Urdu Deccan

Friday, March 25, 2022

ولی رضوی

 یوم پیدائش 15 مارچ 1928


جنوں کا قافلہ بانگِ جرس کی راہ کیوں دیکھے

ہر اک منزل پہ ہم شورِ سلاسل چھوڑ آئے ہیں


ولی رضوی


کنول ضیائی

 یوم پیدائش 15 مارچ 1927


پرکھ فضا کی ہوا کا جسے حساب بھی ہے 

وہ شخص صاحب فن بھی ہے کامیاب بھی ہے 


ہمارا خون کا رشتہ ہے سرحدوں کا نہیں 

ہمارے خون میں گنگا بھی ہے چناب بھی ہے 


ہمارا دور اندھیروں کا دور ہے لیکن 

ہمارے دور کی مٹھی میں آفتاب بھی ہے 


کسی غریب کی روٹی پہ اپنا نام نہ لکھ 

کسی غریب کی روٹی میں انقلاب بھی ہے 


مرا سوال کوئی عام سا سوال نہیں 

مرا سوال تری بات کا جواب بھی ہے 


کنول ضیائی



 یوم پیدائش 15 مارچ 1921


دل کو رہین لذت درماں نہ کر سکے 

ہم ان سے بھی شکایت ہجراں نہ کر سکے 


اس طرح پھونک میرا گلستانِ آرزو 

پھر کوئی تیرے بعد اسے ویراں نہ کر سکے 


مہنگی تھی اس قدر ترے جلووں کی روشنی 

ہم اپنی ایک شام فروزاں نہ کر سکے 


بچھڑے رہے تو اور بھی رسوا کریں گے لوگ 

تم بھی علاج گردش دوراں نہ کر سکے 


دل ان کے ہاتھ سے بھی گیا ہم سے بھی گیا 

شاید وہ پاس خاطر مہماں نہ کر سکے 


ان پر بھی آشکار ہو کیوں اپنے دل کا حال 

ہم اس متاع درد کو ارزاں نہ کر سکے 


اعظمؔ ہزار بار لٹے راہ عشق میں 

لیکن کبھی شکایت دوراں نہ کر سکے


اعظم چشتی


شفقت حیات شفق

 یوم پیدائش 15 مارچ


مسافتوں کی حدوں کو چھو کر میں قرب تیرا حصار کرلوں

یہ چند لمحے جو بچ گئے ہیں انہیں میں پھر سے شمار کرلوں


تلاش کرتی رہی ہوں تم کو مجھے تمہاری ہی جستجو تھی

 ملے ہیں اب نقش پا تمہارے میں ان پہ خود کو نثار کرلوں

 

میں صحرا صحرا بھٹک رہی ہوں کہ منزلوں کی خبر نہیں ہے

نشان منزل یہی ہے شاید سفر پہ ہی انحصار کرلوں


نظر سے بس ہوگیا ہے اوجھل وہ میرے خوابوں میں رہنے والا

جہاں بھی ہو گا مرا رہے گا میں خود کو کیوں سوگوار کرلوں


میں کاٹ لوں گی یہ کالی راتیں گزارلوں گی یہ وقت شفقت

جو تم کہو تو تمہاری یادوں میں آج پھر سے سنگھار کرلوں


شفقت حیات شفق


خورشید اقبال

 یوم پیدائش 14 مارچ 1962


ارتقا نے زندگی کو راحتیں بھی کیں عطا

تحفتاً لیکن ہزاروں الجھنیں بھی کیں عطا


خورشید اقبال


ناز پروائی

 یوم پیدائش 14 مارچ 1970


بے چین دل کو اپنے سمجھا بجھا رہی ہے

پردیس میں ہے ساجن آنسو بہا رہی ہے


جیسے کہ اب بھی میرے بچپن کا ہے زمانہ

ماں مجھ کو پیار سے یوں روٹی کھلا رہی ہے


دنیا حسیں ہے لیکن میں دیکھوں اس کو کیسے

تصویر پتلیوں میں بس تیری آ رہی ہے


تنہائیوں میں دل کو آئے گا چین کیسے

جب یاد بے وفا کی ہر پل ستا رہی ہے


اجڑے ہوئے کھنڈر میں مانا نہیں ہے کوئی

رہ رہ کے پھر یہ کیسی آواز آرہی ہے


ننھے سے گھر میں بچے روٹی کی آس میں ہیں

مجبور ماں سڑک پر کرتب دکھا رہی ہے


یادوں کا نور لے کر راہِ وفا میں چلنا

سورج ندی میں ڈوبا اب رات چھا رہی ہے


اے ناز مفلسی نے گھیرا ہے جب سے گھر کو

بیٹی جوان گھر میں آنسو بہا رہی ہے


ناز پروائی


خالد اقبال یاسر

 یوم پیدائش 13 مارچ 1952


لگتا ہے زندہ رہنے کی حسرت گئی نہیں 

مر کے بھی سانس لینے کی عادت گئی نہیں 


شاید کہ رچ گئی ہے ہمارے خمیر میں 

سو بار صلح پر بھی عداوت گئی نہیں 


آنا پڑا پلٹ کے حدود و قیود میں 

چھوڑی بہت تھی پھر بھی شرافت گئی نہیں 


رہتی ہے ساتھ ساتھ کوئی خوش گوار یاد 

تجھ سے بچھڑ کے تیری رفاقت گئی نہیں 


باقی ہے ریزے ریزے میں اک ارتباط سا 

یاسرؔ بکھر کے بھی مری وحدت گئی نہیں


خالد اقبال یاسر


مبارکباد شمیم

 یوم پیدائش 13 مارچ 1924


اپنے ہاتھوں کی لکیریں نہ مٹا رہنے دے

جو لکھا ہے وہی قسمت میں لکھا رہنے دے


سچ اگر پوچھ تو زندہ ہوں انہیں کی خاطر

تشنگی مجھ کو سرابوں میں گھرا رہنے دے


آہ اے عشرت رفتہ نکل آئے آنسو

میں نہ کہتا تھا کہ اتنا نہ ہنسا رہنے دے


اس کو دھندلا نہ سکے گا کبھی لمحوں کا غبار

میری ہستی کا ورق یونہی کھلا رہنے دے


شرط یہ ہے کہ رہے ساتھ وہ منزل منزل

ورنہ زحمت نہ کرے باد صبا رہنے دے


یوں بھی احساس الم شب میں سوا ہوتا ہے

اے شب ماہ مری حد میں نہ آ رہنے دے


زندگی میرے لیے درد کا صحرا ہے شمیمؔ

میرے ماضی مجھے اب یاد نہ آ رہنے دے


مبارک شمیم


زائرہ اریب سواتی

 یوم پیدائش 12 مارچ 1986


چبھن اگرچہ بہت تھی صدا کے لہجے میں

وہ ڈھل گیا تھا مکمل وفا کے لہجے میں


تمھاری آنکھ ہے نم اور بارہا میں نے

سنی حیات کی دھڑکن قضا کے لہجے میں


دعا بھی مانگی ہے اپنوں کی سربلندی کی

شکایتیں بھی بہت کیں دعا کے لہجے میں


ہے سانس سہمی ہوئی اور روح پزمردہ

کہ موت جھانک رہی ہے فضا کے لہجے میں


چراغ زائرہ میری لحد پہ روشن تھا

سو آگئی ہے بغاوت ہوا کے لہجے میں


زئراہ اریب سواتی


ندیم فاضلی

 یوم پیدائش 12 مارچ 1959


اب اپنی ذات کا عرفان ہونے والا ہے 

خدا سے رابطہ آسان ہونے والا ہے 


گنوا چکا ہوں میں چالیس سال جس کے لیے 

وہ ایک پل مری پہچان ہونے والا ہے 


اسی لیے تو جلاتا ہوں آندھیوں میں چراغ 

یقین ہے کہ نگہبان ہونے والا ہے 


اب اپنے زخم نظر آ رہے ہیں پھول مجھے 

شعور درد پشیمان ہونے والا ہے 


مرے لیے تری جانب سے پیار کا اظہار 

مرے غرور کا سامان ہونے والا ہے 


یہ چوٹ ہے مری مشکل پسند فطرت پر 

جو مرحلہ تھا اب آسان ہونے والا ہے 


اگر غرور ہے سورج کو اپنی حدت پر 

تو پھر یہ قطرہ بھی طوفان ہونے والا ہے 


بہت عروج پہ خوش فہمیاں ہیں اب اس کی 

وہ عن قریب پشیمان ہونے والا ہے 


تو اپنا ہاتھ مرے ہاتھ میں اگر دے دے 

تو یہ فقیر بھی سلطان ہونے والا ہے 


چراغ دار کی لو ماند پڑ رہی ہے ندیمؔ 

پھر اپنے نام کا اعلان ہونے والا ہے


ندیم فاضلی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...