Urdu Deccan

Friday, January 13, 2023

صائمہ الماس مسرور

یوم پیدائش 27 دسمبر 1977

مطمئن اس لئے جہان میں تھی 
تیرے خوابوں کے سائبان میں تھی

جان نازک پہ بوجھ تھا اتنا
جیسے کونپل کوئی چٹان میں تھی

بن گئے شعلہ بال و پر میرے
اتنی شدت میری اڑان میں تھی

تو زمیں پر تلاشتا تھا مجھے
میں ستارا تھی آسمان میں تھی

اور قصے کا تو بنا کردار
میں کسی اور داستان میں تھی 

مجھ سے شکرے بھی خوف کھاتے تھے
تیر تھی اور کڑی کمان میں تھی

لوگ رُک رُک کے دیکھتے تھے تجھے 
جب جوانی تیری اُٹھان میں تھی

گم رہا تو کسی کی سوچوں میں
میں ہمیشہ تیرے گمان میں تھی

تو بھی معروف تھا قبیلے میں
میں بھی مشہور خاندان میں تھی

صائمہ الماس مسرور

 

 

شبینہ ادیب

یوم پیدائش 27 دسمبر 1974

خموش لب ہیں جھکی ہیں پلکیں دلوں میں الفت نئی نئی ہے
ابھی تکلف ہے گفتگو میں ابھی محبت نئی نئی ہے

ابھی نہ آئے گی نیند تم کو ابھی نہ ہم کو سکوں ملے گا
ابھی تو دھڑکے گا دل زیادہ ابھی یہ چاہت نئی نئی ہے

بہار کا آج پہلا دن ہے چلو چمن میں ٹہل کے آئیں
فضا میں خوشبو نئی نئی ہے گلوں میں رنگت نئی نئی ہے

جو خاندانی رئیس ہیں وہ مزاج رکھتے ہیں نرم اپنا
تمہارا لہجہ بتا رہا ہے تمہاری دولت نئی نئی ہے

ذرا سا قدرت نے کیا نوازا کہ آ کے بیٹھے ہو پہلی صف میں
ابھی سے اڑنے لگے ہوا میں ابھی تو شہرت نئی نئی ہے

بموں کی برسات ہو رہی ہے پرانے جانباز سو رہے ہیں
غلام دنیا کو کر رہا ہے وہ جس کی طاقت نئی

شبینہ ادیب




 

سیما صغیر

یوم پیدائش 27 دسمبر 1959

نظم احساس

میں نے ایک دن خود سے پوچھا
کیا رکھا ہے دنیا میں
جب دیکھیں تو یوں لگتا ہے
کتنی رنگیں دنیا ہے
جب سوچیں تو یوں لگتا ہے
کتنے غم ہیں دنیا میں
دل کے رشتے کھیل کھلونے
کب ٹوٹے کب مٹ جائیں
ہر انساں ہے کتنا تنہا
سانس ہے لینا مشکل کتنا
پھر بھی ہم سب بھاگ رہے ہیں
دنیا دنیا ہائے دنیا
موت و زیست میں فرق ہے کتنا
ہم زندہ ہیں یہ احساس ہی کافی
ہے کیا
ہر سو جسم کی راکھ بجھی ہے
لیکن ایسا کیون لگتا ہے
کوئی چنگاری باقی ہے

سیما صغیر


 

سید محمد جعفری

یوم پیدائش 27 دسمبر 1905
نظم امتحان 

امتحاں سر پر ہے لڑکے لڑکیاں ہیں اور کتاب 
ڈیٹ شیٹ آئی تو گویا آ گیا یوم الحساب 
صرف اک کاغذ کے پرزے سے ہوا یہ انقلاب 
خود بہ خود ہر اک شرارت کا ہوا ہے سد باب 
پہلے تھیں وہ شوخیاں جو آفت جاں ہو گئیں 
''لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں'' 

وقت رٹنے کے لیے کم رہ گیا زیادہ ہے کام 
سال بھر جن کو نہ دیکھا وہ خلاصے نیک نام 
سامنے رکھے ہیں ان کو جھک کے کرتے ہیں سلام 
ان کی پوجا ہی میں سارا وقت ہوتا ہے تمام 
ٹیلی ویژن بھی نہیں غائب ہوئے ہیں سارے کھیل 
ڈال کر کولہو میں بچوں کو نکالو ان کا تیل 

آج کل بھولے ہوئے ہیں سب الیکشن اور ڈیبیٹ 
پریکٹیکل کی کاپیوں کے آج کل بھرتے ہیں پیٹ 
حاضری اب کون بولے کون اب آئے گا لیٹ 
کالج اور اسکول ہیں سنسان خالی ان کے گیٹ 
بند ہے کمرے کے اندر گردش لیل و نہار
کیا خبر آئی خزاں کب کب گئی فصل بہار 

امتحاں کا بھوت ہے یا ہے قیامت کا سماں 
امی اور ابا سے چھپ کر رو رہی ہیں لڑکیاں 
کہتے ہیں لڑکے کیا کرتے تھے جو اٹکھیلیاں 
''یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں'' 
اب ہرن کی طرح سے بھولے ہوئے ہیں چوکڑی 
اس قدر رٹنا پڑا ہے جل اٹھی ہے کھوپڑی 

حال پر بچوں کے ہیں بے حد پریشاں والدین 
ساتھ میں اولاد کے ان کا اڑا جاتا ہے چین 
گرچہ ہے تعلیم اور رٹنے میں بعد المشرقین 
سوچتے ہیں وہ کہ اچھا ذہن ہے خالق کی دین 
کیا خبر تھی اس طرح جی کا زیاں ہو جائے گا 
''یعنی یہ پہلے ہی نذر امتحاں ہو جائے گا'' 

رات بھر جاگیں گے وہ جو سال بھر سوتے رہے 
کاٹنے جاتے ہیں گندم گرچہ جو بوتے رہے 
کیا توقع ان سے رکھیں فیل جو ہوتے رہے 
نقل کر کے داغ کو دامن سے جو دھوتے رہے 
نقش فریادی ہے ان کی شوخی تحریر کا 
معرکہ ہوتا ہے اب تدبیر کا تقدیر کا 

جو سوال امپارٹینٹ آتا ہے ہر اک باب میں 
غور سے دیکھا ہے اس کو دن دہاڑے خواب میں 
ہو گیا ہوں اس لیے بد نام میں اصحاب میں 
آؤٹ کر ڈالا ہے پیپر عالم اسباب میں 
کچھ تو ہے آخر جو گیس پیپر میں آیا یاد تھا 
جس نے پیپر سیٹ کیا ہے وہ مرا استاد تھ

سید محمد جعفری


 

وحید عرشی

یوم پیدائش 27 دسمبر 1943

گلوں کو رنگ ستاروں کو روشنی کے لئے
خدا نے حسن دیا تم کو دلبری کے لئے

تمہارے روئے منور کی ضو میں ڈوب گیا
فلک پہ چاند جو نکلا تھا ہمسری کے لئے

صنم ہزاروں نئے پتھروں کے اندر ہی
تڑپ رہے ہیں ابھی فن آذری کے لئے

ارے او برق تپاں پھونک دے نشیمن کو
ترس رہا ہوں گلستاں میں روشنی کے لئے

رہ وفا میں مرا کون ہے جو ہر سو سے
غبار راہ اٹھی ہے پیمبری کے لئے

نکل پڑا ہے جنوں تھام کر کے دست وفا
اک اجنبی کا سہارا ہے اجنبی کے لئے

جہاں پہ عشق کو سودائے غرض ہو اے وحیدؔ
وہی مقام ہے الفت میں خودکشی کے لئے

وحید عرشی


 

مرزا غالب

یوم پیدائش 27 دسمبر 1797

دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی 
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی 

شق ہو گیا ہے سینہ خوشا لذت فراغ 
تکلیف پردہ داری زخم جگر گئی 

وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں 
اٹھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی 

اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں 
بارے اب اے ہوا ہوس بال و پر گئی 

دیکھو تو دل فریبی انداز نقش پا 
موج خرام یار بھی کیا گل کتر گئی 

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی 
اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی 

نظارہ نے بھی کام کیا واں نقاب کا 
مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی 

فردا و دی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا 
کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی 

مارا زمانہ نے اسداللہ خاں تمہیں 
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی

مرزا غالب



دل شاہجہاں پوری

یوم وفات 26 دسمبر 1959

ہر سانس ہے شرح ناکامی پھر عشق کو رسوا کون کرے 
تکمیل وفا ہے مٹ جانا جینے کی تمنا کون کرے 

جو غافل تھے ہشیار ہوئے جو سوتے تھے بیدار ہوئے 
جس قوم کی فطرت مردہ ہو اس قوم کو زندہ کون کرے 

ہر صبح کٹی ہر شام کٹی بیداد سہی افتاد سہی 
انجام محبت جب یہ ہے اس جنس کا سودا کون کرے 

حیراں ہیں نگاہیں دل بے خود محجوب ہے حسن بے پروا 
اب عرض تمنا کس سے ہو اب عرض تمنا کون کرے 

فطرت ہے ازل سے پابندی کچھ قدر نہیں آزادی کی 
نظروں میں ہیں دل کش زنجیریں رخ جانب صحرا کون کرے

دل شاہجہاں پوری



قمر اعظم صدیقی

یوم پیدائش 26 دسمبر 1983

نظر کو روشنی دل کو اجالا کون دیتا ہے
اندھیری رات کو جگنو سا شیدا کون دیتا ہے

ہماری سانس کو چلنے کی طاقت کس نے بخشی ہے
ہماری روح کو پاکیزہ رشتہ کون دیتا ہے

بدلتے موسموں کو آج بھی ہم غور سے دیکھیں
تو پائیں گے انہیں رحمت کا سایہ کون دیتا ہے

ہمارے کھیت کو فصلوں کی نعمت کس نے بخشی ہے
ہر اک کو رزق کا، قسمت کا دانہ کون دیتا ہے

ہر ایک ماں کے شکم میں پرورش بچوں کی کرتا ہے
کسی پتھر میں کیڑے کو نوالہ کون دیتا ہے

اسی کے ہاتھ میں سب ہے، اسے مختار کل جانو
سوا اس کے کسی کو ایک تنکا کون دیتا ہے

خدا کی حمد لکھوں نعت لکھوں یا غزل لکھوں
قمر دل میں تیرے یہ نیک جذبہ کون دیتا ہے

قمر اعظم صدیقی


 

زاہد منصور

یوم پیدائش 26 دسمبر 

حق آگہی سر میدان پچھاڑ سکتی ہے
خیال و خواب کی جنت اجاڑ سکتی ہے

رخ حیات کی تنویر جاودانی ہے
یہ موت کیا میری صورت بگاڑ سکتی ہے

کسی کے جسم میں روح علی سما جائے
یہ قوم آج بھی خیبر اکھاڑ سکتی ہے

یقین و عزم و عمل ہی وہ تیغ ہے زاہد
جو حادثات کے سینوں کو پھاڑ سکتی ہے 

زاہد منصور



حنیف فوق

یوم پیدائش 26 دسمبر 1926

جسم و جاں کس غم کا گہوارہ بنے
آگ سے نکلے تو انگارہ بنے

شام کی بھیگی ہوئی پلکوں میں پھر
کوئی آنسو آئے اور تارا بنے

لوحِ دل پہ نقش اب کوئی نہیں
وقت ہے آ جاؤ شہ پارا بنے

اب کسی لمحہ کو منزل مان لیں
در بدر پھرتے ہیں بنجارا بنے

کم ہو گر جھوٹے ستاروں کی نمود
یہ زمیں بھی انجمن آرا بنے

جرم نا کردہ گناہی ہے بہت
زندگی ہی کیوں نہ کفارہ بنے

حنیف فوق



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...