یوم پیدائش 04 اپریل 1981
بے خطر سارا سفر اور بے ضرر سا راستہ
تم سمجھتے ہو کہ ہے یہ انبیا کا راستہ
چوک تم سےہو گئی ہے مصلحت کے چوک پر
سہل رستہ دیکھ کر چھوڑا جو سیدھا راستہ
کچھ سناؤ اس تذبذب کی گلی کی داستاں
کس نے رکھا یاد اور پھر کون بھولا راستہ؟
راہِ حق میں درہِ جاں سے گزر کر دوستو
ایک لمحے میں سمیٹو عمر بھر کا راستہ
ایک لمحے کیلئے خود موت سے جاکر ملو
زندگی سے پھر ملا دو زندگی کا راستہ
یاس کی شاموں میں جب تشکیک کی آندھی چلے
لا الہ کے نور سے پھر دیکھ لینا راستہ
دستِ موسی اور پھر زورِ عصا بھی چاہیے
ہر کس و نا کس کو کب دیتا ہے دریا راستہ
پیر ، ملا اور لیڈر کے مقلد کیا بنے
پھرنہ کھولیں اپنی آنکھیں پھر نہ دیکھا راستہ
شاہدریاض عباس