Urdu Deccan

Friday, January 13, 2023

خالدہ نازش

یوم پیدائش 01 جنوری 1975

وفا پر یہ ستم ہونے سے پہلے
سرِ تسلیم خم ہونے سے پہلے

میں تجھ کو بھول جانا چاہتی ہوں
اسیرِ رنج و غم ہونے سے پہلے

مجھے مرنا گوارا ہو نہ جائے
تری چشمِ کرم ہونے سے پہلے

چلے جاؤ مرے ہم راز اٹھ کر
مری پلکوں کے نم ہونے سے پہلے

اسے معلوم ہے میری نظر میں
وہ کیا تھا محترم ہونے سے پہلے

مرے دامن میں تھیں خوشیاں ہزاروں
تمھاری ہم قدم ہونے سے پہلے

خالدہ نازش



طاہر سعود کرتپوری

یوم پیدائش 01 جنوری 1993

اس طرح ہیں ہم کسی کے واسطے
وزن جیسے، شاعری کے واسطے

میری قسمت میں اسےلکھ اس طرح
فاطمہ جیسے علی کے واسطے

اک پڑوسی رات بھر روتا رہا
اک پڑوسی کی خوشی کے واسطے

کچھ دنوں کا فقر و فاقہ اور غم
کیا بھلا اک جنتی کے واسطے

جس نے بخشےہیں ہمیں پیارےرسول
ساری تعریفیں اسی کے واسطے

باپ کے پاؤں دبائے عمربھر
ماں کے چہرےکی خوشی کےواسطے

طاہر سعود کرتپوری
 


تبسم فرحانہ

یوم پیدائش 01 جنوری 1968

کبھی ماہ پاروں کی بھی بات کر لیں
افق کے شراروں کی بھی بات کر لیں

زمیں کی تو با تیں بہت ہو چکی ہیں
چلو اب ستاروں کی بھی بات کر لیں

اندھیرے سے گزرے بیاباں میں پہنچے
اٹھو مرغ زاروں کی بھی بات کر لیں

چلو چاند مریخ کو دیکھ آئیں
ان اجڑے دیاروں کی بھی بات کر لیں

بلندی عمارت کی کیا دیکھتے ہو
جڑوں میں شراروں کی بھی بات کر لیں

محبت شرافت کتابوں میں دیکھی
دلوں میں دراڑوں کی بھی بات کر لیں

غریبوں کی نگری میں چل کر تبسم
زرا کام گاروں کی بھی بات کر لیں

تبسم فرحانہ



شکیل اوج

یوم پیدائش 01 جنوری 1960

ان کے نام پاک پر مرجائیے
موت کو فخر شہادت کیجیے

مرزع اسلام کو پھر سینچ کر
قلبِ کافر پر قیامت کیجیے

حق پرستی کی سزا کیونکر ملے
آگے بڑھیے اور جرأت کیجیے

حق نے باطل کومٹایا جس طرح
پھر اسے زندہ حقیقت کیجیے

فیصلہ کن انقلاب آنے کو ہے
پیش دعوے پرشہادت کیجیے

شکیل اوج



اطہر گنوری

یوم پیدائش 01 جنوری 1959

ہوا کا رخ بدلنا چاہتا ہے
یہ دل طوفاں میں ڈھلنا چاہتا ہے

نگاہیں ان سے محوِ گفتگو ہیں
اک افسانہ مچلنا چاہتا ہے

کشش کیسی چراغوں میں نہاں ہے
ہر اک پر وانہ چلنا چاہتا ہے

کسی کے غم کی دل کو جستجو ہے
یہ پتھر بھی پگھلنا چاہتا ہے

زمیں آنکھووں کی پُرنم ہورہی ہے
کوئی چشمہ ابلنا چاہتا ہے

یہ دل ناداں نہیں تو اور کیا ہے
محبت میں سنبھلنا چاہتا ہے

غزل کہتے ہوئے اطہر کا دل بھی
نئی راہوں پہ چلنا چاہتا ہے

اطہر گنوری



رئیس اعظم حیدری

یوم پیدائش 01 جنوری 1956

ہم اپنے ظرف کی زنبیل کو رسوا نہیں کرتے
متاع غیر اپنی جھولی میں رکھا نہیں کرتے

عقیدت سے سجاکر اپنی الماری میں رکھتے ہیں
ہم اپنی کسوت فانوس کا سودا نہیں کرتے

 اندھیرے دشت و صحرا سے گزر جاتے ہیں ہنس کر ہم
فروغ نور کو حسرت سے ہم دیکھا نہیں کرتے

 بہت دشوار سطح آسماں پر جا نا ہے لیکن
کبھی ہم کوشش پیہم سے منہ موڑا نہیں کرتے

ہمیں زنداں میں ڈالیں چاہے رکھیں تپتے صحرا میں
کبھی ہم شور جولاں سے بھی گھبرایا نہیں کرتے

 سویدا دل کا آجائے ابھر کر اس لئے ڈر سے
ہم اپنے آئینے کے سامنے چہرہ نہیں کرتے

رئیس اپنی انا کو ٹھیس پہنچے گی اسی خاطر
کبھی ہم حلقہ زنار میں بیٹھا نہیں کرتے

رئیس اعظم حیدری



خورشید علیگ

یوم پیدائش 01 جنوری 1956

جس نے دامن تھاما ہوگا 
پھول نہیں وہ کانٹا ہوگا 

پتھر لے کر لوگ آئے ہیں 
مجھ کو شیشہ سمجھا ہوگا 

بستی میں اب کس کو ڈھونڈوں 
قاتل ہی اک تنہا ہوگا 

دوکانوں پر بھیڑ یہ کیسی 
خون کسی کا بکتا ہوگا 

گھر کو آگ لگائی کس نے 
کوئی نہیں ہمسایہ ہوگا 

بھیگے بھیگے لفظ ہیں خط میں 
لکھنے والا رویا ہوگا 

رات گئے خورشیدؔ یہ دستک 
شاید کوئی بھوکا ہوگا 

خورشید علیگ



انور اداس

یوم پیدائش 01 جنوری 1956

یُوں سناں کی نوک پر ہے ایک سر رکھّا ہُوا
جس طرح سُورج ہو کوئی بام پر رکھّا ہُوا

ہے عجب ہی شخص وہ دُشمن سمجھتا ہے اُسے
جس کے ہاتھوں میں ہے کوئی بھی ہُنر رکھّا ہُوا

قدغنیں اُس نے لگا رکھّیں ہیں اپنے شہر میں
اِس طرح ہے اُس نے خُود کو معتبر رکھّا ہُوا

ساحلوں پر منتظر لوگوں نے جانے کِس لیے
باندھ کر ہے میرے پاؤں سے بھنور رکھّا ہُوا

مت سمجھ ٹھہرے ہُوئے پانی کو اِتنا پُر سکوں
اِس کی خاموشی میں بھی ہے شوروشر رکھّا ہُوا

اُس کا چہرہ ہے چھُپا کالی گھٹا کی اوٹ میں
یا سیاہ زُلفوں میں ہے کوئی قمر رکھّا ہُوا

وہ مِرے دِل سے کبھی بھی محو ہو سکتا نہیں
میں نے اُس کی یاد کو ہے ہمسفر رکھّا ہُوا

جانتا ہے پتھّروں کے شہر کا باسی ہے وہ
پھر بھی انورؔ اُس نے ہے شیشے کا گھر رکھّا ہُوا

انور اداس



حسرتؔ موہانی

یوم پیدائش 01 جنوری 1875

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے

باہزاراں اضطراب و صدہزاراں اشتیاق
تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے

بار بار اٹھنا اسی جانب نگاہ شوق کا
اور ترا غرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے

تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا
اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے

کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً
اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے

جان کر سوتا تجھے وہ قصد پا بوسی مرا
اور ترا ٹھکرا کے سر وہ مسکرانا یاد ہے

تجھ کو جب تنہا کبھی پانا تو از راہ لحاظ
حال دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے

جب سوا میرے تمہارا کوئی دیوانہ نہ تھا
سچ کہو کچھ تم کو بھی وہ کارخانا یاد ہے

غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف
وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے

آ گیا گر وصل کی شب بھی کہیں ذکر فراق
وہ ترا رو رو کے مجھ کو بھی رلانا یاد ہے

دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے

آج تک نظروں میں ہے وہ صحبت راز و نیاز
اپنا جانا یاد ہے تیرا بلانا یاد ہے

میٹھی میٹھی چھیڑ کر باتیں نرالی پیار کی
ذکر دشمن کا وہ باتوں میں اڑانا یاد ہے

دیکھنا مجھ کو جو برگشتہ تو سو سو ناز سے
جب منا لینا تو پھر خود روٹھ جانا یاد ہے

چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ
مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے

شوق میں مہندی کے وہ بے دست و پا ہونا ترا
اور مرا وہ چھیڑنا وہ گدگدانا یاد ہے

باوجود ادعائے اتقا حسرتؔ مجھے
آج تک عہد ہوس کا وہ فسانا یاد ہے

حسرتؔ موہانی



کرشن اقبال

یوم پیدائش 01 جنوری 1942

گیا تھا پھسل پاؤں راہ عمل میں
گرا تو لگی چوٹ کس کر بغل میں

مری رو سیاہی تو پھیلی ہے ہرسو
سمٹ آئی مسکان اس کی کنول میں

مرے حوصلوں کا جواں اسپ تازی
بندھا ہے ترے ظلم کے اصطبل میں

مری زیست کے سارے بے نور ایام
کٹے ہیں مصائب کے دشت و جبل میں

نہ پوچھو کہاں آکے اٹکی ہے ہستی 
گزرتی ہے عمر انتظار اجل میں

جو سمجھو اک اک شعر سونے کے سکے
تومیرا بھی لو نام اہل دول میں

کرشن اقبال



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...