Urdu Deccan

Monday, April 17, 2023

محمد علی طارق

یوم پیدائش 05 اپریل 1971

عشق میں اس کے مبتلا نہ ہوا
دل کا سودا ہوا ،ہوا نہ ہوا

وہ مسافر بھی کیا مسافر تھا
جو جدا ہو کے بھی جدا نہ ہوا

پارساؤں کے ساتھ رہ کر بھی
ہائے کمبخت پارسا نہ ہوا

کیسے تم اس کے ہوگئے یارو
جو مرا ہوکے بھی مرا نہ ہوا

راہِ دشوار اور تنہائی
پھر بھی کم دل کا حوصلہ نہ ہوا

محمد علی طارق



 

بلال راز

یوم پیدائش 05 اپریل 1994

کیا ہے بارہا اس کا بھی تجربہ ہم نے
بھلائی کرکے سُنا ہے بُرا بھلا ہم نے

زمانہ داغ ہمارے دکھا رہا تھا ہمیں
دکھا دیا ہے زمانے کو آئینہ ہم نے

ہماری راہ میں کانٹے بچھائے تھے جس نے
اُسی کو بھیجا ہے پھولوں کا ٹوکرا ہم نے

اندھیرے ہم سے خفا ہو گئے ہیں دنیا کے
کہ اک چراغ سے رشتہ بنا لیا ہم نے

تھے کیسے لوگ وطن سے جو کر گئے ہجرت
خطا تھی اُن کی مگر پائی ہے سزا ہم نے

تو اُس بدن کی مہک ساتھ کیوں نہیں لائی
تجھی کو سونپا تھا یہ کام اے صبا ہم نے  

ہمارے شعروں سے سب رازؔ کھُل گیا ورنہ
چُھپا کے رکھا تھا دل کا معاملہ ہم نے

بلال راز


 

عاصم عاصی

یوم پیدائش 04 اپریل 1976

ہر دل کی تڑپ روح کا سامان ہمِیں تھے 
اس شہرِ طلسمات کے سلطان ہمیں تھے 

ہر چشمِ فروزاں میں عیاں تاب تھی اپنی 
ہر اُلجھی ہوئی زُلف کے پُرسان ہمیں تھے 

کھِلتے تھے خزاں دیدہ چمن دیکھ کے جس کو 
اس نقشِ لطافت کی فقط جان ہمیں تھے 

ہر کوئی طلب گارِ جوئے مالِ غنیمت 
ویرانئ گلشن پہ پریشان ہمیں تھے 

آئے نہ سمجھ اپنی طبیعت کے تقاضے 
سب پا کے بھی اُس شہر میں ویران ہمیں تھے 

ہر پیکرِ ذیشان ہی سجدے میں پڑا تھا 
خوش فہمئ شیطان کا نقصان ہمِیں تھے 

سب لوگ ہی عاصیؔ تھے پُجاری تھے ہوس کے
بس حُسنِ طرح دار پہ قربان ہمیں تھے

عاصم عاصی


 

آزاد جرولی

یوم پیدائش 04 اپریل 

تیری محفل میں موجود سب ہیں ترے جام کے منتظر
ساقیا ہم مگر ہیں یہاں ایک گمنام کے منتظر

سچ ہے مدت سے انکی نہیں کچھ خبر ہے ملی ہاں مگر
یہ بھی سچ ہے سدا ہم رہے انکے پیغام کے منتظر

صبح سے پوچھتا ہوں میں ان سے مگر کچھ بتاتے نہیں
جانے کیا بات ہے آج ہیں صبح سے شام کے منتظر

حاکمِ وقت کے کان میں یہ خبر آپ ڈالیں ذرا
آج بھی شہر میں کتنے مزدور ہیں کام کے منتظر

کیا سبب ہے قمرآج نکلا نہیں بس یہی سوچ کر
ہم زمیں پر کھڑے کب سے ہیں رونق بام منتظر

آپ کا شکریہ آپ آئے تو یہ شام دلکش ہوئی
مدتوں سے تھے ہم ایسی ہی اک حسیں شام کے منتظر

دیکھیے کس کو آزاد ملتا ہے کیا اس کے دربار سے
لے کے حسرت کھڑے ہم بھی صف میں ہیں انعام کے منتظر

آزاد جرولی


 

Saturday, April 15, 2023

شاہدریاض عباس

یوم پیدائش 04 اپریل 1981

بے خطر سارا سفر اور بے ضرر سا راستہ
تم سمجھتے ہو کہ ہے یہ انبیا کا راستہ

چوک تم سےہو گئی ہے مصلحت کے چوک پر
سہل رستہ دیکھ کر چھوڑا جو سیدھا راستہ

کچھ سناؤ اس تذبذب کی گلی کی داستاں
کس نے رکھا یاد اور پھر کون بھولا راستہ؟

راہِ حق میں درہِ جاں سے گزر کر دوستو
ایک لمحے میں سمیٹو عمر بھر کا راستہ

ایک لمحے کیلئے خود موت سے جاکر ملو
زندگی سے پھر ملا دو زندگی کا راستہ

یاس کی شاموں میں جب تشکیک کی آندھی چلے
لا الہ کے نور سے پھر دیکھ لینا راستہ

دستِ موسی اور پھر زورِ عصا بھی چاہیے
ہر کس و نا کس کو کب دیتا ہے دریا راستہ

پیر ، ملا اور لیڈر کے مقلد کیا بنے
پھرنہ کھولیں اپنی آنکھیں پھر نہ دیکھا راستہ

شاہدریاض عباس



محمد فیضی

یوم پیدائش 04 اپریل

نقشہء خاک سجانے کے لئے آپؐ آئے
روح کی روح جگانے کے لئے آپؐ آئے 

بوجھ ایسا کہ پہاڑوں سے نہیں اٹھتا تھا
وہ کڑا بوجھ اٹھانے کے لئے آپؐ آئے

آپ آئے تو بہت تیرہ و تاریک تھے دل
نور پر نور دکھانے کے لئے آپؐ آئے 

آپؐ جب آئے تو پھر اور نہ آیا کوئی 
یعنی ہر ایک زمانے کے لئے آپؐ آئے 

ایک آدم کہ بنایا تھا خدا نے جس کو
اس کو انسان بنانے کے لئے آپؐ آئے 

محمد فیضی


 

بابر علی اسد

یوم پیدائش 04 اپریل 

ہر ایک لب پہ نہ آ ، سب کی التجاء تو نہ بن
تو مہربان بھلے رہ مگر خدا تو نہ بن 

طلب کی سانس پہ کھل اے مشام ِ جاں کی مہک 
یوں اپنا آپ نہ کھو شہر کی فضا تو نہ بن 

جو تجھ کو سوچ کے بولے ، ہو منکشف اس پر 
زباں دراز کسی شخص کا کہا تو نہ بن  

تجھے کہیں کا نہ چھوڑے گا انفراد کا شوق 
تو اپنے آپ سا لگ ، خود سے ماورا تو نہ بن 

بابر علی اسد


 

منظر نقوی

یوم پیدائش 04 اپریل 

سچ کو جھوٹ بنا جاتا ہے بعض اوقات 
بندہ ٹھوکر کھا جاتا ہے بعض اوقات 

گھر کی چھت پر رم جھم بارش جلتی دھوپ 
یہ موسم بھی آ جاتا ہے بعض اوقات 

اچھی قسمت اچھا موسم اچھے لوگ 
پھر بھی دل گھبرا جاتا ہے بعض اوقات 

روزانہ تو رات گئے گھر آتا ہے 
شام سے پہلے آ جاتا ہے بعض اوقات 

جیت کے مجھ سے اتنا کیوں اتراتے ہو 
ہار کے بھی جیتا جاتا ہے بعض اوقات 

تم نے ناحق رونے کا الزام دیا 
آنکھ میں پانی آ جاتا ہے بعض اوقات 

منظرؔ میٹھی باتیں بھی تو کرتا ہے 
کڑوے بول سنا جاتا ہے بعض اوقات

منظر نقوی


 

شازیہ قمر

یوم پیدائش 04 اپریل 

ہر ایک اہل چمن کیوں نہ پھر ہراس میں ہو
جب ایک سانپ کی آمد و رفت گھانس میں ہو

نگاہ شک کی ہر اک محترم پہ رکھنا ضرور
کوئی رجیم فرشتوں کے سے لباس میں ہو

نوازشات ، عنایات ، مہربانی کرم
غرض چھپی ہوئی شاید کہ التماس میں ہو

محل وہ رشتوں کا ہوگا نہیں کبھی زمیں بوس
خلوص و انس کا جذبہ اگر آساس میں ہو

دھیان رکھے گا قرب و جوار پر اپنے
طلب ہے جسکی وہ شاید کہ اس پاس میں ہو

غرور شازیہ کرتی ہوں اپنے بخت پہ جب 
مرا وجود کسی کی نگاہ خاص میں ہو

شازیہ قمر


 

اختر امام رضوی

یوم پیدائش 04 اپریل 1937

دنیا بھی پیش آئی بہت بے رخی کے ساتھ 
ہم نے بھی زخم کھائے بڑی سادگی کے ساتھ 

اک مشت خاک آگ کا دریا لہو کی لہر 
کیا کیا روایتیں ہیں یہاں آدمی کے ساتھ 

اپنوں کی چاہتوں نے بھی کیا کیا دیئے فریب 
روتے رہے لپٹ کے ہر اک اجنبی کے ساتھ 

جنگل کی دھوپ چھاؤں ہی جنگل کا حسن ہے 
سایوں کو بھی قبول کرو روشنی کے ساتھ 

تم راستے کی گرد نہ ہو جاؤ تو کہو 
دو چار گام چل کے تو دیکھو کسی کے ساتھ 

کوئی دھواں اٹھا نہ کوئی روشنی ہوئی 
جلتی رہی حیات بڑی خامشی کے ساتھ

اختر امام رضوی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...