Urdu Deccan

Tuesday, November 22, 2022

اہتمام صادق

یوم پیدائش 11 نومبر 1993

میرا غم ذہن کے دالان میں رکھا گیا ہے
یعنی فرقت کو بھی امکان میں رکھا گیا ہے

مجھ میں رکھا ہے کسی دشت کی ویرانی کو
اورمجھے مرقدِ ویران میں رکھا گیا ہے

دیکھ لے، اور نہیں رختِ سفر میں کچھ بھی
اک ترا ہجر ہے ، سامان میں رکھا گیا ہے

وہ جو اک شخص میسر ہی نہیں ہے مجھ کو
اک وہی شخص مرے دھیان میں رکھا گیا ہے

میرے بجھتے ہوئے ہر زخم کو شاداب رکھے
یہ ہنر تیرے نکمدان میں رکھا گیا ہے

یہ جو پاکیزہ مزاجی ہے مری آہوں میں
درد کو زخم کے جزدان میں رکھا گیا ہے

پھر مرے بھائی مجھے جانے نہ دیں گے صادق
پھر پیالہ مرے سامان میں رکھا گیا ہے

اہتمام صادق



عابدہ تقی

یوم پیدائش 11 نومبر 1969

ہوئے تھے خوابوں کے معمار بھی اکیلے ہی
تو اب گرائیں یہ میناربھی اکیلے ہی

کسی کی پور پہ رکنے کی آس میں آنسو
ڈھلک گیا سرِ _رخسار بھی اکیلے ہی

الجھ رہا تھا تلاطم سے کیسے کچا گھڑا
گواہ تھا کوئی اُس پار بھی اکیلے ہی

یہ عشق شامل ِ دستورِ قصر ہو کہ نہ ہو
ہے سرخرو تہہِ دیوار بھی اکیلے ہی

جب ایک ضرب ہی ٹھہری ہے جیت کی منصف
تو رن میں جائیں گے اس بار بھی اکیلے ہی

یہ کہہ کے اٹھ گئے چوپال سے پرانے لوگ
سنیں گے اب تو سماچاربھی اکیلے ہی

عابدہ تقی



شرر راستی

یوم پیدائش 11 نومبر 1958

گلوں کے واسطے جیسے چمن ضروری ہے
مہاجروں کے لیے بھی وطن ضروری ہے

خدا کے واسطے سرسبز پیڑ مت کاٹو
زمیں کے جسم پہ یہ پیرہن ضروری ہے

رہِ حیات کی تارکیاں مٹانے کو
تمھاری یاد کی اک اک کرن ضروری ہے

بجا ہے اپنی جگہ ذوقِ شاعری لیکن
سخن کے واسطے مشقِ سخن ضروری ہے

صلیبِ وقت پہ چڑھ کر شرر یہ راز کھلا
جنونِ عشق کو دار و رسن ضروری ہے

شرر راستی


 

عظیم انصاری

یوم پیدائش 11 نومبر 1956

کیوں کریں ہم آشکارِ غم جو اپنے دل میں ہے
ہے مگر یہ سچ ہمارا دل بڑی مشکل میں ہے

چل رہا ہے راستے میں کارواں کے ساتھ وہ
دل مگر اس کا مسلسل دورئی منزل میں ہے

ایک دن لہریں بھی اس کو ساتھ اپنے لے گئیں
کہہ رہا تھا جو کہ اکثر عافیت ساحل میں ہے

زخم کاری دیکے قاتل خوش تو ہے بیشک مگر
دیکھ لے وہ بھی ذرا کہ کتنا دم بسمل میں ہے

میں اگر پوچھوں تو مجھ کو آپ بتلائیں گے کیا
ذکر میرا ہر گھڑی کیوں آپ کی محفل میں ہے

پھیر لی ہم نے نگاہِ مہر اپنی جس گھڑی
حسن کا جلوہ کہاں اب اس مہِ کامل میں ہے

آج مقتل میں کھڑے ہیں سر لیے ہم شان سے
دیکھنا ہے حوصلہ کتنا دلِ قاتل میں ہے

عزم ہو گر جستجو میں پھر کہاں مشکل ہے کچھ
ڈھونڈ ہی لیں گے اسے جو پردۂ محمل میں ہے

اے عظیم اب تو سمجھ اس زندگی کے رمز کو
عمرِ لاحاصل کا حاصل سعئ لاحاصل میں ہے

عظیم انصاری



احمد شبلی

یوم پیدائش 11 نومبر 1951

یہ اور بات ، کہ رہبر نہ ہم سفر پھر بھی
چنا ہے راستہ شبلی نے پر خطر پھر بھی

یہ اور بات ، زباں میں مری نہ ہو تاثیر
کلام رب کا، کرے گا مگر اثر پھر بھی

یہ اور بات ، لچک ہے ہماری فطرت میں
ملیں گے سخت اصولوں میں ہم مگر پھر بھی

یہ اور بات ، حقائق کچھ اور کہتے ہیں
حقیقتوں سے گریزاں ہے وہ نظر پھر بھی

یہ اور بات ، گھٹا جا رہا ہے دم میرا
حصار ذات سے ممکن نہیں مفر پھر بھی

یہ اور بات ، گراں تھی نہ اہل محفل پر
طویل نظم کیا ہم نے مختصر پھر بھی

یہ اور بات ، الگ ذائقے ہیں رشتوں کے
جڑا ہے شبلیؔ اخوت سے ہر بشر پھر بھی

احمد شبلی


 

احمد علی برقی اعظمی

بیادِ مولانا ابوالکلام آزاد
تاریخ پیدائش : 11 نومبر 1888
تاریخ وفات : 22 فروری 1958

شخصیت آزاد کی تھی مرجع اہل نظر
ان کو حاصل تھا جہاں میں عز و جاہ و کر و فر
ہے " غبار خاطر " ان کے فکر و فن کی ترجماں
ان کے رشحات قلم ہیں مظہر علم و ہنر
ان کی عظمت کے نشاں ہیں "الہلال" و " البلاغ "
جن میں ہیں اردو صحافت کے سبھی لعل و گہر
" ترجمان القرآں " ہے ان کی بصیرت کی گواہ
ان کی اردو فارسی عربی پہ تھی گہری نظر
شخصیت پر ان کی یہ اقبال کا صادق ہے قول
ہوتے ہیں پیدا بڑی مشکل سے ایسے دیدہ ور
ان کی تقریروں سے عصری آگہی ہے آشکار
ان کی تحریریں ہیں اک آئینہ نقد و نظر
ہیں یہ تعلیمی مراکز آج ان کی یادگار
ملک و ملت کی ترقی ان کے تھی پیش نظر
اس صدی کی تھے وہ برقی شخصیت تاریخ ساز
ان کا فن آئینہ ایام میں ہے جلوہ گر

احمد علی برقی اعظمی





ناطق گلاوٹھی

یوم پیدائش 11 نومبر 1986

خود ہو کے کچھ خدا سے بھی مرد خدا نہ مانگ 
رسم دعا یہ ہے کہ دعا لے دعا نہ مانگ 

نادان ماسوا سے نہ کر التجا نہ مانگ 
مانگے خدا سے بھی تو خدا کے سوا نہ مانگ 

میں اپنی بے زری کی ندامت کو کیا کہوں 
تو اور شرمسار نہ کر اے گدا نہ مانگ 

ان کا کرم بھی دیکھ لے اپنا بھرم بھی رکھ 
ہر مدعی سے مانگ مگر مدعا نہ مانگ 

خوگر ہو درد کا کہ یہی ہے علاج درد 
یہ کس کے بس کا روگ ہے اس کی دوا نہ مانگ 

رسم طلب میں کیا ہے سمجھ کر اٹھا قدم 
آ تجھ کو ہم بتائیں کہ کیا مانگ کیا نہ مانگ 

رکھی ہوئی ہے ساری خدائی ترے لئے 
حق دار بن کے سامنے آ مانگ یا نہ مانگ 

اس خاکدان دہر میں گھٹتا اگر ہے دم 
مقدور ہو تو آگ لگا دے ہوا نہ مانگ 

ملتی نہیں مراد تو ناطقؔ خیال چھوڑ 
میری صلاح یہ ہے کہ تو روٹھ جا نہ مانگ

ناطق گلاوٹھی



خارو سمبل پوری

یوم پیدائش 10 نومبر 1952

پھر تیری نرگسی آنکھوں کے اشارے جاگے
ٹوٹے سپنوں کے دل آویز نظارے جاگے

تہہ و بالا نظر آتی تھی شبستانِ نشاط
دل میں طوفاں تری یادوں کے سہارے جاگے

تھی شبِ وصل پذیرائی ترے جلوؤں کی
کہ چراغوں کے لیے چاند ستارے جاگے

غول تھا کرمکِ شب تاب کا رقصاں ہرسو
یا غمِ ہجر میں اشکوں کے شرارے جاگے

رات بھر زیر و زبر ہوتا رہا میرا وجود
قہر ڈھاتے ہویے جذبات کے دھارے جاگے

رونقِ انجمنِ دل ہوا خاورؔ کوئی
کتنی مدت میں نصیب آج ہمارے جاگے

خارو سمبل پوری



شفیق السلام قاسمی

یوم پیدائش 10 نومبر 1984

دیجئے کچھ تو اس کی وفا کا صلہ ، کچھ تو رکھئے بھرم پیار کے ہاتھ کا
جانے اس رات کی صبح ہو یا نہ ہو ، خط نہ ٹھکرائیے یار کے ہاتھ کا

کھا کے پتھر بھی منصور ہنستا رہا ، پھول مرشد نے پھینکا تو وہ رو پڑا
کیوں کہ پتھر تو نادان ہاتھوں کے تھے ، پھول تھا اک سمجھ دار کے ہاتھ کا

کیا ہوا جو مجھے جان دینی پڑی ، ان کے ہاتھوں کی سرخی تو کچھ بڑھ گئی
خون دل بھی مرا دے رہا ہے صدا ، رنگ اترے نہ دل دار کے ہاتھ کا

اب کے شیریں پہ کیسے غزل ہم کہیں اور فرہاد کا کیسے نوحہ لکھیں
اس کا جھمکا ہے لوہار کے ہاتھ کا ، اس کا تیشہ ہے سونار کے ہاتھ کا

 دور حاضر یہ کہتا ہے او بے خبر ! سوچ اجلی ہو اور بات ہو پر اثر
تاج کے حسن کا ذکر چھیڑوں گا میں ، حشر تو سوچ معمار کے ہاتھ کا

کیا خبر وہ تھی افواہ یا تھی وبا ، شہر سنسان بازار ویران تھا
کچھ مسیحا تھے زیر علاج ان دنوں ، اور نسخہ تھا بیمار کے ہاتھ کا

مونگ سینے پہ بنگالیوں کے دلیں اے شفیق آپ دشمن سے جاکر کہیں
دیکھ ! زنداں کا در کیسا وا ہو گیا ، معجزہ دیکھ فن کار کے ہاتھ کا

شفیق السلام قاسمی



فیروز احمد فائز

یوم پیدائش 10 نومبر 1990

اب حقیقت بھی خواب کی سی ہے
یہ محبت سراب کی سی ہے

پار ہو جائے، گر توازن ہو
زندگی اک طناب کی سی ہے

زخمِ دل طول دے گیا ورنہ
ہستی اپنی حباب کی سی ہے

ہو گئے واصلِ جہنم ہم
تیری فرقت عذاب کی سی ہے

آدمی بھی نہیں ہو تم لیکن
شان عزت مآب کی سی ہے

ہے سراپا سرِ ورق فائز
زیست اس کی کتاب کی سی ہے

فیروز احمد فائز



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...