Urdu Deccan

Sunday, July 2, 2023

علی آکاش

یوم پیدائش 15 اپریل 1975
نظم ایک روٹی سے
تمام زندگی کو سمجھا جا سکتا ہے،
گر وہ دو آدھ کر کے کھائی جائے،
تو سمجھیں کہ یہ کوئی بے اولاد جوڑا ہے،
یا نیا شادی شدہ جوڑا ہے،
جو ابھی اولاد کے لیے پرامید ہے،
گر وہ روٹی آدھی کھائی جائے،
اور آدھی رومال میں ڈھانپ کر رکھی جائے،
تو یوں سمجھیں کہ یہ کوئی مزدور کی بیوی ہے،
اور ابھی شام نہیں ہوئی!
ہاں گر اس روٹی کے چار ٹکڑے کیے گئے ہیں،
تو جان لیں کہ بہن بھائی، باپ ماں،
مل کر کھا رہے ہیں!
گر اسی روٹی کا ایک ٹکڑا بچ گیا ہے،
تو سمجھ لیں کہ وہ بوڑھا گداگر بیمار پڑا ہے
یا اس دنیا سے گزر گیا ہے!
گر پوری روٹی سوکھ گئی ہے،
تو ضرور کسی بیوہ عورت کا وہ کتا مر گیا ہے،
جو گندم کی روٹی کی اہمیت کو جانتا تھا۔
نوٹ: سندھی میں محاورہ ہے کے کتا کیا جانے گندم کی روٹی کی اہمیت کو۔
بھوک روٹی اٹھا کے بھاگی اور،
ایک بچے کا چور ہوجانا۔
ایک لڑکی کا منچ پر آنا،
اور تھیٹر کا شور ہوجانا۔
پرندے سے پوچھا گیا:
آسماں اور پنجرے کے بارے میں کیا ہے
تمہارا خیال؟
تو اس نے دیا یوں جواب:
کہ امبر ہے میرے لئے ایک پنجرہ وسیع
اور پنجرہ ہے میرے لئے اک ننھا آسماں۔
گیت ہوں گم شدہ جزیرے کا
بس سمندر ہی گنگنائے مجھے،
بے قراری ہوں اک بگولے کی
کوئی صحرا میں چھوڑ آئے مجھے،
موت کی سیڑھیاں اترتے ہی،
زندگی سے جھگڑنے جاتا ہوں۔
میں تو ماحول دوست ہوں پیارے،
آنسو پیتا نہیں بہاتا ہوں۔

ایک روٹی سے
تمام زندگی کو سمجھا جا سکتا ہے،
گر وہ دو آدھ کر کے کھائی جائے،
تو سمجھیں کہ یہ کوئی بے اولاد جوڑا ہے،
یا نیا شادی شدہ جوڑا ہے،
جو ابھی اولاد کے لیے پرامید ہے،
گر وہ روٹی آدھی کھائی جائے،
اور آدھی رومال میں ڈھانپ کر رکھی جائے،
تو یوں سمجھیں کہ یہ کوئی مزدور کی بیوی ہے،
اور ابھی شام نہیں ہوئی!
ہاں گر اس روٹی کے چار ٹکڑے کیے گئے ہیں،
تو جان لیں کہ بہن بھائی، باپ ماں،
مل کر کھا رہے ہیں!
گر اسی روٹی کا ایک ٹکڑا بچ گیا ہے،
تو سمجھ لیں کہ وہ بوڑھا گداگر بیمار پڑا ہے
یا اس دنیا سے گزر گیا ہے!
گر پوری روٹی سوکھ گئی ہے،
تو ضرور کسی بیوہ عورت کا وہ کتا مر گیا ہے،
جو گندم کی روٹی کی اہمیت کو جانتا تھا۔
نوٹ: سندھی میں محاورہ ہے کے کتا کیا جانے گندم کی روٹی کی اہمیت کو۔
بھوک روٹی اٹھا کے بھاگی اور،
ایک بچے کا چور ہوجانا۔
ایک لڑکی کا منچ پر آنا،
اور تھیٹر کا شور ہوجانا۔
پرندے سے پوچھا گیا:
آسماں اور پنجرے کے بارے میں کیا ہے
تمہارا خیال؟
تو اس نے دیا یوں جواب:
کہ امبر ہے میرے لئے ایک پنجرہ وسیع
اور پنجرہ ہے میرے لئے اک ننھا آسماں۔
گیت ہوں گم شدہ جزیرے کا
بس سمندر ہی گنگنائے مجھے،
بے قراری ہوں اک بگولے کی
کوئی صحرا میں چھوڑ آئے مجھے،
موت کی سیڑھیاں اترتے ہی،
زندگی سے جھگڑنے جاتا ہوں۔
میں تو ماحول دوست ہوں پیارے،
آنسو پیتا نہیں بہاتا ہوں۔
علی آکاش

 

فراہیم احمد شارب

یوم پیدائش 15 اپریل 1939

کیا عرب کیا عجم! سب کا اک حال تھا
 شرک و تکفیر کا ہر طرف جال تھا
 فکر و دانش میں لرزش تھی بھونچال تھا
 جذبہ توحید کا دل میں پامال تھا

 رنگ چڑھتا نہ تھا دل کی تصویر پر
 لوگ نازاں تھے آذر کی تقدیر پر

جس پہ نازاں تھے ابراہیمی ہم سفر
بت کدوں میں تھا پہلا خدا کا یہ گھر
رنگ وحدت کا باقی نہ تھا کچھ اثر
یہ حرم تھا بتوں کا نیا مستقر

درد رکھتے تھے کعبہ کا وہ جس طرح
مانتے تھے ھبل کو خدا کس طرح

ختم ہوتا نہ تھا گمرہی کا سفر
صید افسوں گری تھی محاسب نظر
تک رہے تھے زمیں کو نجوم سحر
آنے والا تھا دنیا میں خیر البشر

جس نبی کی شہادت رسولوں نے دی
اس کے آنے کی ساعت بھی نزدیک تھی

فراہیم احمد شارب



Saturday, July 1, 2023

سید نور الہی ناطق

یوم پیدائش 15 اپریل 1954

دل کے شیشے کو صاف کرلینا
مجھ سے پھر اختلاف کر لینا

تم صداقت سے دوستی کر کے
جھوٹ سے انحراف کر لینا

جو محبت کا درس دیتا ہے
اس نگر کا طواف کر لینا

عقل کی بات یہ نہیں ناطقؔ
دوستوں کو خلاف کر لینا

سید نور الہی ناطق



اشہر اشرف

یوم پیدائش 15 اپریل 1982

جب کبھی چہرے سے وہ پردہ اٹھا دیتے ہیں
پھول بھی اپنی نگاہوں کو جھکا دیتے ہیں

ہم اگر سوئے ہیں تو خیر منا اپنی تُو
ہوش میں آتے ہیں تو حشر اٹھا دیتے ہیں

تم نے لوگوں سے سنا کاش کہ ہم سے سنتے !
لوگ توبات کا افسانہ بنا دیتے ہیں

بیقراری میں نہ جانے ہمیں کیا ہوتا ہے
رات بھر لکھتے ہیں خط صبح جلا دیتے ہیں

جانے والے تو بتا کر نہیں جاتے ہیں مگر
جاتے جاتے کچھ اشاروں میں بتا دیتے ہیں

جب بھی تنہائی کے موسم میں تڑپتے ہیں ہم 
تیری تصویر کو سینے سے لگا دیتے ہیں

رنج و غم ہو کہ خوشی کا کوئی موسم اشؔہر 
سارے موسم بخدا اپنا مزا دیتے ہیں

اشہر اشرف


 

پریم ناتھ بسمل

یوم پیدائش 15 اپریل 1985

ڈھونڈنے در بہ در گیا کوئی
دل کو لے کر کدھر گیا کوئی 

ہر گھڑی رہتا ہے خیال اس کا 
جیسے جادو سا کر گیا کوئی

آپ نفرت سے دیکھتے ہی رہیں!
پڑھ کے اردو سنور گیا کوئی

آج پھر سے اداس ہوں دلبر
دے کے ایسی خبر گیا کوئی 

اس نے دل سے مٹا دیا سب کچھ
جس کی الفت میں مر گیا کوئی

بھول جا تو مجھے ! کہا اس نے
آج دنیا سے ڈر گیا کوئی

پُرتبسّم ہو تیرا گھر، آنگن!
اشک آنکھوں میں بھر گیا کوئی

میں وفا کر کے بھی رہا تنہا 
کر کے وعدے مُکر گیا کوئی

میں بُرا اتنا تو نہیں بسملؔ
مجھ پہ الزام دھر گیا کوئی

پریم ناتھ بسمل



انعام عازمی

یوم پیدائش 15 اپریل 1997

جدا ہو کر سمندر سے کنارا کیا بنے گا 
نہیں سوچا ہے اب تک وہ ہمارا کیا بنے گا 

مجھے یہ ایک عرصے سے زمیں سمجھا رہی ہے 
فلک سے ٹوٹ کر میرا ستارا کیا بنے گا 

میں ایسا لفظ ہوں جس کا کوئی مطلب نہیں ہے 
خدا ہی جانے میرا استعارا کیا بنے گا 

مصور اس لئے تم کو بنانا چاہتا ہے 
اسے معلوم ہے تم بن نظارا کیا بنے گا 

ہوا سے دوستی کر لی ہے میرے نا خدا نے 
مری کشتی کا دریا میں سہارا کیا بنے گا 

تمہارا فیصلہ منظور ہے لیکن بتاؤ 
بچھڑ کے مجھ سے مستقبل تمہارا کیا بنے گا 

خدائے بحر و بر تو نے جو پھر دنیا بنائی 
ہماری خاک سے اس میں دوبارا کیا بنے گا

انعام عازمی


 

تابش کمال

یوم پیدائش 15 اپریل 1965

کب کھلے گا کہ فلک پار سے آگے کیا ہے 
کس کو معلوم کہ دیوار سے آگے کیا ہے 

ایک طرہ سا تو میں دیکھ رہا ہوں لیکن 
کوئی بتلائے کہ دستار سے آگے کیا ہے

ظلم یہ ہے کہ یہاں بکتا ہے یوسف بے دام 
اور نہیں جانتا بازار سے آگے کیا ہے 

سر میں سودا ہے کہ اک بار تو دیکھوں جا کر 
سر میدان سجی دار سے آگے کیا ہے 

جس نے انساں سے محبت ہی نہیں کی تابشؔ 
اس کو کیا علم کہ پندار سے آگے کیا ہے

تابش کمال



حاتم علی مہر

یوم پیدائش 15 اپریل 1815

اس زلف کے سودے کا خلل جائے تو اچھا 
اس پیچ سے دل اپنا نکل جائے تو اچھا 

شطرنج میں جی ان کا بہل جائے تو اچھا
اے مہرؔ یہ چال اچھی ہے چل جائے تو اچھا 

اس زیست سے اب موت بدل جائے تو اچھا 
بے چین ہے دل جان نکل جائے تو اچھا 

محروم ہوں اس دور میں ساقی فقط اک میں 
اے کاش خم بادہ ابل جائے تو اچھا 

خم ٹھونک کے کرتا ہے یہ اب بیچ بلا کے 
اس طرح کے طرار کا بل جائے تو اچھا 

اس عشق میں پھر جان کے پڑ جائیں گے لالے 
اب بھی دل بیتاب سنبھل جائے تو اچھا 

چھو جائے جو بندے کی سوا جسم سے تیرے 
اللہ کرے ہاتھ وہ گل جائے تو اچھا 

کیا عشق سا ہے عشق محبت سی محبت
بدلوں گا میں اس دل کو بدل جائے تو اچھا 

ممکن ہی نہیں ہے کہ بچے جان سلامت 
اس کوچہ میں مشتاق اجل جائے تو اچھا 

بوسوں میں مزا قند مکرر کا ہو ساقی 
اک دور دوبارہ کا بھی ڈھل جائے تو اچھا 

اب ذوق کی مانند غم عشق جگر میں 
کانٹا سا کھٹکتا ہے نکل جائے تو اچھا 

رنگینی فکر اور میری روشنی طمع 
کچھ لعل و گہر اور اگل جائے تو اچھا 

احباب‌ بنارس کے لیے مہرؔ کا تحفہ 
ایک اور بھی ساتھ اس کے غزل جائے تو اچھا

حاتم علی مہر



محمد نعیم اللہ خیالی

یوم پیدائش 15 اپریل 1920

ستم کی تیغ چلی تیر بھی جفا کے چلے 
جو بات حق تھی سر دار ہم سنا کے چلے 

کچھ ایسی دور نہ تھیں منزلیں محبت کی 
وفور شوق میں ہم فاصلے بڑھا کے چلے 

جو آب و دانہ چمن سے اٹھا چمن والو 
ہر اک شاخ پہ ہم آشیاں بنا کے چلے 

اٹھے تو محفل رنداں سے تشنہ کام مگر 
قدم قدم پہ ہم ایک مے کدہ بنا کے چلے 

سلگ سلگ کے رہے جو دیا بجھا نہ سکے 
گئے تو جاتے ہوئے آگ وہ لگا کے چلے 

خیالیؔ شعر ہے کیا یہ تو اہل فن جانیں 
ہم اپنے دل کی بہ شکل غزل سنا کے چلے

محمد نعیم اللہ خیالی



شعیب شوبی

یوم پیدائش 14 اپریل 2000

راس آئی نہ کوئی راہ گزر ، وقت لگا
ہائے! بےکار گیا میرا سفر ، وقت لگا

زخم گُھلتے ہیں یہاں وقت کی گُزران سے گر
راس آئے گی یہ تنہائی ، اگر وقت لگا ؟

میں بھری دنیا میں کہتا تھا تجھے اپنا کبھی
کُھل گئی رمزِ شناسائی مگر وقت لگا

دل کی تنہائی کسی طور بھی جانے کی نہیں
ویسے کا ویسا ہے یہ زخم جگر ، وقت لگا

اِک جَماعت نے مِرے بغض میں کیا کیا نہ کیا
کب مِرا ظرف ہوا زیر و زبر ، وقت لگا 

اُس نے "کُن" کہہ کے بنا ڈالی یہ دنیا ساری 
ہم سے بن پایا نہ اِک ادنیٰ سا گھر ، وقت لگا

شعیب شوبی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...