Urdu Deccan

Friday, April 7, 2023

صلاح الدین تسکین

یوم پیدائش 18 مارچ 1956

تیری الفت کی قسم جو کہہ دیا سو کہہ دیا
ہاتھ میں لے کر قلم جو کہہ دیا سو کہہ دیا

حق بیانی کے لیے ڈرتا نہیں ہوں میں کبھی
ہاتھ میں لے کر قلم جو کہہ دیا سو کہہ دیا

میں نے رکھا ہے صداقت کو سدا پیشِ نظر
ہو بھی جائے سر قلم جو کہہ دیا سو کہہ دیا

کردیا اظہارِ حق تسکینؔ میں نے شعر میں
چاہے کھل جایے بھرم جو کہہ دیا سو کہہ دیا

صلاح الدین تسکین


اعجاز مانپوری

یوم پیدائش 18 مارچ 1963

جو سمندر ہمیں گھنگھور گھٹا دیتا ہے 
وہی قطروں کو بھی دریا سے ملا دیتا ہے 

جدت آموز زمانہ ہمیں کیا دیتا ہے 
راہ کی دھول سمجھتا ہے اڑا دیتا ہے 

مفلسی کتنی تڑپ اٹھتی ہے بیتابی سے 
آ کے سائل جو کبھی در پہ صدا دیتا ہے 

ضبط کا پیڑ گھنا دل میں لگائے رکھنا 
یہ گھنا پیڑ سدا ٹھنڈی ہوا دیتا ہے 

تہہ میں جاؤ گے تو موتی بھی ملیں گے تم کو 
بلبلہ سارے خزانے کا پتہ دیتا ہے 

چین سے رہتا ہے بنیاد کا پتھر اعجازؔ 
زلزلہ اونچی عمارت کو گرا دیتا ہے

اعجاز مانپوری


 

واقف آروی

یوم پیدائش 18 مارچ 1916

اچھی نہیں ہمیشہ حقیقت کی بات چیت
کرتے ہیں لوگ اس سے شرارت کی بات چیت

مومن ہلاک لذت افطار ہو گیا
لیکن زباں پہ اس کی ہے جنت کی بات چیت

وہ آئے جب تو بحث کا نقشہ بدل گیا
کل سے چھڑی ہوئی تھی حماقت کی بات چیت

ہر روزہ دار مفتی اسلام ہوگیا
ہر مسئلہ میں کرتا ہے جنت کی بات چیت

روزہ میں کھل کے ہوتی ہے دو مفتیوں میں جنگ
اور اس کے بعد صاف جہالت کی بات چیت

 کرتے ہیں ضبط غصہ کو دونوں بجبر وقہر
رہ جاتی ہے ادھوری شجاعت کی بات چیت

مغرب کے بعد چھڑتی ہے پھر ٹھنڈی ٹھنڈی جنگ
ہوتی ہے سرد سرد امامت کی بات چیت

ایسے بھی خال خال ہیں جن سے اگر ملو
کرتے ہیں کچھ شگفتہ طبیعت کی بات چیت

رکھتے ہیں وہ بلندئ گفتار فطرتاً
شکوے کا شائبہ نہ شکایت کی بات چیت

دشمن کے نام کو بھی وہ لیتے ہیں اس طرح
اڑ جاتی ہے ہوا میں عداوت کی بات چیت

اور ایسے روزہ دار بھی ملتے ہیں صبح وشام
ہوتی ہے جن کے انس میں وحشت کی بات چیت

ذکر عذاب قبر زباں پر ہے رات دن
ملتے ہی چھیڑتے ہیں قیامت کی بات چیت

واقف آروی


 

مجذوب چشتی

یوم پیدائش 16 مارچ 1938

غبارِ کرب سے چہرہ گلاب کون کرے
تلاش رات کے وقت آفتاب کون کرے

مجذوب چشتی


 

میر غلام علی نازکی

یوم پیدائش 16 مارچ 1910

ضبط فغاں نہیں ہے مرے دسترس کی بات
جی بھر کے رولوں یہ بھی نہیں میرے بس کی بات

آدم بوصف خاک نژادی ہے رو بہ عرش
ثابت ہوئی ہے آج یہ صدہا برس کی بات

سنتا ہے کون اہلِ نظر سے حدیث دل
اہل ہوس کو بھاتی ہے اہل ہوس کی بات

وہ انہماک تھا کہ میں کچھ بھی نہ سن سکا
صحن چمن کا حال نہ کنج قفس کی بات

دل نے کبھی خرد کی امامت نہ کی قبول
غنچے کو نا پسند ہوئی خار و خس کی بات

اس دور کا مذاق ہی بگڑا ہوا سا ہے
گویا کوئی دلیل ہے ہر بوالہوس کی بات

مایوسیوں میں تیر تبسّم تھا دلنواز
جیسے کسی طبیب مسیحا نفس کی بات

میر غلام علی نازکی


 

فرہاد احمد فگار

یوم پیدائش 16 مارچ 1982

دیکھ تو کیا کمال رکھتی ہیں 
تیری آنکھیں سوال رکھتی ہیں 

چلی آتی ہیں میری خلوت میں 
یادیں کتنا خیال رکھتی ہیں 

سامنے جس قدر بھی مشکل ہو 
سب دعائیں سنبھال رکھتی ہیں 

عشق میں ہیں صعوبتیں ایسی 
مجھ کو ہر پل نڈھال رکھتی ہیں 

شوخ چنچل ادائیں بھی تیری 
آپ اپنی مثال رکھتی ہیں 

تجھ سے یہ دوریاں فگارؔ اکثر 
میرا جینا محال رکھتی ہیں 

فرہاد احمد فگار


 

سید اظہار مہدی بخاری

یوم پیدائش 15 مارچ 1973

خطہ ء پاک کے ہر گوشے سے آئے ہوئے لوگ
امن و تعلیم کی محفل ہیں سجائے ہوئے لوگ

زیورِ صبر و تحمل سے ہیں آراستہ سب
جذبہ ء امن و مروّت سے بنائے ہوئے لوگ

دستِ قاتل نظر آتا ہے کہیں باہر سے
جس نے سازش سے اُٹھائے ہیں کِرائے ہوئے لوگ

آج ہم لوٹ کے جائیں گے اسی عزم کے ساتھ 
قُرب محسوس کریں ہم سے ہٹائے ہوئے لوگ

ایسا کردار کرو پیش کہ سب لوگ کہیں 
امن و تعلیم کی ترویج سکھائے ہوئے لوگ

آپ کی ذات سے امیدِ امن رکھتے ہیں
دہشت و قتل و تعصب سے ستائے ہوئے لوگ

اشک شوئی کے لیے دیکھتی ہے چشم اُن کی
نام مذہب پہ تشدد سے رُلائے ہوئے لوگ

اپنا اظہار کرو ایسا کہ سب کھِل اُٹھیں
بادِ نفرت سے شب و روز بجھائے ہوئے لوگ

سید اظہار مہدی بخاری


 

بدر شمسی

یوم پیدائش 15 مارچ 1930

یوں بچھڑ جاؤں گا تجھ سے میں نے یہ سوچا نہ تھا
قربتوں میں فاصلوں کا کوئی اندازہ نہ تھا

جانے پہچانے ہوئے چہرے بھی سب تھے اجنبی
کتنا تنہا تھا وہاں بھی میں جہاں تنہا نہ تھا

اپنے دل کا زہرِغم آنکھوں سے جو چھلا گیا
وہ سمندر تھا مگر میری طرح گہرا نہ تھا

زندگی ہم بھی تری قدروں کے وارث تھے مگر
اپنی قسمت میں فقط دیوار تھی سایا نہ تھا

روٹھنے والے مری چاہت کا اندازہ تو کر
اس قدر تو میں نے خود کو بھی کبھی چاہا نہ تھا

زخم بھی جس نے دیئے ہیں مجھ کو غیروں کی طرح
وہ مرا اپنا تھا لیکن مجھ کو پہچانا نہ تھا

پیار آخر کیوں نہ آتا اپنے قاتل پر مجھے
میرے اس کے درمیاں کیا خون کا رشتا نہ تھا

بے وفائی کی شکایت تھی مجھے اس سے مگر
اس کی مجبوری کو جب تک بدر میں سمجھا نہ تھا

بدر شمسی


 

انوری بیگم

یوم پیدائش 15 مارچ 1959

جانے کیوں کر اس قدر سہما ہوا ہے آئینہ 
آئینے کو دیکھ کر بھی ڈر رہا ہے آئینہ 

کیا کوئی معصوم سی صورت نظر میں آ گئی 
کیوں سوالوں میں الجھ کر رہ گیا ہے آئینہ 

آپ اپنے آپ کو اس سے چھپا سکتے نہیں 
آپ کی اک اک ادا سے آشنا ہے آئینہ 

خواہشوں کے جال میں الجھا ہوا ہے ہر بشر 
کون کتنا بے غرض ہے جانتا ہے آئینہ 

آشیاں میرا جلایا نوچ ڈالے پر مرے 
آپ کو اس حال میں بھی دیکھتا ہے آئینہ 

اس لئے سب نے نگاہوں سے گرایا ہے اسے 
جس کی جیسی شکل ہے وہ بولتا ہے آئینہ 

ہاتھ میں پتھر لئے کیوں بڑھ رہے ہو اس طرف 
چوٹ کھا کر خود بھی پتھر بن چکا ہے آئینہ 

ظلم کی تلوار کے سائے میں بھی ہوں سجدہ ریز 
انوریؔ ہر حال میں پہچانتا ہے آئینہ 

انوری بیگم


 

اولاد رسول قدسی

یوم پیدائش 15 مارچ 1963

کس قدر ہے تو بے وفا سورج 
شام ہوتے ہی بجھ گیا سورج 

سخت حدت میں گھر گیا عالم 
دے گیا دھوپ کو ہوا سورج 

خود کرن مانگتی ہے تجھ سے پناہ 
اوڑھ لے ابر کی ردا سورج

اب تو بربادیاں ہیں سر پہ ترے 
وقت اپنا نہ تو گنوا سورج 

بار غم ڈال کر زمانے پر 
خوب لیتا رہا مزا سورج 

جان دے کر بھی راہ سے اپنی 
سرگراں سنگ کو ہٹا سورج 

خود مری ذات مجھ سے روٹھ گئی 
کم سے کم تو گلے لگا سورج 

ہم بھی مہماں ہوں ترے گھر کے 
پاس اپنے کبھی بلا سورج 

قدسیؔ اکتا گیا ہے چھاؤں سے 
سوزشوں میں اسے جلا سورج

اولاد رسول قدسی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...