Urdu Deccan

Friday, February 19, 2021

ظہیر ناصری

 در و دیوار سے گھر کے قرینے بات کرتے ہیں

مگر مہمان آجائے تو زینے بات کرتے ہیں


اگر ہم مصلحت کی آڑ لے کر چپ بھی ہو جائیں

ہماری دونوں آنکھوں کے نگینے بات کرتے ہیں


کسی صورت سے ہو جاتا ھے طوفانوں کا اندازہ

سمندر چپ بھی ہوجائے سفینے بات کرتے ہیں


فقیروں کی تو عادت ھے بہت خاموش رہتے ہیں

ذرا ان کو ٹٹولو تو دفینے بات کرتے ہیں


ذرا قرآن کی گہرائیوں میں جھانک کر دیکھو

یقینناٗ علم و حکمت کے خزینے بات کرتے ہیں


بہت مشکل سے ہر ساعت گزرتی ھے غریبی کی

فراغت میں ہواؤں سے مہینے بات کرتے ہیں


ضعیفی میں خود اپنی سانس بھی اک بوجھ لگتی ھے

جوانی میں تو جسموں کے پسینے بات کرتے ہیں


ظہیر ناصری


عامر زمان خان

 جینے کو میں احساس کے ہر باندھ رہا ہوں

اک بورئیے میں سارا نگر باندھ رہا ہوں


اس حبس کے ماحول میں میرے لئے جو تھا

لہجے کا تیرے سارا اثر باندھ رہا ہوں


مجھ سے اے میری جان تو اتنا نہ خفا ہو

اک لمس کا احساس اگر باندھ رہا ہوں


عامر زمان خان




رئیس فروغ

 یوم پیدائش 15 فروری 1926


آنکھیں جن کو دیکھ نہ پائیں سپنوں میں بکھرا دینا

جتنے بھی ہیں روپ تمہارے جیتے جی دکھلا دینا


رات اور دن کے بیچ کہیں پر جاگے سوئے رستوں میں

میں تم سے اک بات کہوں گا تم بھی کچھ فرما دینا


اب کی رت میں جب دھرتی کو برکھا کی مہکار ملے

میرے بدن کی مٹی کو بھی رنگوں میں نہلا دینا


دل دریا ہے دل ساگر ہے اس دریا اس ساگر کی

ایک ہی لہر کا آنچل تھامے ساری عمر بتا دینا


ہم بھی لے کو تیز کریں گے بوندوں کی بوچھار کے ساتھ

پہلا ساون جھولنے والو تم بھی پینگ بڑھا دینا


فصل تمہاری اچھی ہوگی جاؤ ہمارے کہنے سے

اپنے گاؤں کی ہر گوری کو نئی چنریا لا دینا


یہ مرے پودے یہ مرے پنچھی یہ مرے پیارے پیارے لوگ

میرے نام جو بادل آئے بستی میں برسا دینا


ہجر کی آگ میں اے ری ہواؤ دو جلتے گھر اگر کہیں

تنہا تنہا جلتے ہوں تو آگ میں آگ ملا دینا


آج دھنک میں رنگ نہ ہوں گے ویسے جی بہلانے کو

شام ہوئے پر نیلے پیلے کچھ بیلون اڑا دینا


آج کی رات کوئی بیراگن کسی سے آنسو بدلے گی

بہتے دریا اڑتے بادل جہاں بھی ہوں ٹھہرا دینا


جاتے سال کی آخری شامیں بالک چوری کرتی ہیں

آنگن آنگن آگ جلانا گلی گلی پہرا دینا


اوس میں بھیگے شہر سے باہر آتے دن سے ملنا ہے

صبح تلک سنسار رہے تو ہم کو جلد جگا دینا


نیم کی چھاؤں میں بیٹھنے والے سبھی کے سیوک ہوتے ہیں

کوئی ناگ بھی آ نکلے تو اس کو دودھ پلا دینا


تیرے کرم سے یارب سب کو اپنی اپنی مراد ملے

جس نے ہمارا دل توڑا ہے اس کو بھی بیٹا دینا


رئیس فروغ 


عبد العزیز فطرت

 یوم پیدائش 15 فروری 1905


اپنی ناکام تمناؤں کا ماتم نہ کرو

تھم گیا دور مئے ناب تو کچھ غم نہ کرو


اور بھی کتنے طریقے ہیں بیان غم کے

مسکراتی ہوئی آنکھوں کو تو پر نم نہ کرو


ہاں یہ شمشیر حوادث ہو تو کچھ بات بھی ہے 

گردنیں طوق غلامی کے لیے خم نہ کرو


تم تو ہو رند تمہیں محفل جم سے کیا کام

بزم جم ہو گئی برہم تو کوئی غم نہ کرو


بادۂ کہنہ ڈھلے ساغر نو میں فطرتؔ

ذوق فریاد کو آزردۂ ماتم نہ کرو


عبدالعزیز فطرت


احسان دانش

 یوم پیدائش 15 فروری 1914


نہ سیو ہونٹ نہ خوابوں میں صدا دو ہم کو

مصلحت کا یہ تقاضا ہے بھلا دو ہم کو


جرم سقراط سے ہٹ کر نہ سزا دو ہم کو

زہر رکھا ہے تو یہ آب بقا دو ہم کو


بستیاں آگ میں بہہ جائیں کہ پتھر برسیں

ہم اگر سوئے ہوئے ہیں تو جگا دو ہم کو


ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب

ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو


خضر مشہور ہو الیاس بنے پھرتے ہو

کب سے ہم گم ہیں ہمارا تو پتا دو ہم کو


زیست ہے اس سحر و شام سے بیزار و زبوں

لالہ و گل کی طرح رنگ قبا دو ہم کو


شورش عشق میں ہے حسن برابر کا شریک

سوچ کر جرم تمنا کی سزا دو ہم کو


جرأت لمس بھی امکان طلب میں ہے مگر

یہ نہ ہو اور گناہ گار بنا دو ہم کو


کیوں نہ اس شب سے نئے دور کا آغاز کریں

بزم خوباں سے کوئی نغمہ سنا دو ہم کو


مقصد زیست غم عشق ہے صحرا ہو کہ شہر

بیٹھ جائیں گے جہاں چاہو بٹھا دو ہم کو


ہم چٹانیں ہیں کوئی ریت کے ساحل تو نہیں

شوق سے شہر پناہوں میں لگا دو ہم کو


بھیڑ بازار سماعت میں ہے نغموں کی بہت

جس سے تم سامنے ابھرو وہ صدا دو ہم کو


کون دیتا ہے محبت کو پرستش کا مقام

تم یہ انصاف سے سوچو تو دعا دو ہم کو


آج ماحول کو آرائش جاں سے ہے گریز

کوئی دانشؔ کی غزل لا کے سنا دو ہم کو


احسان دانش


غلام ربانی تاباں

 یوم پیدائش 15 فروری 1914


رہ گزر ہو یا مسافر نیند جس کو آئے ہے

گرد کی میلی سی چادر اوڑھ کے سو جائے ہے


قربتیں ہی قربتیں ہیں دوریاں ہی دوریاں

آرزو جادو کے صحرا میں مجھے دوڑائے ہے


وقت کے ہاتھوں ضمیر شہر بھی مارا گیا

رفتہ رفتہ موج خوں سر سے گزرتی جائے ہے


میری آشفتہ سری وجہ شناسائی ہوئی

مجھ سے ملنے روز کوئی حادثہ آ جائے ہے


یوں تو اک حرف تسلی بھی بڑی شے ہے مگر

ایسا لگتا ہے وفا بے آبرو ہو جائے ہے


زندگی کی تلخیاں دیتی ہیں خوابوں کو جنم

تشنگی صحرا میں دریا کا سماں دکھلائے ہے


کس طرح دست ہنر میں بولنے لگتے ہیں رنگ

مدرسے والوں کو تاباںؔ کون سمجھا پائے ہے


غلام ربانی تاباں


بشیر بدر

 یوم پیدائش 15 فروری 1935


ہمارا دل سویرے کا سنہرا جام ہو جائے

چراغوں کی طرح آنکھیں جلیں جب شام ہو جائے 


کبھی تو آسماں سے چاند اترے جام ہو جائے

تمہارے نام کی اک خوبصورت شام ہو جائے


عجب حالات تھے یوں دل کا سودا ہو گیا آخر

محبت کی حویلی جس طرح نیلام ہو جائے


سمندر کے سفر میں اس طرح آواز دے ہم کو

ہوائیں تیز ہوں اور کشتیوں میں شام ہو جائے


مجھے معلوم ہے اس کا ٹھکانا پھر کہاں ہوگا

پرندہ آسماں چھونے میں جب ناکام ہو جائے


اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو

نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے


بشیر بدر


وحید قریشی

 یوم پیدائش 14 فروری 1925


زمانے پھر نئے سانچے میں ڈھلنے والا ہے

ذرا ٹھہر کہ نتیجہ نکلنے والا ہے


ابھی ہجوم عزیزاں ہے زیر تخت مراد

مگر زمانہ چلن تو بدلنے والا ہے


ہوئی ہے ناقۂ لیلیٰ کو سارباں کی تلاش

جلوس شہر کی گلیوں میں چلنے والا ہے


ضمیر اپنی تمنا کو پھر اگل دے گا

سمندروں سے یہ سونا اچھلنے والا ہے


نیا عذاب نئی صبحوں کی تلاش میں ہے

یہ ملک پھر نیا قاتل بدلنے والا ہے


صدائے صبح بشارت خبر سنائے گی

سلگ رہا ہے جو سینہ وہ جلنے والا ہے


نئے عذاب کی آمد ہے اور ہم ہیں وحیدؔ

عذاب دورۂ حاضر تو ٹلنے والا ہے


وحید قریشی


حافظ تائب

 یوم پیدائش 14 فروری 1931


پتھر میں فن کے پھول کھلا کر چلا گیا

کیسے امٹ نقوش کوئی چھوڑتا گیا


سمٹا ترا خیال تو گل رنگ اشک تھا

پھیلا تو مثل دشت وفا پھیلتا گیا


سوچوں کی گونج تھی کہ قیامت کی گونج تھی

تیرا سکوت حشر کے منظر دکھا گیا


یا تیری آرزو مجھے لے آئی اس طرف

یا میرا شوق راہ میں صحرا بچھا گیا


وہ جس کو بھولنے کا تصور محال تھا

وہ عہد رفتہ رفتہ مجھے بھولتا گیا


جب اس کو پاس خاطر آزردگاں نہیں

مڑ مڑ کے کیوں وہ دور تلک دیکھتا گیا 


حفیظ تائب


اویس احمد دوراں

 یوم پیدائش 14 فروری 1938


اے ہم نفسو! شب ہے گراں جاگتے رہنا

ہر لحظہ ہے یاں خطرۂ جاں جاگتے رہنا


ایسا نہ ہو یہ رات کوئی حشر اٹھا دے

اٹھتا ہے ستاروں سے دھواں جاگتے رہنا


اب حسن کی دنیا میں بھی آرام نہیں ہے

ہے شور سر کوئے بتاں جاگتے رہنا


یہ صحن گلستاں نہیں مقتل ہے رفیقو!

ہر شاخ ہے تلوار یہاں جاگتے رہنا


بے داروں کی دنیا کبھی لٹتی نہیں دوراںؔ

اک شمع لئے تم بھی یہاں جاگتے رہنا


اویس احمد دوراں


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...