Urdu Deccan

Monday, July 3, 2023

حذیفہ خالد

یوم پیدائش 29 اپریل 1995

عجب ہے شوق میری زندگی کا
کھلا جب راز میری بے خودی کا

شب غم میں اُسے میں نے پکارا
یہی تو امتحاں ہے دوستی کا

ہوائے شام تو مجرم رہی ہے
دیا بھی ہمنوا ہے تیرگی کا

کوئی حکمت تھی میرے بند لب کی
مگر ہے شور میری خامشی کا

بپا ہے محفل یاران خالد
بہت احساس ہے تیری کمی کا

حذیفہ خالد


 

آذر عسکری

یوم پیدائش 28 اپریل 1911
نظم اس سے پہلے کہ گھر کے پردوں سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ گھر کے پردوں سے 
ٹیڈی پتلون کوئی سلوا لوں 
اس سے پہلے کہ تجھ کو دے کر دل 
تیرے کوچے میں خود کو پٹوا لوں 
اس سے پہلے کہ تیری فرقت میں 
خودکشی کی سکیم اپنا لوں 
اس سے پہلے کہ اک تری خاطر 
نام غنڈوں میں اپنا لکھوا لوں 
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا 
اس سے پہلے کہ وہ عدو کم بخت 
تیرے گھر جا کے چغلیاں کھائے 
اس سے پہلے کہ دیں رپٹ جا کر 
تیرے میرے شریف ہمسائے 
اس سے پہلے کہ تیری فرمائش 
مجھ سے چوری کا جرم کروائے 
اس سے پہلے کہ اپنا تھانے دار 
مرغا تھانے میں مجھ کو بنوائے 
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا 
تجھ کو آگاہ کیوں نہ کر دوں میں 
اپنے اس انتظام سے پہلے 
مشورہ بھی تجھی سے کرنا ہے 
اپنی مرگ حرام سے پہلے 
کوئی ایسی ٹرین بتلا دے 
جائے جو تیز گام سے پہلے 
آج کے اس ڈنر کو بھگتا کر 
کل کسی وقت شام سے پہلے 
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا 
دل کی گردن مروڑ جاؤں گا

آذر عسکری


 

اطہر شکیل نگینوی

یوم پیدائش 28 اپریل 1968

چاہت کو زندگی کی ضرورت سمجھ لیا 
اب غم کو ہم نے تیری عنایت سمجھ لیا 

کھاتے رہے ہیں زیست میں کیا کیا مغالطے 
قامت کو اس حسیں کی قیامت سمجھ لیا 

کردار کیا رہا ہے کبھی یہ بھی سوچتے 
سجدے کیے تو ان کو عبادت سمجھ لیا 

ریشم سے نرم لہجے کے پیچھے مفاد تھا 
اس تاجری کو ہم نے شرافت سمجھ لیا 

اب ہے کوئی حسین نہ لشکر حسین کا 
سر کٹ گئے تو ہم نے شہادت سمجھ لیا 

اس طرح عمر چین سے کاٹی شکیلؔ نے 
دکھ اس سے جو ملا اسے راحت سمجھ لیا 

اطہر شکیل نگینوی


 

انیسہ صابری

یوم پیدائش 27 اپریل 1977

بجھتے ہوئے دیئے کو جلایا ہے آپ نے
دل میں مرے خوشی کو جگایا ہے آپ نے

ایسے نظر کا تیر چلایا ہے آپ نے
دل کو مرے دیوانہ بنایا ہے آپ نے

غم آپ نے دیئے تو مرا حوصلہ بڑھا
کیسے کہوں کہ دل کو دکھایا ہے آپ نے

ہیں کس کے انتظار میں آنکھیں بچھی ہوئیں
کس کے لیے یہ گھر کو سجایا ہے آپ نے

لوگوں نے خوب داد بھی دی ، تالیاں بجیں
محفل میں جو بھی شعر سنایا ہے آپ نے

دنیا کی چشم آپ پہ اس وقت ہے اٹھی
جب بارِ غم انیسہ اٹھایا ہے آپ نے

انیسہ صابری


 

مملکت بدر

یوم وفات 26 اپریل 2021
نوحہ وحدت کا مرکز
کس سمت ہے دشتِ کرب و بلا معبود کا کعبہ کہتا ہے
آ دیکھ لے مرکز وحدت کا شبیر کا سجدہ کہتا ہے

سر ننگے ہیں زینب میداں میں دنیا کا اندھیرا کہتا ہے
کس طرح چھپالیں دامن میں اجڑا ہوا خیمہ کہتا ہے

عباس وفا کے سائے میں یوں مشک بھری تھی پانی سے
ہر موج تمہاری ہو کے رہی بہتا ہوا دریا کہتا ہے

لیلیٰ ہیں سرہانے بیٹے کے عاشور کی شب ہے آنسو ہیں 
آرام سے اکبر سوتے ہیں شمعوں کا اجالا کہتا ہے

ہے رحلِ امامت پر قرآں یا باپ کے ہاتھوں پر اصغر
امت کو بچالیں گے ہنس کر معصوم ارادہ کہتا ہے

شانے بھی کٹے زخمی بھی ہوئے پانی نہ مگر خیمے میں گیا
دریا کے کنارے ریتی پر عباس کا لاشہ کہتا ہے

ہر گام پہ ٹھوکر مولا کی ہر راہ میں کثرت فوجوں کی 
کس طرح تمہیں ڈھونڈیں اکبر آنکھوں کا اندھیرا کہتا ہے

دل اپنا سنبھالو اے بانو اصغر نہ پلٹ کے آئیں گے
سوکھے ہوئے آنسو کہتے ہیں ٹھہرا ہوا جھولا کہتا ہے

رکتے ہوئے خنجر کی جنبش شبیر کا خوں مقتل کی زمیں
جب بال کھلے ہیں زہراء کے میداں کا اندھیرا کہتا ہے

کچھ پھول پڑے ہیں سہرا کے کچھ ایڑیاں گھسنے کے ہیں نشاں
شہ لے کے گئے ہیں قاسم کو میدان کا رستا کہتا ہے

برچھی کی چمک میں دل کا لہو انگڑائی جوانی اور اکبر
بابا کی نگاہیں دیکھ نہ لیں اکبر کا کلیجہ کہتا ہے

بے گور و کفن ہوگا بھائی خیمے بھی جلیں گے مقتل میں 
اور بال کھلیں گے میداں میں ہمشیر کا پردہ کہتا ہے

اکبر کی اجل شبیر کا دل خیمے پہ نگاہیں راہ کٹھن
کیا دیکھ لی میت لیلٰی نے ہلتا ہوا پردہ کہتا ہے

حق کو بھی چھپا سکتا ہے کوئی دنیا کی اندھیری منزل میں 
اے بدر ہر اک آنسو میں مرے شبیر کا جلوہ کہتا ہے

مملکت بدر
 

رفیق رافع

یوم پیدائش 25 اپریل 2002

ہے کچھ دنوں سے محبت دکھائی دینے لگی
ہماری چپ جو کسی کو سنائی دینے لگی

وگرنہ ہم بھی تو اندھوں میں ہو چکے تھے شمار
پھر اک نگاہ ہمیں روشنائی دینے لگی

ترے قریب جو دیکھا تو مجھ نکمے کو
سمجھ کے خاص یہ دنیا بدھائی دینے لگی

ہم آ گئے تھے قریب اس قدر کہ پھر ہم کو
چہار سمت سے وحشت دکھائی دینے لگی

زیادتی ہو بھلے نیکیوں میں نقصاں ہے
ہمیں بھی قرب میں کثرت جدائی دینے لگی

رفیق رافع


 

بلال ہادی

یوم پیدائش 25 اپریل 1990

جہاں چھوڑا تھا تو اب تک وہیں ہے
مری جاں یہ محبت بھی نہیں ہے

بھروسہ تم پہ تھا سب سے زیادہ
ابھی تک تُو مرا کامل یقیں ہے

دغا جس نے دیا تھا ہم کو جاناں
ہمارے بیچ رہتا ہی کہیں ہے

شکن لوگوں کے ماتھے پر رہے گی
چمکتی صرف تیری ہی جبیں ہے

معافی چاہتا ہوں ڈسنے والے
نوازش کر یہ میری آستیں ہے

بتا کر بات یہ میں جا رہا ہوں
ابھی کچھ اور کہنے کو نہیں ہے

بلال ہادی


 

محسن کاکوروی

یوم وفات 24 اپریل 1905

سخن کو رتبہ ملا ہے مری زباں کے لئے 
زباں ملی ہے مجھے نعت کے بیاں کے لئے 

زمیں بنائی گئی کس کے آستاں کے لئے 
کہ لا مکاں بھی اٹھا سرو قد مکاں کے لئے 

ترے زمانے کے باعث زمیں کی رونق ہے 
ملا زمین کو رتبہ ترے زماں کے لئے 

کمال اپنا دیا تیرے بدر عارض کو 
کلام اپنا اتارا تری زباں کے لئے 

نبی ہے نار ترے دشمنوں کے جلنے کو 
بہشت وقف ترے عیش جاوداں کے لئے 

تھی خوش نصیبیٔ عرش بریں شب معراج 
کہ اپنے سر پہ قدم شاہ مرسلاں کے لئے 

نہ دی کبھی ترے عارض کو مہر سے تشبیہ 
رہا یہ داغ قیامت تک آسماں کے لئے 

عجب نہیں جو کہے تیرے فرش کو کوئی عرش 
کہ لا مکاں کا شرف ہے ترے مکاں کے لیے 

خدا کے سامنے محسنؔ پڑھوں گا وصف نبیؐ 
سجے ہیں جھاڑ یہ باتوں کے لا مکاں کے لیے

محسن کاکوروی



کامل حیدرآبادی

یوم وفات 23 اپریل 2023

افکار کو غرور کے سانچے میں ڈھال کے
اسباب پیدا کر لئے اس نے زوال کے

معلوم ہیں مزے ہمیں روٹی کے دال کے
برسوں سے کھا رہے ہیں نوالے حلال کے

باغی نہ ہو سکا مرے اندر کا آدمی
رکھا ہے اسکے پاؤں میں زنجیریں ڈال کے

جگنو غزل گلاب گہر چاند بن گئے
جب ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے میرے خیال کے

ناسور بن نہ جائے کہیں سرکشی جناب
کوڑے میں پھینک دیجیے اس کو نکال کے

بوسیدہ سے مکاں میں ہے کامل مرا قیام
اجداد کی رکھی ہے امانت سنبھال کے

کامل حیدرآبادی



نیلوفر علی

یوم پیدائش 22 اپریل 

ہر قدم پر نیا اک موڑ بنا رکّھا ہے
زندگی اور تجھے جینے میں کیا رکّھا ہے

ڈر نہ جائے کوئی بے ربطگیِ عالم سے 
اُس نے ہر چیز کو ترتیب میں لا رکّھا ہے

عشق سے اب بھی مُکرتے ہو تو بتلاؤ ذرا
اور کس آگ میں یہ ہاتھ جلا رکّھا ہے

کھو نہ جائے یہ تب و تابِ سماعت میری 
وقت کی نبض پہ کانوں کو لگا رکّھا ہے

نیلوفر علی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...