Urdu Deccan

Friday, January 13, 2023

اثر رودولوی

یوم وفات 30 دسمبر 1958

مدتوں رنجِ سفر سہہ کے تجھے پایا ہے
اب نہ اے صبحِ وطن شامِ غریباں ہونا

اثر رودولوی



محمد عبدالسمیع صدیقی

یوم پیدائش 30 دسمبر 1983

تمہیں اتنا بتا دوں میں کسی انجام سے پہلے 
بہت سے نام آئیں گے تمہارے نام سے پہلے 

ہر اک اکرام سے پہلے ہر اک انعام سے پہلے 
نمٹنا ہے مجھے یارو کسی الزام سے پہلے 

اندھیرے سے بڑا ہوتا ہے دیکھو ڈر اندھیرے کا 
چراغوں کو جلا رکھا ہے اس نے شام سے پہلے 

میں جب شہرت کے رستے پر نکلتا ہوں تو ملتا ہوں 
گلی کے موڑ پر بیٹھے کسی گمنام سے پہلے 

نعیمؔ اس طرح پاتا ہوں عبادت کا شرف میں بھی 
خدا کا نام لیتا ہوں کسی بھی نام سے پہلے

محمد عبدالسمیع صدیقی



آصف بنارسی

یوم پیدائش 30 دسمبر 1901

شمع کیوں آنے لگی میرے سیہ خانے تک 
دور مجھ سوختہ ساماں سے ہیں پروانے تک 

ہمیں محروم نہ رکھ ساغر مے سے ساقی 
مدتوں میں کبھی آ جاتے ہیں میخانے تک 

حسن نے باندھا ہے ناقابل تسخیر طلسم 
اپنے افسون نظر سے مرے افسانے تک 

میں تو میں ہوں در و دیوار بچھائیں آنکھیں 
کبھی تم آ کے تو دیکھو مرے کاشانے تک 

فرقت گل میں جو تو گرم فغاں ہے بلبل 
آگ لگ جائے نہ گلشن میں بہار آنے تک 

چشم تر ہوتی ہے جس وقت پگھلتا ہے دل 
بڑی مشکل سے یہ مے آتی ہے پیمانے تک 

شدت کرب ہے تمہید سکوں کی لیکن 
جان پر گزرے گی کیا دل کو قرار آنے تک 

ابھی آنکھوں ہی کو دے بزم میں گردش ساقی 
یہی پیمانے چھلکتے رہیں جام آنے تک 

دے نہ دے ساتھ مرا گردش دوراں آصفؔ 
زندہ رہنا ہے بہر حال قضا آنے تک

آصف بنارسی


 

عبیداللہ عبدی

یوم پیدائش 29 دسمبر 2004

ردائے بے بسی اوڑھے ہوئے ہیں
خُنک حالات کے مارے ہوئے ہیں

نمازِ اعتبارِ جاں میں ہر دم
ہم اپنے ہاتھوں کو باندھے ہوئے ہیں

تری فرقت کے باعث اے مرے یار
کشادہ سب کے سب کپڑے ہوئے ہیں 

وہ شب میں کاٹنے آئے تھے مہتاب
جنھوں نے تارے یاں بوئے ہوئے ہیں

ہوس کے دور میں ہم جیسے عبدی
محبت کا بھرم رکھے ہوئے ہیں

عبیداللہ عبدی



بی کے بھاردواج قمر

یوم پیدائش 29 دسمبر 1929

عجب ہے منزلِ راہِ طلب بھی
وہیں پر ہیں چلے تھے ہم جہاں سے

 بی کے بھاردواج قمر


 

نور بھارتی

یوم پیدائش 29 دسمبر 1934

جدید دور ہے کچھ حادثات لے کے چلو
تم اپنے ساتھ مقدر کا ہاتھ لے کے چلو

شبِ الم ہے غمِ کائنات لے کے چلو
دکھوں کے آبلے راہوں میں ساتھ لے کے چلو

ظلسم ٹوٹ ہی جائے گا پھر اندھیرے کا
ہتھیلیوں پہ چراغِ حیات لے کے چلو

اگر ہے شکوہ سحر سے تمہیں تو اپنے لئے
جو ختم ہو نہ کبھی پھر وہ رات لے کے چلو

اکیلے چلنے کا کیا لطف نورؔ دنیا میں
’’چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو‘‘

نور بھارتی



کلیم احمدآبادی

یوم وفات 29 دسمبر 1966

یہ محبت ہے محبت سرگرانی ہو تو کیا
شدت غم سے جگر کا خون پانی ہو تو کیا

روح بن کر میری رگ رگ میں سرایت کر گیا
ایسے درد دل کی کوئی ترجمانی ہو تو کیا

سرد ہو سکتا نہیں سرگرم انساں کا لہو
حادثات نو بہ نو میں زندگانی ہو تو کیا

اپنا جینا ایک دھوکا اپنا مرنا اک فریب
زندگی سے زندگی کی ترجمانی ہو تو کیا

ہر طرح خوش خوش رہی ہے مجھ سے میری زندگی
مہربانی ہو تو کیا نا مہربانی ہو تو کیا

غم نتیجہ ہے خوشی کی انتہا کا اے کلیمؔ
دل کی اک اک موج موج شادمانی ہو تو کیا

کلیم احمدآبادی



باسم فیض آبادی

یوم پیدائش 28 دسمبر 1997

ہو گیا ہے جناب یہ بھی کمال
اٹھ رہا ہے مری صحت پہ سوال

کوئی کہتا ہے روگ عشق کا ہے
کوئی کہتا ہے بیوی کا ہے خیال

ہم سے کچھ دوستوں نے یہ بھی کہا
جلد ہو جائے گا تمہارا وصال

لکھ رہا ہوں میں سچ یقیں جانو
مجھ کو کچھ رنج ہے نہ کوئی ملال

 کوئی بیماری ہو گئی لاحق
جس سے صحت کو آگیا ہے زوال

کردو باسم کے حق میں آپ دعا
جلد مولیٰ کرے صحت کو بحال

 باسم فیض آبادی





ضیاء شادانی

یوم پیدائش 28 دسمبر 1948

گلوں کا رنگ کلی کا شباب مانگے ہے
نگاہ شوق بھی کیا انتخاب مانگے ہے

جو تجھ سے مجھ سے خفا ہو گئے ہیں صدیوں سے
نگاہ پھر انہیں لمحوں کا خواب مانگے ہے

کسی کو کچھ بھی نہیں مل سکا زمانے میں
جسے ملا ہے وہ کیوں بے حساب مانگے ہے

اب اس سے بڑھ کے ترقی کا دور کیا ہوگا
حرم میں بیٹھ کے زاہد شراب مانگے ہے

اب ایسی ضد کا بھلا کیا علاج ہوگا ضیاؔ
وہ ماہتاب ہے اور آفتاب مانگے ہے

ضیاء شادانی


 

شہزاد بزمی

یوم پیدائش 27 دسمبر 1979

بے سبب تلخیاں بڑھاتا ہے
نقل کو اصل وہ بتاتا ہے

ہار جاتا ہے جب دلائل سے
کم نسب تہمتیں لگاتا ہے

کس تمدن کا ہے ہجوم عام
جھوٹ پر تالیاں بجاتا ہے

میں بتاؤں گا اس کے بارے میں
وہ مرے تجربے میں آتا ہے

اک سند یافتہ فقیہہ شہر
کچھ مری مشکلیں بڑھاتا ہے

کیا لڑوں گا میں ایسے بزدل سے
وہ جو عورت پہ ہاتھ اٹھاتا ہے

وقت نقصان حادثہ شہزاد
فرد کو آدمی بناتا ہے

شہزاد بزمی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...