یوم پیدائش 01 اپریل 1958
نظم بھروسے کا قتل
مذہب کی تلوار بنا کر
خواہشوں کے اندھے گھوڑے پر سوار
میرے من آنگن کو روند ڈالا
میرے بھروسے کو سولی پر ٹانگ کر
تم نے دوسرا بیاہ رچا لیا
تمہارے سنگ گزارے پل پل کو
میں نے اپنے ماس پر کھال کی طرح منڈھ لیا تھا
تمہارے ساتھ آنچل باندھ کر
بابا کا آنگن پار کر کے
تمہارے لائے سانچے میں
میں نے پایا تھا اپنا وجود
پیار کیا ہے یہ نہیں جانتی
پر تمہارے گھر نے بڑ کے پیڑ سی چھاؤں کی تھی مجھ پر
بچایا تھا زمانے کے گناہوں کے
تیروں کی بوچھاڑ سے
اس سانچے میں رہنے کی خاطر
میں اپنے وجود کو کاٹتی چھانٹتی تراشتی رہی
تمہارے لہو کی بوند کو اپنے ماس میں جنم دیا
اولاد بھی ہم دونوں کا بندھن نہ بن سکی
بندھن کیا ہے یہ نہیں جانتی
مجھے فقط ایک سبق پڑھایا گیا تھا
تمہارا گھر میری آخری پناہ گاہ ہے
میں نے کئی بار دیکھا ہے
زمانے کی نگاہوں سے سنگسار ہوتے
طلاق یافتہ عورت کو
اس لیے بارش سے ڈری بلی کی طرح
گھر کے ایک کونے اور تمہارے نام کے استعمال پر
قناعت کیے بیٹھی رہی
جنت کیا ہے جہنم کیا ہے یہ نہیں جانتی
مگر اتنا یقین ہے
جنت بھروسے سے بالاتر نہیں
اور جہنم سوت کے قہقہوں سے بڑھ کر گراں نہیں
طعنوں اور رحم بھری نظروں سے بڑھ کر مشکل
کوئی پل صراط نہیں
کبھی کبھی سوت کا چہرہ مجھے اپنا جیسا لگتا ہے
اس کی پیشانی پر بھی
میں نے بے اعتباری کی شکنیں دیکھی ہیں
جب وہ مجھے دیکھتی ہے
خوشی اس کے سینے میں
ہاتھوں میں دبائے کبوتر کی طرح پھڑ پھڑا اٹھتی ہے
میں ان سے لڑ نہیں سکتی
ان میں تم شامل ہو
میں تم سے لڑ نہیں سکتی
مذہب قانون اور سماج تمہارے ساتھ ہیں
ریتیں رسمیں تمہارے ہتھیار ہیں
دل چاہتا ہے کہ زندگی کی کتاب سے
وہ باب ہی پھاڑ کر پھینک دوں
جو اپنے مفاد میں تم نے
میرے مقدر میں لکھا ہے
عطیہ داؤد