Urdu Deccan

Saturday, April 8, 2023

آصفہ رومانی

یوم پیدائش 22 مارچ 1945

گھر کو کیسا بھی تم سجا رکھنا 
کہیں غم کا بھی داخلہ رکھنا 

گر کسی کو سمجھنا اپنا تم 
دھوکہ کھانے کا حوصلہ رکھنا 

اتنی قربت کسی سے مت رکھو 
کچھ ضروری ہے فاصلہ رکھنا 

ان کی ہر بات میٹھی ہوتی ہے 
جھوٹی باتوں کا مت گلہ رکھنا 

زندگی ایک بار ملتی ہے 
اس کو جینے کا حوصلہ رکھنا 

ناامیدی کو کفر کہتے ہیں 
رب سے امید آصفہؔ رکھنا 

آصفہ رومانی


 

نصرت عتیق

یوم پیدائش 22 مارچ 1975

یہ اور بات ہے کہ سہارا نہیں بنے 
لیکن کسی کی راہ کا کانٹا نہیں بنے 

یاروں کے ہم نے عیب چھپائے ہیں بارہا 
ان کو بچایا خود بھی تماشہ نہیں بنے 

دشوار راستوں کا انہیں تجربہ نہیں 
منزل جو لوگ بن گئے رستا نہیں بنے 

انسان ہی تو بن نہیں پائے جو اہم تھا 
ویسے تو لوگ بننے کو کیا کیا نہیں بنے 

تم سے بڑی امید لگا رکھی تھی مگر 
تم بھی تو میرے حق میں مسیحا نہیں بنے 

نصرتؔ وہ ہم سے اس لیے ناراض ہیں کہ ہم 
ان کی بلائی بھیڑ کا حصہ نہیں بنے 

نصرت عتیق


 

شمشاد شاد

یوم پیدائش 21 مارچ 1963

اللہ کرے درد ترا سب پہ عیاں ہو
اے دشمنِ جاں تیرے جگر کا بھی زیاں ہو

حاوی ترے اعصاب پہ ہو عشق کا آسیب
اطراف مرے ہونے کا تجھ کو بھی گماں ہو

کیا میں ہی ترے ہجر میں روتا رہوں پہیم
چشمہ تری آنکھوں سے بھی اشکوں کا رواں ہو

غافل نہ رہوں ظلم وستم سے کبھی تیرے
شعروں میں مرے تیری جفاؤں کا بیاں ہو

اک دوجے کے بن حال یہ ہو جائے ہمارا
جینا تو الگ بات ہے مرنا بھی گراں ہو

مرکوز مری آنکھ رہے چہرے پہ تیرے
تو ساتھ ہو جب روح نکلنے کا سماں ہو

ہیں شہرِ خموشاں میں بھی ہنگامے بہت شاد
لے چل مجھے اس جا کہ جہاں امن و اماں ہو

شمشاد شاد

 

 

مبارک علی انمول

یوم پیدائش 21 مارچ 1992

تجھ سے ملنا محال ہے پھر بھی
دل میں تیرا خیال ہے پھر بھی

ہم پہ آئے نہ کیوں زوال مگر
عشق تو لازوال ہے پھر بھی

جانتا ہوں کوئی جواب نہیں
ان لبوں پر سوال ہے پھر بھی

آنکھ روتی ہے خون کے آنسو
دل کے اندر ملال ہے پھر بھی

مبارک علی انمول


 

راجیش الفت

یوم پیدائش 21 مارچ 1961

کہہ دو دل میں جو بات باقی ہے 
یہ نہ سوچو کہ رات باقی ہے 

عشق کی بات ہے ابھی کر لو 
بھول جاؤ حیات باقی ہے 

ساری دنیا ہے پھر بھی تنہا ہوں 
اک تمہارا ہی ساتھ باقی ہے 

آج کہتے ہیں بس شراب شراب 
کل کہیں گے نجات باقی ہے 

پہلے لازم ہے جیتنا دل کا 
پھر کہاں کائنات باقی ہے

راجیش الفت


 

سعید الظفر صدیقی

یوم پیدائش 21 مارچ 1944

زیرِ زمیں کھلے کہ تہِ آسماں کھلے
میرےخداکہیں تومری داستاں کھلے

کھلتانہیں ہے بیٹھے بٹھائے کوئی یہاں
ہم نے زمین اوڑھ لی تب آسماں کھلے

مدت ہوئی ہے دونوں کوبچھڑےہوئےمگر
اب تک نہ ہم یہاں نہ وہ ابتک وہاں کھلے

وہ شہرِ دوستاں ہو کہ شہرِ ستم شعار
آوارگانِ عشق کسی پر کہاں کھلے

اب تک تو شہر مہر بلب ہے مرا سعید
شایدستم کچھ اوربڑھے تو زباں کھلے

سعید الظفر صدیقی


 

سعدشاہد

یوم پیدائش 20 مارچ 2002

ہرا بھرا تھا خزاں میں شجر اداسی کا
ہم اہلِ درد نے کھایا ثمر اداسی کا

دیارِ دل کسی خوش رنگ کے در آنے سے 
ہوا ہے بے سر و ساماں نگر اداسی کا 

ِادھر اُدھر ہیں بہاروں نے گھر بسائے ہوئے 
وہ شاخ پھول کھلائے کدھر اداسی کا 

میں خوش خیال تلاشِ خدا میں سمجھا ہوں 
وہی خدا ہے جو ہے چارہ گر اداسی کا

سعدشاہد


 

کنول نور پوری

یوم پیدائش 20 مارچ 1931

آغاز سے غرض ہے نہ انجام سے مجھے
اے عشق واسطہ ہے ترے نام سے مجھے

راحت نصیب ہوتی ہے آلام سے مجھے
کہنا ہے بس یہ گردشِ ایام سے مجھے

کتنا سکوں ہے حسرتِ ناکام سے مجھے
کانٹوں پہ نیند آگئی آرام سے مجھے

دیوانہ وار جل کے پتنگے نے شمع پر
آگاہ کردیا مرے انجام سے مجھے

میرے جنونِ عشق کا شاید ہے یہ اثر
دنیاپکارتی ہے ترے نام سے مجھے

کہنا ہو جو مجھے ، میں وہ کہتا ہوں برملا
تعریف سے غرض ہے نہ دشنام سے مجھے

اک بوند بھی خلوص کی جس میں نہیں کنول
راحت کبھی ملےگی نہ اس جام سے مجھے

کنول نور پوری


 

عالیہ بخآری ہالہ

یوم پیدائش 20 مارچ 1970

اس نے بھیجا ہے پیار کا تحفہ
اک دل بے قرار کا تحفہ

قسمتو ں سے کسی کو ملتا ہے
جانِ جاں وصلِ یار کا تحفہ

سرد موسم نے لی ہے انگڑائی
آ چکا ہے بہار کا تحفہ

میرے قدموں کو کیجیے مضبوط
دیجیے اعتبار کا تحفہ

تیرا غم یوں چھپائے پھرتے ہیں
 جیسے دیرینہ یار کا تحفہ

آپ کے روپ میں ہمیں ہالہؔ
مل گیا غمگسار کا تحفہ

عالیہ بخآری ہالہ


 

محمد ظہور اختر

یوم پیدائش 19 مارچ 1955

قصۂ غم سنانا نہیں چاہیے
زخم دل کا دکھانا نہیں چاہیے

جو زبانِ خموشی نہ سمجھے اسے
حال دل کا بتانا نہیں چاہیے

پونچھ دو سب کے آنسو اگر ہو سکے
پر کسی کو رلانا نہیں چاہیے

شوق سے آسمانوں میں اڑیئے مگر
دن پرانے بھلانا نہیں چاہیے

عید کا چاند سمجھیں گے اہلِ نظر
آپ کو چھت پہ آنا نہیں چاہیے

ہم تو ہر رت میں اخترؔ اجڑتے رہے
دل کی بستی بسانا نہیں چاہیے

محمد ظہور اختر





محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...