Urdu Deccan

Thursday, February 11, 2021

ریاست علی تاج

 یوم پیدائش 07 فروری 1930


خیال و فکر جہاں زاویے بدلتے ہیں

وہیں سے نت نئے اسلوب چل نکلتے ہیں 


وہ رات کو پئے گل گشت جب نکلتے ہیں

فلک پہ چاند ستاروں کے دل مچلتے ہیں 


مرے کلام میں مفروضہ‌‌ و قیاس نہیں

یہ تجربات ہیں جو شعر بن کے ڈھلتے ہیں 


رخ حیات کو ہر زاویے سے دیکھا ہے

مشاہدات کے قالب میں شعر ڈھلتے ہیں 


قدم قدم پہ حیا سوزیوں کا عالم ہے

سنور سنور کے نگاران شہر چلتے ہیں 


تمہارے غم سے عبارت ہے زندگی میری

تمہارے یاد کے دل میں چراغ چلتے ہیں 


ہیں کامران وہی لوگ آج دنیا میں

جو وقت اور زمانے کے ساتھ چلتے ہیں 


گداز قلب بھی ہوتا ہے کچھ انہیں کو نصیب

جو درد مند ہیں ان کے ہی دل پگھلتے ہیں 


رہ حیات میں ایسا بھی ہے مقام کوئی

جہاں جنون و خرد ساتھ ساتھ چلتے ہیں 


جدا ہے رنگ سخن تاجؔ ہر سخن ور کا

بے اعتبار نظر فکر و فن بدلتے ہیں  


ریاست علی تاج


Saturday, February 6, 2021

عبدالسلام بنگلوری

 یوم پیدائش 06 فروری 1953


دل کی حالت بیاں نہیں ہوتی 

خامشی جب زباں نہیں ہوتی 


حرف حسرت ہے تم نے کیا سمجھا 

زندگی داستاں نہیں ہوتی 


کیا مقابل ہو حسن جاناں کے 

چاندنی بے کراں نہیں ہوتی 


تم جو آؤ تو ہو جواں محفل 

ورنہ کب کہکشاں نہیں ہوتی 


حسن کی بے رخی ادا ٹھہری 

عاشقی بد گماں نہیں ہوتی 


بے قراری کی بس دوا تم ہو 

یہ طبیبوں کے ہاں نہیں ہوتی 


جو یہ ہندوستاں نہیں ہوتا 

تو یہ اردو زباں نہیں ہوتی 


کچھ مراسم سلامؔ رہنے دے 

دشمنی جاوداں نہیں ہوتی


عبد السلام بنگلوری


تنویر نقوی

 یوم پیدائش 06 فروری 1919


ہمارے واسطے ہر آرزو کانٹوں کی مالا ہے

ہمیں تو زندگی دے کر خدا نے مار ڈالا ہے 


ادھر قسمت ہے جو ہر دم نیا غم ہم کو دیتی ہے

ادھر ہم ہیں کہ ہر غم کو ہمیشہ دل میں پالا ہے 


ابھی تک اک کھٹک سی ہے ابھی تک اک چبھن سی ہے

اگرچہ ہم نے اپنے دل سے ہر کانٹا نکالا ہے 


غلط ہی لوگ کہتے ہیں بھلائی کر بھلا ہوگا

ہمیں تو دکھ دیا اس نے جسے دکھ سے نکالا ہے 


تماشا دیکھنے آئے ہیں ہم اپنی تباہی کا

بتا اے زندگی اب اور کیا کیا ہونے والا ہے


تنویر نقوی


ارم لکھنوی

 یوم پیدائش 05 فروری 1967


ہم باغ تمنا میں دن اپنے گزار آئے

آئے نہ بہار آخر شاید نہ بہار آئے 


رنگ ان کے تلون کا چھایا رہا محفل پر

کچھ سینہ فگار اٹھے کچھ سینہ فگار آئے 


فطرت ہی محبت کی دنیا سے نرالی ہے

ہو درد سوا جتنا اتنا ہی قرار آئے 


کیا حسن طبیعت ہے کیا عشق کی زینت ہے

دل مٹ کے قرار آئے رنگ اڑ کے نکھار آئے 


در سے ترے ٹکرایا اک نعرۂ مستانہ

بے نام لیے تیرا ہم تجھ کو پکار آئے 


تصویر بنی دیکھی اک جان تمنا کی

آنسو مری آنکھوں میں کیا سلسلہ وار آئے 


کچھ ان سے نہ کہنا ہی تھی فتح محبت کی

جیتی ہوئی بازی کو ہم جان کے ہار آئے 


اس درجہ وہ پیارے ہیں کہتے ہی نہیں بنتا

کیا اور کہا جائے جب اور بھی پیار آئے


اس بزم میں ہم آخر پہنچے بھی تو کیا پایا

دل ہی کی دبی چوٹیں کچھ اور ابھار آئے


ارم لکھنوی


محمود شام

 یوم پیدائش 05 فروری 1940


مرے لیے تری نظروں کی روشنی ہے بہت

کہ دیکھ لوں تجھے پل بھر مجھے یہی ہے بہت


یہ اور بات کہ چاہت کے زخم گہرے ہیں

تجھے بھلانے کی کوشش تو ورنہ کی ہے بہت


کچھ اس خطا کی سزا بھی تو کم نہیں ملتی

غریب شہر کو اک جرم آگہی ہے بہت


کہاں سے لاؤں وہ چہرہ وہ گفتگو وہ ادا

ہزار حسن ہے گلیوں میں آدمی ہے بہت


کبھی تو مہلت نظارہ نکہت گزراں

لبوں پہ آگ سلگتی ہے تشنگی ہے بہت


کسی نے ہنس کے جو دیکھا تو ہو گئے اس کے

کہ اس زمانے میں اتنی سی بات بھی ہے بہت


محمود شام


ابرار اعظمی

 یوم پیدائش 05 فروری 1936


کس کا ہے جرم کس کی خطا سوچنا پڑا

رہتے ہیں کیوں وہ ہم سے خفا سوچنا پڑا


گل کی ہنسی میں رقص نجوم و قمر میں بھی

شامل ہے کتنی تیری ادا سوچنا پڑا


جب بھی مری وفاؤں کی بات آ گئی کہیں

ان کو پھر ایک عذر جفا سوچنا پڑا


غنچے اداس گل ہیں فسردہ چمن چمن

کس کا کرم ہے باد صبا سوچنا پڑا


شاید تمہاری یاد مرے پاس آ گئی

یا ہے مرے ہی دل کی صدا سوچنا پڑا


جب بھی کوئی بھٹک کے سر راہ آ گیا

کتنی کٹھن ہے راہ وفا سوچنا پڑا


زنداں کی بات دار کے چرچے رسن کا ذکر

کتنی عجب ہے طبع رسا سوچنا پڑا


ابرار اعظمی


عنوان چشتی

 یوم پیدائش 05 فروری 1935


زندہ باد اے دشت کے منظر زندہ باد

شہر میں ہے جلتا ہوا ہر گھر زندہ باد


کتنے نو عمروں کے قصے پاک کیے

کرفیو میں چلتا ہوا خنجر زندہ باد


تیرے میرے رشتوں کے سنگین گواہ

ٹوٹی مسجد جلتا مندر زندہ باد


آگ لگی ہے من کے باہر کیا کہیے

پھول کھلے ہیں من کے اندر زندہ باد


دل پر اک گھنگھور گھٹا سی چھائی ہے

آنکھوں میں پھرتا ہے سمندر زندہ باد 


عنوان چشتی


Thursday, February 4, 2021

اختر دربھنگوی

 یوم پیدائش 04 فروری 1955


پیکرِحسن کی حشمت ہے تیری لاثانی

حدت عشق کی ندرت ہے میری لافانی


شام کی شاخ پہ یادوں کے پرندے آ کر

میری آنکھوں میں بڑھاتے ہے شررافشانی


نصف راتوں کو صبا درد جگا دیتی ہے

اور زخموں پر الٹ دیتی ہے نمکیں پانی


خون سے تر ہیں تمناؤں کے اجلے دامن

خیمۂ دل میں غموں کی ہے ستم سامانی


وصل کی جاہتیں اب میرے تصور میں نہیں

عمر کے ساتھ ہی کھوجاتی ہے سب تابانی


اب شب ہجر کی بے مہر ہو کچھ بھی مدت

مجھ کو دینی ہے محبت میں بڑی قربانی


حجرۂ دل سے گزرتا ہے اگر نقش پا

دل کے جذبات میں آجاتی ہے اک طغیانی


لب پر رکھتا ہوں سلگتی یہ لجاجت اختر

سجدۂ عشق میں رکھتا ہوں سدا پیشانی


اختر دربھنگوی


آفتاب قابل

 لذتِ غم نہ کم کرے کوئی

ہے تمنا ستم کرے کوئی


شوق غم بھی نہ کم کرے کوئی

سر ادب سے جو خم کرے کوئی


دن میں جلوؤں کی بھیڑ ہوتی ہے

رات میں آنکھ نم کرے کوئی


وہ نہیں ہے تو کیا کرے جی کر

اب دوا اور نہ دم کرے کوئی


دیکھیں کیسے نہ روئے گی دنیا

میرا قصہ رقم کرے کوئی


ہے مسیحائی کا اگر دعویٰ

میری تکلیف کم کرے کوئی


زندگی کا جب اعتبار نہیں

کیوں غرورِ حشم کرے کوئی


جتنا ہو پیار بانٹئے قابل

کس لئے بیش و کم کرے کوئی


آفتاب قابل


مخدوم محی الدین

 یوم پیدائش 04 فروری 1908

نظم انتظار


رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے 

سانس کی طرح سے آپ آتے رہے جاتے رہے 


خوش تھے ہم اپنی تمناؤں کا خواب آئے گا 

اپنا ارمان برافگندہ نقاب آئے گا 


نظریں نیچی کیے شرمائے ہوئے آئے گا 

کاکلیں چہرے پہ بکھرائے ہوئے آئے گا 


آ گئی تھی دل مضطر میں شکیبائی سی 

بج رہی تھی مرے غم خانے میں شہنائی سی 


پتیاں کھڑکیں تو سمجھا کہ لو آپ آ ہی گئے 

سجدے مسرور کہ معبود کو ہم پا ہی گئے 


شب کے جاگے ہوئے تاروں کو بھی نیند آنے لگی 

آپ کے آنے کی اک آس تھی اب جانے لگی 


صبح نے سیج سے اٹھتے ہوئے لی انگڑائی 

او صبا! تو بھی جو آئی تو اکیلی آئی 


میرے محبوب مری نیند اڑانے والے 

میرے مسجود مری روح پہ چھانے والے 


آ بھی جا، تاکہ مرے سجدوں کا ارماں نکلے 

آ بھی جا، تاکہ ترے قدموں پہ مری جاں نکلے 


مخدوم محی الدین


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...