پردیس سے تم لوٹ کے آؤ گے نہ جب تک
آسائش و راحت کو بھی آزار لکھوں گی
چپ رہ کے بھی کہہ دیتی ہیں سب کچھ تری آنکھیں
میں تیری خموشی کو بھی گفتار لکھوں گی
جب تک وہ خفا مجھ سے رہے گا بخدا میں
خود کو ہی خطا وار و گنہگار لکھوں گی
گر چھو لے مجھے آکے ترے پیار کی خوشبو
صحرا کو بھی صحرا نہیں گلزار لکھوں گی
ہاں! تیری محبت میں ہی دیوانی ہوئی ہوں
اک بار نہیں ، میں اسے سو بار لکھوں گی
اچھی نہیں لگتی ہیں جسے پیار کی باتیں
اس شخص کو تحسینؔ میں بیمار لکھوں گی