Urdu Deccan

Tuesday, July 4, 2023

نجم ثاقب

یوم پیدائش 03 مئی 1985

ہر سَمت نِگاہوں کو دِکھائی دیئے جاتے
کانوں کو فقط آپ سُنائی دیئے جاتے

جانا کوئی اتنا بھی ضروری تو نہیں تھا
گر تھا بھی تو تھوڑی سی رَسائی دیئے جاتے

اے کاش کہ اس بار خطا ہوتی ہماری
اور آپ صفائی پہ صفائی دیئے جاتے

کافی ہے یہی ہم کو میسر ہے خداوند
دُشوار تھا کتنا جو خُدائی دیئے جاتے

ہم ایسے مِرے مولا سبھی زِیست کے قیدی 
بے جُرم مُقید ہیں رِہائی دیئے جاتے

اُلفت میں ہَوس جن کی ہے، منزل تو بہت دور 
رَستے بھی نہیں ان کو سُجھائی دیئے جاتے

حاصل ہے جنہیں ثروتِ دنیا پہ اِجارہ
قابل تھے اگرچہ کہ گدائی دیئے جاتے 

نجم ثاقب


 

بال موہن پانڈے

یوم پیدائش 03 مئی 1998

آغاز سے انجام سفر دیکھ رہا ہوں 
دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہا ہوں

تیراک لگاتار یہاں ڈوب رہے ہیں 
چپ چاپ میں دریا کا ہنر دیکھ رہا ہوں 

اس خواب کی تعبیر کوئی مجھ کو بتا دے 
منزل سے بھی آگے کا سفر دیکھ رہا ہوں 

اس شخص کے ہونٹوں پہ مرا ذکر بہت ہے 
میں اپنی دعاؤں کا اثر دیکھ رہا ہوں 

جو تجھ کو بہت دور کبھی لے گئی مجھ سے 
میں کب سے وہی راہ گزر دیکھ رہا ہوں 

اک عمر سے قائم ہے یہ راتوں کی حکومت 
اک عمر سے میں خواب سحر دیکھ رہا ہوں

بال موہن پانڈے

 

Monday, July 3, 2023

آکاش عرش

یوم پیدائش 02 جون 2001

پھر ایک دوسری ہجرت نہیں زمین نہیں 
یہ میری مملکت درد مجھ سے چھین نہیں 

نواح یاد کی دل نے مسافرت چھوڑی 
کہ ایک شخص بھی اس کنج کا مکین نہیں 

غبار بستہ ستاروں سے بھر چکا آنکھیں 
وہ قافلہ، کہ کسی صبح کا امین نہیں 

میں تیرے ہدیۂ فرقت پہ کیسے نازاں ہوں 
مری جبیں پہ ترا زخم تک حسین نہیں 

آکاش عرش


تحسین مردآبادی

یوم پیدائش 02 مئی 1958

مغرور سر پہ پڑتی ہے جب مفلسی کی چوٹ
محسوس اس کو ہوتی ہے تب زندگی کی چوٹ

بزمِ جنوں میں شام و سحر دل لگی کی چوٹ
دل میرا سہہ سکے گا نہ اب بے رخی کی چوٹ

ہوش و خرد سنورتے ہیں زخموں کی چوٹ سے
ہوتی ہے لالہ زار غمِ عاشقی کی چوٹ

ڈوبا جو ایک بار تو ابھرا نہیں وجود
غرقاب سب کو کرتی ہے یہ خودکشی کی چوٹ

اللہ خیر! پڑتی ہے فیشن کے نام پر
ذہنوں پہ نسلِ نو کے نئی روشنی کی چوٹ

تحسین نے تو ہاتھ بڑھائے خلوص سے
آئی نہ راس پھر بھی مجھے دوستی کی چوٹ

تحسین مردآبادی



تاجور نجیب آبادی

یوم پیدائش 02 مئی 1894

اے آرزوئے شوق تجھے کچھ خبر ہے آج
حسن نظر نواز حریف نظر ہے آج

ہر راز داں ہے حیرتیٔ جلوہ ہائے راز
جو با خبر ہے آج وہی بے خبر ہے آج

کیا دیکھیے کہ دیکھ ہی سکتے نہیں اسے
اپنی نگاہ شوق حجاب نظر ہے آج

دل بھی نہیں ہے محرم اسرار عشق دوست
یہ راز داں بھی حلقۂ بیرون در ہے آج

کل تک تھی دل میں حسرت آزادیٔ قفس
آزاد آج ہیں تو غم بال و پر ہے آج

تاجور نجیب آبادی



خضر حیات خضرؔ

یوم پیدائش 01 مئی 1997

جب نہیں کوئی میسر تو عدو یاد آیا
جوبہا آنکھوں سے ہم کو وہ لہو یاد آیا

تجھ کو دیکھا تو کوئی ٹِیس عبادت کی اٹھی
تجھ کوچھونے کو بڑھے ہم تو وضو یاد آیا

درد جب حد سے بڑھا اس کی دوا یاد آئی
زخم جب ہنسنے لگے ہم کو رفو یاد آیا

پھر کوئی پھول کِھلا باغِ محبت میں کہیں
جب کسی نے یہ کہا مجھ سے تو ٗ تُو یاد آیا

اس نے جب تیر چلایا تو یہ دل کانپ گیا
اس نے خنجر جو اٹھایا تو گلو یاد آیا

جب کوئی زخم ہنسا اس کو خضرؔ یاد کیا
جب کوئی نام پکارا گیا تُو یاد آیا

خضر حیات خضرؔ


 

عقیل عباس

یوم پیدائش 01 مئی 1994

در کھلا اور وہ خیر الوصال آ گئی
کل کسی وقت بنتِ ملال آ گئی

عصر تک لشکری اونگھنے لگ گئے
پھر کہیں سے وہ بادِ شمال آ گئی

ہم نے قحطِ محبت میں دم سادھ کر
چپ کا روزہ رکھا اس کی کال آ گئی

زندگی نے مجھے اتنا گندا کِیا
موت کرنے مری دیکھ بھال آ گئی

عقیل عباس


 

شائستہ سحر شیخ

یوم پیدائش 30 اپریل 1965

یہ کیا کہ خلق خدا ہی ساری دہائی دے دے
 وبال جاں یہ وبا ہوئی ہے رہائی دے دے

خداے خلاق بستیوں میں سکوں نہیں ہے
 الم کشوں کو قرار سے آشنائی دے دے

 بہارکے دن مرے چمن کے خزاں ہوے ہیں
ڈرے ہوے ہیں گل وسمن خود نمائی دے دے

تری جلالت کے تیری قدرت کے ہم نہ منکر
تو مدعا ہے کمال مدح سرائی دے دے

 ہیں مضطرب تیرے اتنے سجدہ گزار بندے
 تو مسجدوں میں در حرم پہ رسائی دے دے

یہ مرگ انبوہ کیسا دہشت کا مرحلہ ہے
 اجڑ رہا ہے ترا جہاں خوش نمائی دے دے

 فراواں کر دے تو ماہ رمضاں میں نعمتوں کو
زمیں کو سبزہ طیور نغمہ سرائی دے دے

کدورتوں سے عداوتوں سے ہو سینہ خالی
جو سچ کہوں مجھ کو جرات لب کشائی دے دے

شائستہ سحر شیخ


 

عامر سلیم بیتاب

آج نیت مری کل تیری بدل جائے گی
حالت زار یونہی دوست سنبھل جائے گی 

 تا ابد سویا رہے گا نہ ضمیر عالم
چند ہی روز میں یہ برف پگھل جائے گی

میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ میرے شاعر
روح انصاف بھی دستور میں ڈھل جائے گی 

صبح نو آئیگی کرنوں کے خزانے لیکر
شب کے عفریت کو جو پل میں نگل جائے گی

کہہ رہی ہے مری فردوس تمنا اے دوست
اب تو عامر تری زنجیر پگھل جائے گی

عامر سلیم بیتاب

 

نسیم نکہت

یوم وفات 29 اپریل 2023

کہیں دن گزر گیا ہے کہیں رات کٹ گئی ہے 
یہ نہ پوچھ کیسے تجھ بن یہ حیات کٹ گئی ہے 

یہ اداس اداس موسم یہ خزاں خزاں فضائیں 
وہی زندگی تھی جتنی ترے ساتھ کٹ گئی ہے 

نہ تجھے خبر ہے میری نہ مجھے خبر ہے تیری 
تری داستاں سے جیسے مری ذات کٹ گئی ہے 

یہ ترا مزاج توبہ یہ ترا غرور توبہ 
تری بزم میں ہمیشہ مری بات کٹ گئی ہے 

ترے انتظار میں میں جلی خود چراغ بن کر 
تری آرزو میں اکثر یوں ہی رات کٹ گئی ہے 

نہ وہ ہم خیال میرا نہ وہ ہم مزاج میرا 
پھر اسی کے ساتھ کیسے یہ حیات کٹ گئی ہے 

یہ کتاب قسمتوں کی لکھی کس قلم نے نکہتؔ 
کہیں پر تو شہہ کٹی ہے کہیں مات کٹ گئی ہے

نسیم نکہت




 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...