Urdu Deccan

Saturday, July 1, 2023

م ش عالم

یوم پیدائش 11 اپریل 1967

جو حلوے پوری کا سن ڈے کو ناشتا نہ کرے 
تو وہ فضیلت چھٹی کا تذکرہ نہ کرے 

" سنا ہے اس کو محبت دعائیں دیتی ہے " 
جو ایزی لوڈ کرے ہاں مگر گلہ نہ کرے 

یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی حیا سے کبھی 
خدا کسی کو مگر پھر بھی بے حیا نہ کرے

وہ بے حیائی کا اعلی ترین ماڈل ہے 
جو بندہ اپنے پرائے کا بھی حیا نہ کرے 

تو جب بھی ملتا ہے ہم کو مٹن کھلانا ہے  
" وہ دل ہی کیا جو ترے ملنے کی جو دعا نہ کرے" 

ہے زن مریدی میں حقدار گولڈ میڈل کا 
جو روز مار بھی کھائے مگر گلہ نہ کرے 

مرے خیال میں عالم ! ہے یہ بھی پامردی 
کہ بندہ قرض لے، لیکن کبھی ادا نہ کرے 

م ش عالم



محمد عامر قاسمی

یوم پیدائش 10 اپریل 1996

محبوب خدا اپنا دیدار عطا کرنا
بیمارِ محبت کو کچھ پیار عطا کرنا

طوفاں میں پھنسی کشتی ملاح نہیں کوئی
اپنے ہی سہارے سے اب پار عطا کرنا

درگور مرے جس دم ظلمت کی گھٹا چھائے
سرکارتجلی کے انوار عطا کرنا

کل روز قیامت جب اعمال کھلے میرے
اک نظر کرم مجھ پر سرکار عطا کرنا

بھٹکے جو رہ حق سے اللہ کے بندے بھی
انوار ہدایت سے ضوبار عطا کرنا

سورج کی تمازت سےجب پیاس کی شدت ہو
عامرؔ کو بھی کوثر کے آثار عطا کرنا

محمد عامر قاسمی


 

مِہر علی مِہر

یوم پیدائش 10 اپریل 2000

طبیبِ زیست کوئی زخم مندمل نہ ہُوا 
تری اداؤں پہ مائل ہمارا دل نہ ہُوا

میں جانتا تھا کہ وہ عذر ہی تراشے گا 
میں اس کو سنتا رہا اور مشتعل نہ ہُوا

اگرچہ قلب کے بخیے ادھڑ گئے لیکن 
ہمارا جسم کسی طور مضمحل نہ ہُوا

لہو سے سینچا گیا تھا وفا کے پودے کو 
اسی لیے تو وہ محتاجِ آب و گِل نہ ہُوا

کہیں شعور , کہیں لاشعور , تحتِ شعور 
مگر یہ ذہن عناصر پہ مشتمل نہ ہُوا

جب اس کے لب سے تبسم کی اک کرن پھوٹی 
تو سچ بتاؤ کہ یاقوت منفعِل نہ ہُوا

یہ کون سمجھے کہ ہے فن کی انتہا حیرت 
مرے خیال میں رہ کر بھی وہ مخل نہ ہُوا

ہم اس کے سامنے اظہار کس لیے کرتے 
کہ پتھروں میں کبھی درد منتقل نہ ہُوا

ہُوا ہے مِہر علی مِہر سرخرو ایسے 
تمھاری بزم سے نکلا مگر خجل نہ ہُوا

 مِہر علی مِہر



علی شاہد دلکش

یوم پیدائش 10 اپریل 1983

اپنی پہچاں کرا گئے مجھ کو 
کرکے احساں جتا گئے مجھ کو

لوگ رشتہ بتا گئے مجھ کو
اپنا شجرہ دِکھا گئے مجھ کو

خود سے بڑھ کر یقین تھا ان پر
میرے اپنے ہی کھا گئے مجھ کو 

روگ لاحق کبھی نہ تھا ایسا
روگ الفت لگا گئے مجھ کو

خود سے بے گانہ ہو چکا میں اب
ہر ادا سے وہ بھا گئے مجھ کو

اب کسی پر یقین مشکل ہے
اس قدر وہ ستا گئے مجھ کو 

آج کس منہ سے در پہ آئے ہیں
وہ جو دے کر دغا گئے مجھ کو 

میں تو ثابت قدم رہا شاہدؔؔ 
 ہمہ تن وہ لبھا گئے مجھ کو

علی شاہد دلکش


 

منشی نوبت رائے نظر لکھنوی

یوم وفات 10 اپریل 1923

مجسم داغ حسرت ہوں سراپا نقش عبرت کا 
مجھے دیکھو کہ ہوتا ہے یہی انجام الفت کا 

انہیں شوق دل آزاری ہمیں ذوق وفاداری 
خدا حافظ ہے اب اپنے کشور کار الفت کا 

وصال یار کی اے دل کوئی پر زور کوشش کر 
ہوائے آہ سے پردہ اٹھا دے شام فرقت کا 

دل پر شوق نے ڈالا ہے مجھ کو کس کشاکش میں 
ادھر ہے حد کی بے صبری ادھر وعدہ قیامت کا 

تم ایسے بے خبر بھی شاذ ہوں گے اس زمانے میں 
کہ دل میں رہ کے اندازہ نہیں ہے دل کی حالت کا 

لگا رکھتا ہے اس کی نذر کو چشم تمنا نے 
وہ اک آنسو کہ مجموعہ ہے ساری دل کی طاقت کا 

مری قدرت سے اب اخفائے راز عشق باہر ہے 
کہ رنگ آنے لگا ہے آنسوؤں میں خون حسرت کا 

اک آہ سرد بھر لیتا ہوں جب تم یاد آتے ہو 
خلاصہ کس قدر میں نے کیا ہے رنج فرقت کا 

وہ دل ہے بزم عالم میں نظرؔ اک ساز بشکستہ 
نہ چھیڑے تار ہستی پر جو نغمہ اس کی قدرت کا

منشی نوبت رائے نظر لکھنوی



برتر مدراسی

یوم پیدائش 10 اپریل 1924

اس محبت میں کچھ مزا بھی نہیں 
جس میں رنجش نہیں بلا بھی نہیں 

چل دئے کیا جہاں سے اہل وفا 
آج ان کا کہیں پتا بھی نہیں 

ایسا انسان بھی غنیمت ہے 
جو بھلا بھی نہیں برا بھی نہیں 

مجھ سے مل کر وہ چل دئے چپ چاپ 
کچھ کہا بھی نہیں سنا بھی نہیں 

اے گلو مسکرائے جاتے ہو 
تم کو خوف خزاں ذرا بھی نہیں 

جس نے دنیا میں دوڑ دھوپ نہ کی 
اس کو دنیا سے کچھ ملا بھی نہیں 

اپنی اپنی لگی ہے سب کو یہاں
ایک کو ایک پوچھتا بھی نہیں

برتر مدراسی



افضل حسین افضل

یوم وفات 09 اپریل 2023

دل شکستہ ہے روح پیاسی ہے 
ایک بے نام سی اداسی ہے 

رنج کیا عیش کیا تمیز کسے 
سلسلہ وار بد حواسی ہے 

صاف گوئی کہ وصف تھی پہلے 
ان دنوں جرم ناروا سی ہے 

کتنا آساں ہے معتبر ہونا 
کتنی دشوار خود شناسی ہے 

میری عصیاں نگاہی کا موجب 
آپ کی مختصر لباسی ہے 

تھوڑی جرأت سے کیا نہیں ہوتا 
پھر وہ لڑکی بھی آدی باسی ہے 

میرے شعروں میں فن نہیں نہ سہی 
آپ کی رائے اقتباسی ہے 

ریشمی زلف چاند سا چہرہ 
سر پہ آنچل مگر کپاسی ہے 

پیاسی پیاسی ہے آرزو افضلؔ 
مملکت دل کی کربلا سی ہے 

افضل حسین افضل

 

امتیاز علی نظر

یوم پیدائش 09 اپریل 1957

مطلب کے سانچے میں ہے ڈھلا پیار آجکل
حرص و ہوس میں سب ہیں گرفتار آجکل

واعظ کو وعظ سے ہے سروکار آجکل
کیوں دور ہوگیا ہے یہ کردار آجکل

اس دور کی لغت میں تو معنی بدل گئے
مکار کو کہے ہیں یہ ہشیار آجکل

سارے یہ فن جہاں کے یوں بیکار ہو گئے
اب ہو گیا فریبی بھی فنکار آجکل

انسان بھوک سے بھی مرے کچھ بھی غم نہیں
لازم ہے ملک کے لئے ہتھیار آجکل

قانون کو پڑھا ہے یہ قانون توڑنے
قانون توڑنے میں مدد گار آجکل

لیڈر بھی بن رہے ہیں وہ دنیا تیاگ کر
بھارت میں سادھو سنت چمتکار آجکل

تعلیم مل رہی ہے یہ تہذیب کھو گئی
ذہنوں سے ہو گئے ہیں یہ بیمار آجکل

اُس قوم کے نصیب میں بربادی کیوں نہ ہو
اب ہر گلی میں ایک ہے سردار آجکل

پنڈت ہو پادری ہو یا ہو مولوی نظر
دامن قناعتوں کا ہوا تار آجکل

امتیاز علی نظر



نسیم مخموری

یوم پیدائش 09 اپریل 1935

پردہ کسی کا کیوں مری بینائی سے اُٹھے
خوشبو سہانی راتوں میں تنہائی سے اُٹھے

احساس مجھ کو جانے کہاں لے کے اُڑ گیا
پتوں کے سوکھے ڈھیر جو انگنائی سے اُٹھے

جلتی رہی خموش فضاؤں کے درمیاں
انگلی نہ مجھ پہ وقت کی رُسوائی سے اُٹھے

لفظوں میں لے کے آئے وہ موجوں کا اضطراب
طوفان بن کے ذہن کی گہرائی سے اُٹھے

پتھر ہٹا دو غار سے زندہ ہوں میں ابھی
ایسا نہ ہو کہ لاش بھی تنہائی سے اُٹھے

بولوں تو ٹوٹ جائے گی برسوں کی خامشی
دیکھوں تو درد روح کا بینائی سے اُٹھے

خوشبو نسیم اپنی چھپائے گی کس طرح
کہتے ہو تم نگاہ بھی دانائی سے اُٹھے

نسیم مخموری


 

سلیمان اطہر جاوید

یوم پیدائش 09 اپریل 1936

شفق کرنیں کنول تالاب اس کے 
یہ منظر سب حسیں شاداب اس کے 

چلو کہنے کو ہیں نیندیں ہماری 
مگر آنکھوں میں سارے خواب اس کے 

جہان تیرگی عالم ہمارا 
اجالے روشنی کے باب اس کے 

اسی کی ذات وجہ نور و نغمہ 
یہ جھرنے کہکشاں مہتاب اس کے 

کتاب زندگی پر نام اپنا 
جو اندر دیکھیے ابواب اس کے 

ہماری گفتگو واہی تباہی 
مگر اقوال سب نایاب اس کے 

قتیل دوستاں جاویدؔ اپنا 
ملے تھے آج پھر احباب اس کے

سلیمان اطہر جاوید



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...