میرا غم ذہن کے دالان میں رکھا گیا ہے
یعنی فرقت کو بھی امکان میں رکھا گیا ہے
مجھ میں رکھا ہے کسی دشت کی ویرانی کو
اورمجھے مرقدِ ویران میں رکھا گیا ہے
دیکھ لے، اور نہیں رختِ سفر میں کچھ بھی
اک ترا ہجر ہے ، سامان میں رکھا گیا ہے
وہ جو اک شخص میسر ہی نہیں ہے مجھ کو
اک وہی شخص مرے دھیان میں رکھا گیا ہے
میرے بجھتے ہوئے ہر زخم کو شاداب رکھے
یہ ہنر تیرے نکمدان میں رکھا گیا ہے
یہ جو پاکیزہ مزاجی ہے مری آہوں میں
درد کو زخم کے جزدان میں رکھا گیا ہے
پھر مرے بھائی مجھے جانے نہ دیں گے صادق
پھر پیالہ مرے سامان میں رکھا گیا ہے