Urdu Deccan

Sunday, January 15, 2023

بدیع الزماں خاور

یوم پیدائش 10 جنوری 1938

آگ ہی کاش لگ گئی ہوتی 
دو گھڑی کو تو روشنی ہوتی 

لوگ ملتے نہ جو نقابوں میں 
کوئی صورت نہ اجنبی ہوتی 

پوچھتے جس سے اپنا نام ایسی 
شہر میں ایک تو گلی ہوتی 

بات کوئی کہاں خوشی کی تھی 
دل کو کس بات کی خوشی ہوتی 

موت جب تیرے اختیار میں ہے 
میرے قابو میں زندگی ہوتی 

مہک اٹھتا نگر نگر خاورؔ 
دل کی خوشبو اگر اڑی ہوتی

بدیع الزماں خاور



حنیف شارب

یوم پیدائش 10 جنوری 1960

ٹہرے ہوں محبت کے خریدار جہاں پر 
کیسے میں وہاں جاؤں بکے پیار جہاں پر 

میں امن کا حامی ہوں , کسی طور نہ جاؤں 
ہر شخص لئے پھرتا ہو تلوار جہاں پر 

میں بھوک مٹانے کے لئے جاتا ہوں اکثر 
موجود بہت سارے ہوں دربار جہاں پر 

رحمت کے فرشتے کبھی اس گھر نہیں آتے 
ہوتی ہو شب و روز ہی تکرار جہاں پر 

انصاف کسے کب ملے اس تنگ نگر میں 
ہونٹوں پہ ہو پابندیء اظہار جہاں پر 

کھلتے ہی نہیں پھول وفاؤں کے اے صاحب 
ہر روز گرے صبر کی دیوار جہاں پر

اخلاص و محبت وہاں پھر کیسے ہو قائم
 رہتے ہوں فقط سارے ہی مکار جہاں پر 

وہ ملک کسی طور بھی آگے نہیں بڑھتا 
بکتے ہوں حکومت کے وفادار جہاں پر 

نفرت سدا پروان چڑھے کیوں نہ بہ کثرت 
مٹ جاتے ہوں سچائی کے کردار جہاں پر

شارب کو نہ لے جاؤ وہاں , میرے اے ہمدم 
تعمیر ہوں نفرت بھرے مینار جہاں پر 

حنیف شارب
 


رباب رشیدی

یوم پیدائش 10 جنوری 1940

تجھ سے جب تک اس طرح اپنی شناسائی نہ تھی 
اپنے گھر جیسی تو صحرا میں بھی تنہائی نہ تھی 

اب تو رشک آتا ہے خود اپنے ہی جملوں پر ہمیں 
اس سے پہلے تھی مگر یہ شان گویائی نہ تھی 

اب مجھے کیوں اپنے مستقبل کا آتا ہے خیال 
آج تک شاید مرے ہم راہ دانائی نہ تھی 

تجربوں کے واسطے کچھ لغزشوں کی چھوٹ ہے 
اب میں سمجھا کیوں مجھے ہر بات سمجھائی نہ تھی 

عالم حیرت میں گزرے ہیں وہاں سے بھی جہاں 
زندگی اپنی طرح بے عکس و بے آئینہ تھی 

وہ کہاں ہے منظروں میں ڈھونڈتے ہو تم جسے 
گھر سے کیوں نکلے تھے جب نظروں میں رعنائی نہ تھی 

تجھ سے ملنے تک نہ تھا خود اعتمادی کا پتا 
اور کچھ اپنی طبیعت نے جلا پائی نہ تھی 

ویسے تو اب تک بنائیں کتنی تصویریں ربابؔ 
شوق کی حد تک مگر رنگوں میں گہرائی نہ تھی

رباب رشیدی



امتیاز احمد دانش

یوم پیدائش 10 جنوری 1963

اے نظاروں مجھے کچھ غم کے سوا یاد نہیں
کب مرے شہر سے گزری تھی صبا یاد نہیں

یوں فلک پر تو ستارے تھے درخشاں لیکن
راہ ظلمات میں کب ابھری ضیا یاد نہیں

تنکے کی طرح بکھر ہی گیا تھا میرا وجود
کن گناہوں کی ملی مجھ کو سزا یاد نہیں

بے خودی میں بھلا کچھ ہوش کہاں تھا خود کو
کس طرح اپنا یہ سرمایہ لٹا یاد نہیں

تیری حساس مزاجی پہ ہنسی آتی ہے 
ایک قصہ بھی تجھے درد بھرا یاد نہیں

وقت کی بھیڑ میں ہم لوگ بھی کتنے گم ہیں
کون زندہ ہے ابھی کون مرا یاد نہیں

ہم نے ہر دور میں موسم کا اثر دیکھا ہے 
اس قدر ملک کی بگڑی تھی فضا یاد نہیں

کتنی غمناک تھی وہ شام جدائی دانش
کس طرح وقت کا سورج یہ ڈھلا یاد نہی

امتیاز احمد دانش



اسد تسکین

یوم پیدائش 09 جنوری 

ادھر ذرا سی لرزش آٸی دست باغبان میں
گلاب سوکھنے لگے کسی محل کے لان میں

میں سن کہ چپ ہوا اور اٹھ کر اس کے پیچھے چل پڑا
رقیب سوچتے رہے کہ کیا کہا ہے کان میں

میں بد مزاج افسروں کی نوکری نہ کر سکا
وگرنہ کامیاب ہو گیا تھا امتحان میں

یہ لوگ میری بزم کے تماش بین تھے کبھی 
جو آج کل قصیدے پڑھ رہے ہیں تیری شان میں

مرے بغیر ہی ہو جاتے ہیں سب اہم فیصلے 
میں مختلف ہوں باقیوں سے پورے خاندان میں 

اسد تسکین



ثمینہ رحمت منال

یوم پیدائش 09 جنوری 1976

موت کو تھامیں گے صدمے میں نہیں آئیں گے 
زندگی ہم تیرے حصے میں نہیں آئیں گے 

ہم کو تفتیش کا حق ہے وہ کریں گے پوری 
اب کے ہم آپ کے جھانسے میں نہیں آئیں گے 

ہم بکھرتے ہوئے موتی ہیں ہمیں مت چنئے 
ہم کبھی وقت کے دھاگے میں نہیں آئیں گے 

ہم کو کیا آپ کو دعویٰ ہے خدائی کا اگر 
ہم کبھی آپ کے کہنے میں نہیں آئیں گے 

ہم بڑے شہر کے باسی بھی ہیں مغرور بھی ہیں 
ہم کبھی آپ کے قصبے میں نہیں آئیں گے 

اشک بن کے تری پلکوں پہ سجیں گے لیکن 
عکس بن کے ترے چشمے میں نہیں آئیں گے 

ہم گزارے ہوئے لمحوں میں ٹھہر جائیں گے 
ہم گزرتے ہوئے لمحے میں نہیں آئیں گے 

رات کو لوٹتے پھرتے ہیں جو لوگوں کا سکوں 
وہ کبھی دن کے اجالے میں نہیں آئیں گے 

ہم سا تم کوئی بنا پاؤ یہ ممکن ہی نہیں 
ہم کسی بخت کے سانچے میں نہیں آئیں گے 

یہ جو افلاک کے آنسو ہیں دکھاوے کے ہیں بس 
ہم تو بارش کے برسنے میں نہیں آئیں گے 

زندگی تو نے وفا کی نہ نبھائی جن سے 
وہ کبھی تیرے بھروسے میں نہیں آئیں گے

ثمینہ رحمت منال



رحمان راہی

یوم وفات 09 جنوری 2023

بہت آئے مگر ہم جیسے کم ہی دیدہ ور آئے
ہماری طرح جو انکے لب و رخ تک گذرآئے

فریب جستجو ہے یہ کہ ہے تکمیل نظارہ
نگاہ شوق جس جانب اٹھی تم ہی نظر آئے

نظر آیا نہ شام بے کسی پرسان غم کوئی
اجالا پھیلتے ہی کس قدر سائے ابھر آئے

سمیٹے ہی رہے کانٹوں کے ڈر سے لوگ دامن کو
صبا کی طرح ہم تو وادئ گل سے گذر آئے

نہ جانے کس قدر راہوں کے پیچ و خم سے گذرے ہیں
کہیں پھر جاکے راہی ہم کو آداب سفر آئے

رحمان راہی


 


فیاض انور چاپدانوی

یوم وفات 08 جنوری 2023

فلک سے آئی صدا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
زمین نے بھی کہا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
اذان جب کسی مسجد سے سربلند ہوئی
فضا میں گونجی صدا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ

فیاض انور چاپدانوی



ابراہیم ایاز حیدرآبادی

یوم پیدائش 09 جنوری 1979

دے دیا اپنے بھی حصے کا نوالا ہم نے
کسی سائل کو مگر در سے نہ ٹالا ہم نے

جانے کب لوٹ کے آ جائے وہ جانے والا
دل کے دروازہ پہ تالا نہیں ڈالا ہم نے

زندگی اپنی اندھیروں میں گزاری لیکن
پاس رکھا نہیں مانگے کا اجالا ہم نے

دل خدا نے ہمیں درویش صفت بخشا ہے
خواہشوں کا کوئی پنچھی نہیں پالا ہم نے

ہم ہیں شرمندہ بہت مانگنے والے تجھ سے
کوئی سکہ ترے کاسے میں نہ ڈالا ہم نے

چاہنے والے ہزاروں ہیں ہمارے لیکن
تم سا دیکھا ہی نہیں چاہنے والا ہم نے

اس لیے دل نہیں لگتا ہے عبادت میں ایازؔ
کعبۂ دل سے بتوں کو نہ نکالا ہم نے

ابراہیم ایاز حیدرآبادی



نادر اسلوبی

یوم پیدائش 09 جنوری 

خوشی کو کہتے ہیں دن، غم کو رات کہتے ہیں
اسی قبولِ اثر کو حیات کہتے ہیں

ہمارا جینا اسی واسطے ضروری ہے
ہماری مات کو وہ اپنی مات کہتے ہیں

یہی گلہ ہے انہیں بھی کہ ہر غزل میں ہم
چھپاتے کچھ نہیں، ہر ایک بات کہتے ہیں

تکلفات بھی آتے ہیں درمیان اکثر
وہ ایک ساتھ کہاں اپنی بات کہتے ہیں

انہیں سمجھنے میں ہوں اس لئے بھی میں نا کام
وہ میرے آگے کہاں ساری بات کہتے ہیں

خیال ولفظ پرکھنے کا جن کو ہے ملکہ
 وہ لفظ لفظ کو اک کائنات کہتے ہیں
 
کبھی وہ روٹھتے ہیں روٹھتے کبھی ہم ہیں
اس انقلاب کو نادر حیات کہتے ہیں

نادر اسلوبی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...