یوم پیدائش 30 دسمبر 1901
شمع کیوں آنے لگی میرے سیہ خانے تک
دور مجھ سوختہ ساماں سے ہیں پروانے تک
ہمیں محروم نہ رکھ ساغر مے سے ساقی
مدتوں میں کبھی آ جاتے ہیں میخانے تک
حسن نے باندھا ہے ناقابل تسخیر طلسم
اپنے افسون نظر سے مرے افسانے تک
میں تو میں ہوں در و دیوار بچھائیں آنکھیں
کبھی تم آ کے تو دیکھو مرے کاشانے تک
فرقت گل میں جو تو گرم فغاں ہے بلبل
آگ لگ جائے نہ گلشن میں بہار آنے تک
چشم تر ہوتی ہے جس وقت پگھلتا ہے دل
بڑی مشکل سے یہ مے آتی ہے پیمانے تک
شدت کرب ہے تمہید سکوں کی لیکن
جان پر گزرے گی کیا دل کو قرار آنے تک
ابھی آنکھوں ہی کو دے بزم میں گردش ساقی
یہی پیمانے چھلکتے رہیں جام آنے تک
دے نہ دے ساتھ مرا گردش دوراں آصفؔ
زندہ رہنا ہے بہر حال قضا آنے تک