یوم پیدائش 15 مارچ 1928
جنوں کا قافلہ بانگِ جرس کی راہ کیوں دیکھے
ہر اک منزل پہ ہم شورِ سلاسل چھوڑ آئے ہیں
ولی رضوی
یوم پیدائش 15 مارچ 1928
جنوں کا قافلہ بانگِ جرس کی راہ کیوں دیکھے
ہر اک منزل پہ ہم شورِ سلاسل چھوڑ آئے ہیں
ولی رضوی
یوم پیدائش 15 مارچ 1927
پرکھ فضا کی ہوا کا جسے حساب بھی ہے
وہ شخص صاحب فن بھی ہے کامیاب بھی ہے
ہمارا خون کا رشتہ ہے سرحدوں کا نہیں
ہمارے خون میں گنگا بھی ہے چناب بھی ہے
ہمارا دور اندھیروں کا دور ہے لیکن
ہمارے دور کی مٹھی میں آفتاب بھی ہے
کسی غریب کی روٹی پہ اپنا نام نہ لکھ
کسی غریب کی روٹی میں انقلاب بھی ہے
مرا سوال کوئی عام سا سوال نہیں
مرا سوال تری بات کا جواب بھی ہے
کنول ضیائی
یوم پیدائش 15 مارچ 1921
دل کو رہین لذت درماں نہ کر سکے
ہم ان سے بھی شکایت ہجراں نہ کر سکے
اس طرح پھونک میرا گلستانِ آرزو
پھر کوئی تیرے بعد اسے ویراں نہ کر سکے
مہنگی تھی اس قدر ترے جلووں کی روشنی
ہم اپنی ایک شام فروزاں نہ کر سکے
بچھڑے رہے تو اور بھی رسوا کریں گے لوگ
تم بھی علاج گردش دوراں نہ کر سکے
دل ان کے ہاتھ سے بھی گیا ہم سے بھی گیا
شاید وہ پاس خاطر مہماں نہ کر سکے
ان پر بھی آشکار ہو کیوں اپنے دل کا حال
ہم اس متاع درد کو ارزاں نہ کر سکے
اعظمؔ ہزار بار لٹے راہ عشق میں
لیکن کبھی شکایت دوراں نہ کر سکے
اعظم چشتی
یوم پیدائش 15 مارچ
مسافتوں کی حدوں کو چھو کر میں قرب تیرا حصار کرلوں
یہ چند لمحے جو بچ گئے ہیں انہیں میں پھر سے شمار کرلوں
تلاش کرتی رہی ہوں تم کو مجھے تمہاری ہی جستجو تھی
ملے ہیں اب نقش پا تمہارے میں ان پہ خود کو نثار کرلوں
میں صحرا صحرا بھٹک رہی ہوں کہ منزلوں کی خبر نہیں ہے
نشان منزل یہی ہے شاید سفر پہ ہی انحصار کرلوں
نظر سے بس ہوگیا ہے اوجھل وہ میرے خوابوں میں رہنے والا
جہاں بھی ہو گا مرا رہے گا میں خود کو کیوں سوگوار کرلوں
میں کاٹ لوں گی یہ کالی راتیں گزارلوں گی یہ وقت شفقت
جو تم کہو تو تمہاری یادوں میں آج پھر سے سنگھار کرلوں
شفقت حیات شفق
یوم پیدائش 14 مارچ 1962
ارتقا نے زندگی کو راحتیں بھی کیں عطا
تحفتاً لیکن ہزاروں الجھنیں بھی کیں عطا
خورشید اقبال
یوم پیدائش 14 مارچ 1970
بے چین دل کو اپنے سمجھا بجھا رہی ہے
پردیس میں ہے ساجن آنسو بہا رہی ہے
جیسے کہ اب بھی میرے بچپن کا ہے زمانہ
ماں مجھ کو پیار سے یوں روٹی کھلا رہی ہے
دنیا حسیں ہے لیکن میں دیکھوں اس کو کیسے
تصویر پتلیوں میں بس تیری آ رہی ہے
تنہائیوں میں دل کو آئے گا چین کیسے
جب یاد بے وفا کی ہر پل ستا رہی ہے
اجڑے ہوئے کھنڈر میں مانا نہیں ہے کوئی
رہ رہ کے پھر یہ کیسی آواز آرہی ہے
ننھے سے گھر میں بچے روٹی کی آس میں ہیں
مجبور ماں سڑک پر کرتب دکھا رہی ہے
یادوں کا نور لے کر راہِ وفا میں چلنا
سورج ندی میں ڈوبا اب رات چھا رہی ہے
اے ناز مفلسی نے گھیرا ہے جب سے گھر کو
بیٹی جوان گھر میں آنسو بہا رہی ہے
ناز پروائی
یوم پیدائش 13 مارچ 1952
لگتا ہے زندہ رہنے کی حسرت گئی نہیں
مر کے بھی سانس لینے کی عادت گئی نہیں
شاید کہ رچ گئی ہے ہمارے خمیر میں
سو بار صلح پر بھی عداوت گئی نہیں
آنا پڑا پلٹ کے حدود و قیود میں
چھوڑی بہت تھی پھر بھی شرافت گئی نہیں
رہتی ہے ساتھ ساتھ کوئی خوش گوار یاد
تجھ سے بچھڑ کے تیری رفاقت گئی نہیں
باقی ہے ریزے ریزے میں اک ارتباط سا
یاسرؔ بکھر کے بھی مری وحدت گئی نہیں
خالد اقبال یاسر
یوم پیدائش 13 مارچ 1924
اپنے ہاتھوں کی لکیریں نہ مٹا رہنے دے
جو لکھا ہے وہی قسمت میں لکھا رہنے دے
سچ اگر پوچھ تو زندہ ہوں انہیں کی خاطر
تشنگی مجھ کو سرابوں میں گھرا رہنے دے
آہ اے عشرت رفتہ نکل آئے آنسو
میں نہ کہتا تھا کہ اتنا نہ ہنسا رہنے دے
اس کو دھندلا نہ سکے گا کبھی لمحوں کا غبار
میری ہستی کا ورق یونہی کھلا رہنے دے
شرط یہ ہے کہ رہے ساتھ وہ منزل منزل
ورنہ زحمت نہ کرے باد صبا رہنے دے
یوں بھی احساس الم شب میں سوا ہوتا ہے
اے شب ماہ مری حد میں نہ آ رہنے دے
زندگی میرے لیے درد کا صحرا ہے شمیمؔ
میرے ماضی مجھے اب یاد نہ آ رہنے دے
مبارک شمیم
یوم پیدائش 12 مارچ 1986
چبھن اگرچہ بہت تھی صدا کے لہجے میں
وہ ڈھل گیا تھا مکمل وفا کے لہجے میں
تمھاری آنکھ ہے نم اور بارہا میں نے
سنی حیات کی دھڑکن قضا کے لہجے میں
دعا بھی مانگی ہے اپنوں کی سربلندی کی
شکایتیں بھی بہت کیں دعا کے لہجے میں
ہے سانس سہمی ہوئی اور روح پزمردہ
کہ موت جھانک رہی ہے فضا کے لہجے میں
چراغ زائرہ میری لحد پہ روشن تھا
سو آگئی ہے بغاوت ہوا کے لہجے میں
زئراہ اریب سواتی
یوم پیدائش 12 مارچ 1959
اب اپنی ذات کا عرفان ہونے والا ہے
خدا سے رابطہ آسان ہونے والا ہے
گنوا چکا ہوں میں چالیس سال جس کے لیے
وہ ایک پل مری پہچان ہونے والا ہے
اسی لیے تو جلاتا ہوں آندھیوں میں چراغ
یقین ہے کہ نگہبان ہونے والا ہے
اب اپنے زخم نظر آ رہے ہیں پھول مجھے
شعور درد پشیمان ہونے والا ہے
مرے لیے تری جانب سے پیار کا اظہار
مرے غرور کا سامان ہونے والا ہے
یہ چوٹ ہے مری مشکل پسند فطرت پر
جو مرحلہ تھا اب آسان ہونے والا ہے
اگر غرور ہے سورج کو اپنی حدت پر
تو پھر یہ قطرہ بھی طوفان ہونے والا ہے
بہت عروج پہ خوش فہمیاں ہیں اب اس کی
وہ عن قریب پشیمان ہونے والا ہے
تو اپنا ہاتھ مرے ہاتھ میں اگر دے دے
تو یہ فقیر بھی سلطان ہونے والا ہے
چراغ دار کی لو ماند پڑ رہی ہے ندیمؔ
پھر اپنے نام کا اعلان ہونے والا ہے
ندیم فاضلی
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...