Urdu Deccan

Monday, April 17, 2023

راحیل فاروق

یوم پیدائش 08 اپریل 1986

پختہ ہونے نہ دیا خام بھی رہنے نہ دیا 
عشق نے خاص تو کیا عام بھی رہنے نہ دیا 

ہائے رے گردش ایام کہ اب کے تو نے 
شکوۂ گردش ایام بھی رہنے نہ دیا 

کوئی کیوں آئے گا دوبارہ تری جنت میں 
دانہ بھی چھین لیا دام بھی رہنے نہ دیا 

عیش میں پہلے کہاں اپنی بسر ہوتی تھی 
یاد نے دو گھڑی آرام بھی رہنے نہ دیا 

دل کو آوارگیاں دور بہت چھوڑ آئیں 
ذکر خیر ایک طرف نام بھی رہنے نہ دیا 

وہی زنجیر ہے تیرے بھی گلے میں راحیلؔ 
جس نے سورج کو لب بام بھی رہنے نہ دیا

راحیل فاروق




 

آغا ظفر احمد

یوم پیدائش 07 اپریل 1940

آج ان کی بزم میں اپنے ذرا لب کھولیے
ان سے کھل کر بات کیجے ، چپ نہ رہیے ، بولیے

سادگی سے کتنی ہم راہِ وفا پر ہولیے
وہ ملے تو ہنس لیے جب وہ گئے تو رولیے

جالیا ہم نے بھی منزل کو پر اس انداز سے
بے خودی میں چل پڑے جب ہوش آیا ہولیے

خوشنما تھے کس قدر وہ خار ، اکثر ہم نے جو
عشق کی راہوں سے چن کر اپنے دل میں بو لیے

آخرش دیوانگی کو ہم نے اپنا ہی لیا
آخرش عقل و خرد سے ہاتھ اپنے دھو لیے

ان کٹھن راہوں پہ بھی ہم مسکراتے ہی رہے
جب ہزاروں غم کے ساتھی ساتھ اپنے ہولیے

زندگی کی راہ میں جب آئے کچھ دلکش مقام
ہم ذرا سی دیر ٹھہرے اور آگے ہولیے

خار بن کے زندگی بھر روح میں چبھتے رہے
ہم نے رومانوں کی پھلواری سے غنچے جو لیے

آنسوؤں کے پاک سرچشموں پہ ہم نے بارہا
حسرتوں کے اور تمناؤں کے دامن دھو لیے

ان تضادوں سے ہی لطفِ زندگی قائم رہے
روتے روتے ہنس پڑے اور ہنستے ہنستے رولیے

فصلِ گل کے اوّلیں رنگیں شگوفوں میں ظفر
آپ بھی اپنی بیاضِ شاعری کو کھو لیے

آغا ظفر احمد


 

رضیہ صدیقی بصیر

یوم پیدائش 07 اپریل 1946

ممکن نہیں الفت کا ہو اظہار غزل میں
کرتی ہوں مگر بات میں ہر بار غزل میں

بھیجا تو ہے خط اس نے مگر سادہ ورق ہے
انکار غزل میں ہے نہ اقرار غزل میں

صحرا کا فسانہ ہو یا جنگل کی کہانی
یہ تذکرے بن جاتے ہیں گلزار غزل میں

اس دور کا حاصل ہے فقط ضبطِ قلم ہی
ہے سوز نہ اب ساز نہ جھنکار غزل میں

ہے غور طلب بات یہی بزمِ سخن میں
بازاروں میں غزلیں ہیں کہ بازار غزل میں

رضیہؔ ہو مبارک تمہیں معراجِ سخن یہ
فطرت کا نظر آتا ہے کردار غزل میں

رضیہ صدیقی بصیر


 

پونم یادو

یوم پیدائش 07 اپریل 1984

کوئی بھی ارمان نہیں ہے 
یوں جینا آسان نہیں ہے 

آہیں اندر گھٹ جاتی ہیں 
دل میں روشن دان نہیں ہیں 

چھوڑو بھی اب ان قصوں کو 
ان قصوں میں جان نہیں ہے 

بات چھپانا سیکھو صاحب 
کس گھر میں طوفان نہیں ہے 

اب بھی تیرا حصہ ہوں میں 
بس تجھ کو ہی دھیان نہیں ہے 

جب تب خواہش اگ آتی ہیں 
دل ہے ریگستان نہیں ہے 

میں اک ایسا افسانا ہوں 
جس کا کچھ عنوان نہیں ہے

پونم یادو


 

ابوزر ہاشمی

یوم پیدائش 06 اپریل1957

سلگتے صحرا کا میں مسافر مری غزل بھی ہے آتشیں سی
مہکتے لمحوں کا ذکر چاہو تو تم کو میرا سلام لوگو

ابوزر ہاشمی


 

شریش چند شوق

یوم پیدائش 05 اپریل 1938

ترے سلوک کا چاہا تھا تجزیہ کرنا
تمام عمر میں الجھا رہا سوالوں میں

شریش چند شوق


 

محمد علی طارق

یوم پیدائش 05 اپریل 1971

عشق میں اس کے مبتلا نہ ہوا
دل کا سودا ہوا ،ہوا نہ ہوا

وہ مسافر بھی کیا مسافر تھا
جو جدا ہو کے بھی جدا نہ ہوا

پارساؤں کے ساتھ رہ کر بھی
ہائے کمبخت پارسا نہ ہوا

کیسے تم اس کے ہوگئے یارو
جو مرا ہوکے بھی مرا نہ ہوا

راہِ دشوار اور تنہائی
پھر بھی کم دل کا حوصلہ نہ ہوا

محمد علی طارق



 

بلال راز

یوم پیدائش 05 اپریل 1994

کیا ہے بارہا اس کا بھی تجربہ ہم نے
بھلائی کرکے سُنا ہے بُرا بھلا ہم نے

زمانہ داغ ہمارے دکھا رہا تھا ہمیں
دکھا دیا ہے زمانے کو آئینہ ہم نے

ہماری راہ میں کانٹے بچھائے تھے جس نے
اُسی کو بھیجا ہے پھولوں کا ٹوکرا ہم نے

اندھیرے ہم سے خفا ہو گئے ہیں دنیا کے
کہ اک چراغ سے رشتہ بنا لیا ہم نے

تھے کیسے لوگ وطن سے جو کر گئے ہجرت
خطا تھی اُن کی مگر پائی ہے سزا ہم نے

تو اُس بدن کی مہک ساتھ کیوں نہیں لائی
تجھی کو سونپا تھا یہ کام اے صبا ہم نے  

ہمارے شعروں سے سب رازؔ کھُل گیا ورنہ
چُھپا کے رکھا تھا دل کا معاملہ ہم نے

بلال راز


 

عاصم عاصی

یوم پیدائش 04 اپریل 1976

ہر دل کی تڑپ روح کا سامان ہمِیں تھے 
اس شہرِ طلسمات کے سلطان ہمیں تھے 

ہر چشمِ فروزاں میں عیاں تاب تھی اپنی 
ہر اُلجھی ہوئی زُلف کے پُرسان ہمیں تھے 

کھِلتے تھے خزاں دیدہ چمن دیکھ کے جس کو 
اس نقشِ لطافت کی فقط جان ہمیں تھے 

ہر کوئی طلب گارِ جوئے مالِ غنیمت 
ویرانئ گلشن پہ پریشان ہمیں تھے 

آئے نہ سمجھ اپنی طبیعت کے تقاضے 
سب پا کے بھی اُس شہر میں ویران ہمیں تھے 

ہر پیکرِ ذیشان ہی سجدے میں پڑا تھا 
خوش فہمئ شیطان کا نقصان ہمِیں تھے 

سب لوگ ہی عاصیؔ تھے پُجاری تھے ہوس کے
بس حُسنِ طرح دار پہ قربان ہمیں تھے

عاصم عاصی


 

آزاد جرولی

یوم پیدائش 04 اپریل 

تیری محفل میں موجود سب ہیں ترے جام کے منتظر
ساقیا ہم مگر ہیں یہاں ایک گمنام کے منتظر

سچ ہے مدت سے انکی نہیں کچھ خبر ہے ملی ہاں مگر
یہ بھی سچ ہے سدا ہم رہے انکے پیغام کے منتظر

صبح سے پوچھتا ہوں میں ان سے مگر کچھ بتاتے نہیں
جانے کیا بات ہے آج ہیں صبح سے شام کے منتظر

حاکمِ وقت کے کان میں یہ خبر آپ ڈالیں ذرا
آج بھی شہر میں کتنے مزدور ہیں کام کے منتظر

کیا سبب ہے قمرآج نکلا نہیں بس یہی سوچ کر
ہم زمیں پر کھڑے کب سے ہیں رونق بام منتظر

آپ کا شکریہ آپ آئے تو یہ شام دلکش ہوئی
مدتوں سے تھے ہم ایسی ہی اک حسیں شام کے منتظر

دیکھیے کس کو آزاد ملتا ہے کیا اس کے دربار سے
لے کے حسرت کھڑے ہم بھی صف میں ہیں انعام کے منتظر

آزاد جرولی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...