Urdu Deccan

Tuesday, April 4, 2023

تحسین روزی

یوم پیدائش 06 مارچ

پردیس سے تم لوٹ کے آؤ گے نہ جب تک
آسائش و راحت کو بھی آزار لکھوں گی

چپ رہ کے بھی کہہ دیتی ہیں سب کچھ تری آنکھیں
میں تیری خموشی کو بھی گفتار لکھوں گی

جب تک وہ خفا مجھ سے رہے گا بخدا میں
خود کو ہی خطا وار و گنہگار لکھوں گی

گر چھو لے مجھے آکے ترے پیار کی خوشبو
صحرا کو بھی صحرا نہیں گلزار لکھوں گی

ہاں! تیری محبت میں ہی دیوانی ہوئی ہوں
اک بار نہیں ، میں اسے سو بار لکھوں گی

اچھی نہیں لگتی ہیں جسے پیار کی باتیں
اس شخص کو تحسینؔ میں بیمار لکھوں گی

تحسین روزی


 

وقار صدیقی

یوم پیدائش 06 مارچ 1932

جسے دیکھو درندہ سا لگے ہے 
یہ سارا شہر تو صحرا لگے ہے 

نہ چھت اپنی نہ یہ دیوار اپنی 
نہ در اپنا نہ گھر اپنا لگے ہے 

خدا ہی جانتا ہے حال اس کا 
وہ کیا ہے اور مجھ کو کیا لگے ہے 

کوئی تو بات ہے اس آدمی میں 
برا ہو کر بھی جو اچھا لگے ہے 

نہ جانے دوریاں کیوں بڑھ گئی ہیں 
جو اپنا تھا پرایا سا لگے ہے 

شرد کی پورنیما میں تاج کا حسن 
بڑا دل کش بہت پیارا لگے ہے 

حدیث دل سناتے کیوں نہیں اب 
یہ قصہ کیا فسانہ سا لگے ہے 

وہ جانے سوچتا رہتا ہے کیا کیا 
اسے یہ دنیا جانے کیا لگے ہے 

وقار صدیقی


 

سلطان ساجد

یوم پیدائش 06 مارچ 1947

یاد ماضی کے کئی خواب سہانے آئے
مجھ سے ملنے جو مرے یار پرانے آئے

جس کے حصے میں محبت کے خزانے آئے
دن سمجھ لیجیے اُس کے ہی سہانے آئے

ایک مدت سے تڑپتی ہے یہ خواہش دل میں
خشک ہونٹوں پہ کوئی پھول کھلا نے آئے

دولتِ صبر سے لبریز ہے سینہ اپنا
کیوں ہمیں خواب وہ جنت کے دکھانے آئے

عمر بھر جن کو رہی ہم سے عداوت بے جا
آج تربت پہ وہی پھول چڑھانے آئے

جھوٹے موسم کے سبھی آج اشارے نکلے
دن وہی لوٹ کے پھر دیکھ پرانے آئے

 رُخ سمندر کا میاں دیکھ کے حیران ہیں ہم
کون طوفان میں کشتی کو بچانے آئے

شہر جلتا ہے تو جل جائے بلا سے ساجد
کس کو فرصت ہے یہاں آگ بجھانے آئے

سلطان ساجد


 

نورین طلعت عروبہ

یوم پیدائش 04 مارچ 1957

نمو کو شاخ کے آثار تک پہنچنا ہے 
بکھر کے پھول نے مہکار تک پہنچنا ہے 

ہم اپنی سلطنت شعر میں بہت خوش ہیں 
وہ اور ہیں جنہیں دربار تک پہنچنا ہے 

غریب شہر کے بہتے لہو کا ذکر فقط 
وہ سرخیاں جنہیں اخبار تک پہنچنا ہے 

ہمیں جو چپ سی لگی ہے یہ بے سبب تو نہیں 
کسی خیال کو اظہار تک پہنچنا ہے 

طلسم عمر کی تعریف ساری اتنی سی 
اک آئنہ جسے زنگار تک پہنچنا ہے 

کچھ ایسے لوگ جو شانوں پہ سر نہیں رکھتے 
مگر یہ زعم کہ دستار تک پہنچنا ہے 

وہ دن گئے کہ کوئی اشک پونچھنے آئے 
یہاں تو آپ کو غم خوار تک پہنچنا ہے

نورین طلعت عروبہ


 

کلیم ضیاء

یوم پیدائش 04 مارچ 1956

قدم بڑھاتے ہی منزل دِکھانے لگتے ہیں
یہ راستے تو بڑے ہی سیانے لگتے ہیں

کسی غریب کے گھر میں اُگے اگر سورج
اندھیرے پورے محلّے پہ چھانے لگتے ہیں

ہَوا بھی رُخ کبھی اپنا جِدھر نہیں کرتی 
اُسی گلی کے مناظِر سُہانے لگتے ہیں

خزاں میں پیڑ پہ پتّے ذرا نہیں ٹِکتے
بہار آتے ہی رشتے نِبھانے لگتے ہیں

حِنا کا بوجھ اُٹھانے کی جِن میں تاب نہیں
وہ آسمان کو سَر پر اُٹھانے لگتے ہیں

کسی نظر سے اُترنے کو ایک پَل ہے بہت
نظر میں چَڑھنے کو لیکن زمانے لگتے ہیں

کلیم ضیاء


 

سرور ارمان

یوم پیدائش 04 مارچ 1953

روشنی سے تیرگی تعبیر کر دی جائے گی 
رنگ سے محروم ہر تصویر کر دی جائے گی
 
عدل کے معیار میں آ جائیں گی تبدیلیاں 
بے گناہی لائق تعزیر کر دی جائے گی 

ہر نظر کو آرزوؤں کا سمندر بخش کر 
ہر زباں پر تشنگی تحریر کر دی جائے گی 

دب کے رہ جائیں گے جذبوں کے اجالے ایک دن 
ظلمت افلاس عالمگیر کر دی جائے گی 

ہر کلائی ہر تمنا ہر حقیقت ہر وفا 
آشنائے حلقۂ زنجیر کر دی جائے گی 

بانجھ ہو کر رہ گیا جس وقت دھرتی کا بدن 
تب ہمارے نام یہ جاگیر کر دی جائے گی 

دفن کر کے اس کی بنیادوں میں انسانوں کے سر 
اک مہذب شہر کی تعمیر کر دی جائے گی

سرور ارمان


 

رشیدہ عیان

یوم پیدائش 04 مارچ 1932

مرے قلم کا اگر سر کبھی قلم ہوگا 
نیا فسانۂ درد و الم رقم ہوگا 

یہ مانتی ہوں مٹا دے گا میرا دور مجھے 
نئے زمانے کا اس خاک سے جنم ہوگا 

میں اپنے آپ کی پہچان بھول بیٹھی ہوں 
اب اس سے اور بڑا کیا کوئی ستم ہوگا 

نہ جانے کیوں مجھے سچ بولنے کی عادت ہے 
یہ جان کر کہ ہر اک گام سر قلم ہوگا 

چلو اٹھاتے ہیں ایوان وقت کا ملبہ 
اسی میں دفن مری ذات کا صنم ہوگا 

فلک نے موند لیں آنکھیں زمیں نے روکی سانس 
عیاںؔ کا آج نئی راہ پر قدم ہوگا

رشیدہ عیان



عقیل الرحمن وقار

یوم پیدائش 03 مارچ 1960

ہم بنے تھے تباہ ہونے کو
آپ کا عشق تو بہانا تھا!

عقیل الرحمن وقار


 

وفا سکندر پوری

یوم پیدائش 03 مارچ 1945

نظر سے کہہ دو نہ سونپے زباں کو اپنی بات
نگاہ ِ عام میں ہوگی نہیں یہ اچھی بات

 وہ ایک بات جو ہم دونوں کر گئے محسوس 
زمانہ اس کو سمجھتا ہے بے تکی سی بات

فسانہ وقت کا سنتا ہے آدمی لیکن
سنے نہ وقت کبھی رُک کے ، آدمی کی بات

گو اچھی بات ہے آہستہ بولیے پھر بھی
کہیں پڑوس میں پھیلے نہ الٹی سیدھی بات

خلوص ، جذبہ ء ایشار ، اتحاد ، وفاؔ
 مرے شعور میں آئی ہے کس صدی کی بات
 
وفا سکندر پوری



ابوالمجاب راؤ لیاقت علی آزاد

یوم پیدائش 03 مارچ 1953

محنت بغیر کچھ بھی کسی کو ملا نہیں 
ہمت ہے گر بلند تو کچھ بھی چُھپا نہیں

ٰعلم و ہنر کو اپنی پسِ پُشت ڈال کر
روتے ہیں پھر نصیب کو اس میں لکھا نہیں

دنیا میں گرنا گر کے سنبھلنا تو عام ہے 
پر جس طرح سے ہم گرے کوئی گرا نہیں 

جو چین ڈھونڈتے ہیں شراب و شباب میں 
انکو کبھی سکون کا رستہ ملا نہیں 

وہ جو کہ امتی ہیں سراجٙٙ منیر کے
افسوس ان کے ہاتھ میں کوئی دِیا نہیں 

 ابوالمجاب راؤ لیاقت علی

آزاد

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...