہ پہونچے گے آلام ہی تو ہے

مہنگا یہ عشق ہے بھی تو لے لیجیے جناب
بڑھتا کبھی ہے گھٹتا کبھی دام ہی تو ہے

رنج و الم ہے درد ہے اس کے سوا ہے کیا
ہجر و فراق یاس بھی احرام ہی تو ہے

تلوے شکیبؔ چاٹ کے اغیار کے کبھی
گر ہو گیا بھی نام تو بس نام ہی تو ہے

 شکیبؔ کلگانوی



شباب کیرانوی

یوم وفات 05 نومبر 1982

اللہ تری شان، یہ اپنوں کی ادا ہے
محفل میں ہمیں دیکھ کے منہ پھیر لیا ہے

تو مجھ کو مٹانے کی قسم کھا تو رہا ہے
اس کو نہ مگر بھول کہ میرا بھی خدا ہے

مرنا ہی مقدر ہے تو جینے کی سزا کیوں
کس جرم کی انسان سزا کاٹ رہا ہے

ہر چند کہ اک قصۂ ماضی ہے تری یاد
سینے میں مگر آج بھی کانٹا سا چبھا ہے

جینے کی ہے تاکید ہمیں زہر پلا کر
ظالم یہ سمجھتا ہے، وہی جیسے خدا ہے

انسان کو شیطان بھی اب سجدہ کرے گا
اس دور کا انسان تو شعلوں سے بنا ہے

تعمیر کیا شیش محل نعش پہ میری
شامل تری خوشیوں میں مرا خونِ وفا ہے

کیا خوب ملا ہم کو صلہ اپنی وفا کا
ہر روز نیا ایک ستم ہم پہ ہوا ہے

انسان خدا بننے کی کوشش میں ہے مصروف
لیکن یہ تماشا بھی خدا دیکھ رہا ہے

نازاں ہے شبابؔ اپنے مقدر پہ ازل سے
اللہ سے جو مانگ لیا اُس نے دیا ہے

شباب کیرانوی



امین اڈیرائی

یوم پیدائش 05 نومبر 1964

اس نے جو غم کیے حوالے تھے 
ہم نے اک عمر وہ سنبھالے تھے 

صحن دل میں تمہارے سب وعدے 
میں نے بچوں کی طرح پالے تھے 

آنکھ سے خود بہ خود نکل آئے 
اشک ہم نے کہاں نکالے تھے 

اک خوشی ایسے مسکرائی تھی 
درد جیسے بچھڑنے والے تھے 

اپنے ہاتھوں سے جو بنائے بت 
ایک دن سارے توڑ ڈالے تھے 

چار سو وحشتوں کا ڈیرا تھا 
جان کے ہر کسی کو لالے تھے 

اجنبی بن کے جو ملے تھے امینؔ 
لوگ سب میرے دیکھے بھالے تھے

امین اڈیرائی



رؤف خیر

یوم پیدائش 05 نومبر 1948

ہم اگر رد عمل اپنا دکھانے لگ جائیں 
ہر گھمنڈی کے یہاں ہوش ٹھکانے لگ جائیں 

خاکساروں سے کہو ہوش میں آنے لگ جائیں 
اس سے پہلے کہ وہ نظروں سے گرانے لگ جائیں 

دیکھنا ہم کہیں پھولے نہ سمانے لگ جائیں 
عندیہ جیسے ہی کچھ کچھ ترا پانے لگ جائیں 

پھول چہرے یہ سر راہ ستارہ آنکھیں 
شام ہوتے ہی ترا نام سجھانے لگ جائیں 

اپنی اوقات میں رہنا دل خوش فہم ذرا 
وہ گزارش پہ تری سر نہ کجھانے لگ جائیں 

ہڈیاں باپ کی گودے سے ہوئی ہیں خالی 
کم سے کم اب تو یہ بیٹے بھی کمانے لگ جائیں 

ایک بل سے کہیں دو بار ڈسا ہے مومن 
زخم خوردہ ہیں تو پھر زخم نہ کھانے لگ جائیں 

دعوئ خوش سخنی خیرؔ ابھی زیب نہیں 
چند غزلوں ہی پہ بغلیں نہ بجانے لگ جائیں

رؤف خیر



حمید ناگپوری

یوم پیدائش 05 نومبر 1907

خود اپنے جذب محبت کی انتہا ہوں میں 
ترے جمال کی تصویر بن گیا ہوں میں 

حدیث عشق ہوں افسانۂ وفا ہوں میں 
بھلا سکے نہ جسے تم وہ ماجرا ہوں میں 

مری سرشت ہے ہنس ہنس کے زخم غم کھانا 
کہ حادثات میں پل کر جواں ہوا ہوں میں 

انہیں یقیں نہیں میرے خلوص الفت کا 
وفا کا اپنی یہ انعام پا رہا ہوں میں 

حمیدؔ جس نے مٹایا ہے بار بار مجھے 
اسی فریب محبت میں مبتلا ہوں میں

حمید ناگپوری


 

وقار خلیل

یوم پیدائش 04 نومبر 1930
نظم عجیب خواہشیں

مناتا موج گر چوہا میں ہوتا 
سحر سے شام تک پھرتا ہی رہتا 
لگے جب بھوک میں میٹھا چراتا 
مزے سے بل میں بیٹھا اس کو کھاتا 
محلے کے سبھی باورچی خانے 
بلائیں گے مجھے دعوت اڑانے 
مزے سے دعوتیں ہر گھر میں کھاتا 
دہی مسکہ ملائی دودھ اڑاتا 
اگر بلی چلی آئے جھپٹ کر 
تو گھس جاؤں گا میں بل دبک کر 

مناتا موج گر مچھلی میں ہوتا 
ہمیشہ تیرتے پانی میں رہتا 
مکاں ہوتا مرا پانی کے اندر 
بہت اجلا بہت اچھا بڑا سندر 
مزے سے گھومتا دھومیں مچاتا 
کبھی میں زور سے پانی اڑاتا 
کبھی میں مینڈکوں سے چھیڑ کرتا 
کبھی میں بلبلے پانی پہ لاتا 
شکاری گر مجھے لینے کو آتا 
میں پانی کی تہوں میں ڈوب جاتا 

مناتا موج گر بندر میں ہوتا 
اچھلتے کودتے باغوں میں پھرتا 
مزے سے جھولتا پینگیں لگاتا 
کبھی میں شاخ پر ہی گنگناتا 
اگر مالی مجھے آنکھیں دکھاتا 
جھپٹ کر اس کی میں پگڑی اڑاتا 
اچکتے پھاندتے بنگلوں میں جاتا 
میں بچوں کو ستاتا منہ چڑھاتا 
کتابیں ٹوپیاں بستے اڑاتا 
کسی کے سر پہ پھر چانٹے جماتا 

مناتا موج گر ہوتا پرندہ 
زمیں سے آسماں کی سیر کرتا 
کبھی نیچے سے میں اوپر کو آتا 
جہاں کو شعبدے اپنے دکھاتا 
مزے سے گھومتا پھرتا ہوا میں 
کبھی ٹھوکر نہیں کھاتا فضا میں 
درختوں پر سویرے چہچہاتا 
خدا کی حمد میں ہر وقت گاتا 
کوئی بچہ پکڑنے کو جو آتا 
بھلا کب اس کے میں ہوں ہاتھ آتا

وقار خلیل



Monday, November 21, 2022

معصوم شرقی

یوم پیدائش 04 نومبر 1948

دشمن کے طنز کو بھی سلیقے سے ٹال دے 
اپنے مذاق طبع کی ایسی مثال دے 

بخشے بہار کو جو نہ شائستگی کا رنگ 
ایسی ہر ایک شے کو چمن سے نکال دے 

پچھلی رتوں کے داغ تو سب ماند پڑ گئے 
اب کے بہار زخم کوئی لا زوال دے 

میں بھی تو راہرو ہوں ترا رہ گزار شوق 
تھوڑی سی دھول میری طرف بھی اچھال دے 

معصومؔ صاف گوئی بڑی چیز ہے مگر 
ایسا نہ ہو کہیں یہ مصیبت میں ڈال دے

معصوم شرقی


 

عرفان مرتضی

یوم پیدائش 03 نومبر 
نظم...(جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا)

جوبھی تھا کیا تھوڑا تھا
 کہ اپنے دیس کو روتے بھی ہو
 چین سے پڑھ کر کر سوتے بھی ہو
 اپنے دیس کا غم کیسا ہے
 ہنستے بھی ہو روتے بھی ہو
 کس نے کہا تھا آؤ یہاں
 آکر تم بس جاؤ یہاں
 جب دیس تمھارا اپنا تھا
 وہ شہر تمھارا اپنا تھا
 وہ گلی تمھاری اپنی تھی
 وہ مکاں پرانا اپنا تھا
 اس دیس کو پھر کیوں چھوڑا تھا
 کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
 سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا
 ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا
جب بھی دیسی مل کر بیٹھیں
 قصے پھر چھڑ جاتے ہیں
 ان ٹوٹی سڑکوں کے قصے
 ان گندی گلیوں کے قصے
 ان گلیوں میں پھرنے والے
 ان سارے بچوں کے قصے
 اورنگی یا کورنگی کے
 پانی کے نلکوں کے قصے
 ان نلکوں پر ہونے والے
 ان سارے جھگڑوں کے قصے
 اور نکڑ والے دروازے پر
 ٹاٹ کے اس پردے کے قصے
 اسے پردے کے پیچھے بیٹھی
 اس البیلی نار کے قصے
 جس کی ایک نظر کو ترسے
 ان سارے لڑکوں کے قصے
 جھوٹے قصے سچے قصے
 پیار بھرے اس دیس کے قصے
 پیار بھرے اس دیس کو تم نے
 آخر کیوں کر چھوڑا تھا
 کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
 سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا
 ارے جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا
تم پھولے نہیں سمائے تھے
 جب ایمبیسی سے آئے تھے
 ہر ایک کو ویزا دکھاتے تھے
 اور ساتھ یہ کہتے جاتے تھے
 چند ہی دنوں کی بات ہے یارو
 جب میں واپس آؤں گا
 ساتھ میں اپنے ڈھیر سے ڈالر
 اور پتہ بھی لاؤں گا
 تم نے کب یہ سوچا ہوگا
 کیا کیا کچھ پردیس میں ہوگا
 اپنے دیس کے ہوتے سوتے
 بے وطنی کو روتے روتے
 دیس کو تم پردیس کہو گے
 اور پردیس کو دیس کہو گے
 دیس کو تم الزام بھی دوگے
 الٹے سیدھے نام بھی دوگے
 ارے دیس کو تم الزام نہ دو
 الٹے سیدھے نام نہ دو
 دیس نے تم کو چھوڑا تھا
 یا تم نے دیس کو چھوڑا تھا
 کیوں اپنوں سے منہ موڑا تھا
 سب رشتوں کو کیوں توڑا تھا
 ارے جوبھی تھا کیا تھوڑا تھا
 
عرفان مرتضی


 

عمیق حنفی

یوم پیدائش 03 نومبر 1928

کہنے کو شمع بزم زمان و مکاں ہوں میں 
سوچو تو صرف کشتۂ دور جہاں ہوں میں 

آتا ہوں میں زمانے کی آنکھوں میں رات دن 
لیکن خود اپنی نظروں سے اب تک نہاں ہوں میں 

جاتا نہیں کناروں سے آگے کسی کا دھیان 
کب سے پکارتا ہوں یہاں ہوں یہاں ہوں میں 

اک ڈوبتے وجود کی میں ہی پکار ہوں 
اور آپ ہی وجود کا اندھا کنواں ہوں میں 

سگریٹ جسے سلگتا ہوا کوئی چھوڑ دے 
اس کا دھواں ہوں اور پریشاں دھواں ہوں میں

عمیق حنفی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...