Urdu Deccan

Saturday, April 15, 2023

سہیل عثمانی

یوم پیدائش 01 اپریل 1973

ہر گھڑی اک نئی سونامی ہے 
یہ سیاست بڑی حرامی ہے 

سہیل عثمانی


 

عطیہ داؤد

یوم پیدائش 01 اپریل 1958
نظم بھروسے کا قتل

مذہب کی تلوار بنا کر 
خواہشوں کے اندھے گھوڑے پر سوار 
میرے من آنگن کو روند ڈالا 
میرے بھروسے کو سولی پر ٹانگ کر 
تم نے دوسرا بیاہ رچا لیا
تمہارے سنگ گزارے پل پل کو 
میں نے اپنے ماس پر کھال کی طرح منڈھ لیا تھا 
تمہارے ساتھ آنچل باندھ کر 
بابا کا آنگن پار کر کے 
تمہارے لائے سانچے میں 
میں نے پایا تھا اپنا وجود 
پیار کیا ہے یہ نہیں جانتی 
پر تمہارے گھر نے بڑ کے پیڑ سی چھاؤں کی تھی مجھ پر 
بچایا تھا زمانے کے گناہوں کے 
تیروں کی بوچھاڑ سے 
اس سانچے میں رہنے کی خاطر 
میں اپنے وجود کو کاٹتی چھانٹتی تراشتی رہی 
تمہارے لہو کی بوند کو اپنے ماس میں جنم دیا 
اولاد بھی ہم دونوں کا بندھن نہ بن سکی 
بندھن کیا ہے یہ نہیں جانتی 
مجھے فقط ایک سبق پڑھایا گیا تھا 
تمہارا گھر میری آخری پناہ گاہ ہے 
میں نے کئی بار دیکھا ہے 
زمانے کی نگاہوں سے سنگسار ہوتے 
طلاق یافتہ عورت کو 
اس لیے بارش سے ڈری بلی کی طرح 
گھر کے ایک کونے اور تمہارے نام کے استعمال پر 
قناعت کیے بیٹھی رہی 
جنت کیا ہے جہنم کیا ہے یہ نہیں جانتی 
مگر اتنا یقین ہے 
جنت بھروسے سے بالاتر نہیں 
اور جہنم سوت کے قہقہوں سے بڑھ کر گراں نہیں 
طعنوں اور رحم بھری نظروں سے بڑھ کر مشکل 
کوئی پل صراط نہیں 
کبھی کبھی سوت کا چہرہ مجھے اپنا جیسا لگتا ہے 
اس کی پیشانی پر بھی 
میں نے بے اعتباری کی شکنیں دیکھی ہیں 
جب وہ مجھے دیکھتی ہے 
خوشی اس کے سینے میں 
ہاتھوں میں دبائے کبوتر کی طرح پھڑ پھڑا اٹھتی ہے 
میں ان سے لڑ نہیں سکتی 
ان میں تم شامل ہو 
میں تم سے لڑ نہیں سکتی 
مذہب قانون اور سماج تمہارے ساتھ ہیں 
ریتیں رسمیں تمہارے ہتھیار ہیں 
دل چاہتا ہے کہ زندگی کی کتاب سے 
وہ باب ہی پھاڑ کر پھینک دوں 
جو اپنے مفاد میں تم نے 
میرے مقدر میں لکھا ہے 
عطیہ داؤد 




 

آصف علی آصف

یوم پیدائش 01 اپریل 1988

دوسروں سے سوا سمجھتے ہیں
ہم تجھے با خدا سمجھتے ہیں

اور کچھ بھی سمجھ نہیں آتا
آپ کا ہر کہا سمجھتے ہیں

رب کی ساری نشانیوں میں ہم
آدمی کو بڑا سمجھتے ہیں

تو جو ہم پر ہے معترض واعظ
ہم ترا مسئلہ سمجھتے ہیں

جو لطافت ہے بزم رنداں میں
وہ کہاں پارسا سمجھتے ہیں

دل کو یکسر جو نور سے بھر دے
ہم اسے پیشوا سمجھتے ہیں

ہم میں آصف یہی برُائی ہے
ہم برے کو برا سمجھتے ہیں

آصف علی آصف



نصیر احمد ناصر

یوم پیدائش 01 اپریل 1954

ستارہ شام سے نکلا ہوا ہے
دیا بھی طاق میں رکھا ہوا ہے

کوئی نیندوں میں خوشبو گھولتا ہے
دریچہ خواب کا مہکا ہوا ہے

کہیں وہ رات بھی مہکی ہوئی ہے
کہیں وہ چاند بھی چمکا ہوا ہے

ابھی وہ آنکھ بھی سوئی نہیں ہے
ابھی وہ خواب بھی جاگا ہوا ہے

کسی بادل کو چھو کر آ رہی ہے
ہوا کا پیرہن بھیگا ہوا ہے

زمیں بے عکس ہو کر رہ گئی ہے
فلک کا آئنہ میلا ہوا ہے

خموشی جھانکتی ہے کھڑکیوں سے
گلی میں شور سا پھیلا ہوا ہے

ہوا گم صم کھڑی ہے راستے میں
مسافر سوچ میں ڈوبا ہوا ہے

کسی گزرے برس کی ڈائری میں
تمہارا نام بھی لکھا ہوا ہے

چراغ شام کی آنکھیں بجھی ہیں
ستارہ خواب کا ٹوٹا ہوا ہے

سفر کی رات ہے ناصرؔ دلوں میں
عجب اک درد سا ٹھہرا ہوا ہے

نصیر احمد ناصر


 

وسیم ساغر

یوم پیدائش 28 مارچ 1991

نہ شکوہ نہ برہم ہوا جانتی ہے
یہ ظرفِ وفا ہے ،دعا جانتی ہے

سفینہ مرا چُوم لوٹے گی آندھی
مرے حوصلوں کو ہوا جانتی ہے

جنوں اک طرف وصل کی آرزو کا
محبت روا ناروا جانتی ہے

در و بام واقف ہیں کلفت سے میری
مرے غم کی شدت دوا جانتی ہے

بہت نرم یوں ہی نہیں فصلِ گل پر
صبا رنگ و بو کی نوا جانتی ہے

وہی ساغرِ خستہ دامن ہوں لوگو
ستمگر جسے ماسوا جانتی ہے

وسیم ساغر


 

فیصل رضوان

یوم پیدائش 28 مارچ

زندگی کا خمار دیکھا ہے
سب کو یاں سوگوار دیکھا ہے

عشق سینہ فِگار دیکھا ہے
حسن کو لالہ زار دیکھاہے

خارزاروں کا ساتھ دینے میں
گل کا دامن ہی تار دیکھا ہے

سانس رکتے ہی اپنے پیاروں کا
میتوں میں شمار دیکھا ہے

بھول جانا جسے ضروری تھا
اس کو ہی بار بار دیکھا ہے

ساتھ دل ہے حباب سے آگے
زیست کا اعتبار دیکھا ہے

فیصل رضوان



سید حامد

یوم پیدائش 28 مارچ 1920

حق کسی کا ادا نہیں ہوتا 
ورنہ انساں سے کیا نہیں ہوتا 

دل کا جانا تو بات بعد کی ہے 
دل کا آنا برا نہیں ہوتا 

کیا ہوا دل کو مدتیں گزریں 
ذکر مہر و وفا نہیں ہوتا 

حسن کے ہیں ہزارہا پہلو
ایک پہلو ادا نہیں ہوتا 

خود پہ کیا کیا وہ ناز کرتے ہیں 
جب کوئی دیکھتا نہیں ہوتا 

دل بجھا ہو تو خندۂ گل بھی 
چبھتا ہے جاں فزا نہیں ہوتا 

ڈھونڈھ لاتی ہے ایک شوخ نگاہ 
لب پہ جو مدعا نہیں ہوتا 

خوں بہاتے ہیں بے گناہوں کا 
یہ کوئی خوں بہا نہیں ہوتا 

زندگی میں ہیں تلخیاں پھر بھی 
آدمی بے مزا نہیں ہوتا 

حق تو حامدؔ یہ ہے کہ حق کے سوا 
کوئی مشکل کشا نہیں ہوتا

سید حامد


 

شیما نظیر

یوم پیدائش 27 مارچ 1972

ایک مدت سے جو ٹھہری ہے ٹھہر جائے گی
ایسا لگتا ہے یونہی عمر گزر جائے گی

ہم کو تہذیب پہ اپنی تھا بہت ناز مگر
اب وہ تہذیب یوں بے موت ہی مرجائے گی

وقت یکساں نہیں رہتا ہے کسی کا بھی کبھی
کبھی ایسے کبھی ویسے بھی گزر جائے گی

عزم.مضبوط رکھو کوششیں کرکے دیکھو
زندگی بکھری بھی ہو گر تو سنور جائے گی

وہ دعا ہوگی یقیناً تری مقبول نظیرؔ
ساتھ اشکوں کے دعا تیری اگر جائے گی

شیما نظیر


 

سعید افسر

یوم پیدائش 26 مارچ 1941

دھوپ کو گرم نہ کہہ سایۂ دیوار نہ دیکھ 
تجھ کو چلنا ہے تو پھر وقت کی رفتار نہ دیکھ 

میری فکروں سے الجھ مجھ کو سمجھنے کے لئے 
دور سے موج میں الجھی ہوئی پتوار نہ دیکھ 

ان کی روحوں کو پرکھ آدمی ہیں بھی یا نہیں 
صرف صورت پہ نہ جا جبہ و دستار نہ دیکھ 

اپنے آنگن ہی میں کر فکر نموئے گلشن 
کوئی جنت بھی اگر ہے پس دیوار نہ دیکھ 

ان دمکتے ہوئے لمحات کے جادو سے نکل 
وقت کی چال سمجھ شوخئ رفتار نہ دیکھ 

غم سے لڑنا ہے تو پھر غم زدہ صورت نہ بنا 
زندہ رہنا ہے تو مردوں کے یہ اطوار نہ دیکھ 

میرے نغمات کو تفریح کے کانوں سے نہ سن 
رقص کی پیاس ہے آنکھوں میں تو پیکار نہ دیکھ 

قدردانی کو مراتب کے ترازو میں نہ تول
کون افسرؔ ہوا یوسف کا خریدار نہ دیکھ

سعید افسر


 

انجم عثمان

یوم پیدائش 29 مارچ

زر غبار کو آئینہ بار کر نہ سکے
نقوش عکس کو تصویر یار کر نہ سکے

ہے وحشتوں کا تلاطم پسِ نوائے سکوت
میان موجۂ گل ذکر یار کر نہ سکے

نہ اضطراب، نہ غوغائے گریہ و ماتم
شہاب غم بھی مجھے بے قرار کر نہ سکے

ٹپک نہ چشمِ ہم آہنگ سے اے قطرۂ خوں
کہ چارہ گر بھی تجھے شرمسار کر نہ سکے

ستارہ گیر تھا رخشِ ہنر مگر پھر بھی
طلسم حسن سخن بے کنار کر نہ سکے

ہزار زاویۂ حرف آشکار کیے
قبائے سرو غزل زرنگار کر نہ سکے

انجم عثمان


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...