Urdu Deccan

Friday, February 19, 2021

سیما غزل

 یوم پیدائش 17 فروری 1964


محبتوں کو بھی وعدوں میں رکھ دیا گیا ہے

کہ جیسے پھول کتابوں میں رکھ دیا گیا ہے


چراغ گھر کی منڈیروں پہ رکھ دیئے گئے ہیں 

اور انتظار چراغوں میں رکھ دیا گیا ہے


صدائیں سرد ہواوں کو سونپ دی گئ تھیں

پھر اس ہوا کو دریچوں میں رکھ دیا گیا ہے


جو ایک یاد پرانی سجی تھی کمرے میں 

اسے بھی اب تو درازوں میں رکھ دیا گیا ہے


میں اک گماں تھی' فسانے میں ڈھل گئ آخر

وہ ایک خواب تھا ' آنکھوں میں رکھ دیا گیا ہے


میں ایک عرصہ اسی کی سپردگی میں رہی

جو ایک لمحہ خیالوں میں رکھ دیا گیا ہے


اب ان ہواوں میں ہے اس کی گنگناہٹ بھی

پھر اس کا لمس گلابوں میں رکھ دیا گیا ہے


سیما


غزل

آرزو لکھنوی

 یوم پیدائش 17 فروری 1873


معصوم نظر کا بھولا پن للچا کے لبھانا کیا جانے

دل آپ نشانہ بنتا ہے وہ تیر چلانا کیا جانے


کہہ جاتی ہے کیا وہ چین جبیں یہ آج سمجھ سکتے ہیں کہیں

کچھ سیکھا ہوا تو کام نہیں دل ناز اٹھانا کیا جانے


چٹکی جو کلی کوئل کوکی الفت کی کہانی ختم ہوئی

کیا کس نے کہی کیا کس نے سنی یہ بتا زمانہ کیا جانے


تھا دیر و حرم میں کیا رکھا جس سمت گیا ٹکرا کے پھرا

کس پردے کے پیچھے ہے شعلہ اندھا پروانہ کیا جانے


یہ زورا زوری عشق کی تھی فطرت ہی جس نے بدل ڈالی

جلتا ہوا دل ہو کر پانی آنسو بن جانا کیا جانے


سجدوں سے پڑا پتھر میں گڑھا لیکن نہ مٹا ماتھے کا لکھا

کرنے کو غریب نے کیا نہ کیا تقدیر بنانا کیا جانے


آنکھوں کی اندھی خود غرضی کاہے کو سمجھنے دے گی کبھی

جو نیند اڑا دے راتوں کی وہ خواب میں آنا کیا جانے


پتھر کی لکیر ہے نقش وفا آئینہ نہ جانو تلووں کا

لہرایا کرے رنگیں شعلہ دل پلٹے کھانا کیا جانے


جس نالے سے دنیا بے کل ہے وہ جلتے دل کی مشعل ہے

جو پہلا لوکا خود نہ سہے وہ آگ لگانا کیا جانے


ہم آرزوؔ آئے بیٹھے ہیں اور وہ شرمائے بیٹھے ہیں

مشتاق نظر گستاخ نہیں پردہ سرکانا کیا جانے


آرزو لکھنوی


آفتاب شمیم اقبال


 یوم پیدائش 16 فروری 1933


نسلیں جو اندھیرے کے محاذوں پہ لڑی ہیں

اب دن کے کٹہرے میں خطاوار کھڑی ہیں


بے نام سی آواز شگفت آئی کہیں سے

کچھ پتیاں شاید شجر شب سے جھڑی ہیں


نکلیں تو شکستوں کے اندھیرے ابل آئیں 

رہنے دو جو کرنیں مری آنکھوں میں گڑی ہیں


آ ڈوب! ابھرنا ہے تجھے اگلے نگر میں

منزل بھی بلاتی ہے صلیبیں بھی کھڑی ہیں


جب پاس کبھی جائیں تو پٹ بھیڑ لیں کھٹ سے

کیا لڑکیاں سپنے کے دریچوں میں کھڑی ہیں


کیا رات کے آشوب میں وہ خود سے لڑا تھا

آئینے کے چہرے پہ خراشیں سی پڑی ہیں


خاموشیاں اس ساحل آواز سے آگے

پاتال سے گہری ہیں، سمندر سے بڑی ہیں


آفتاب اقبال شمیم

حسن شمسی

 یوم پیدائش 16 فروری 1946


وفا کا یہ صلہ اچھا دیا ہے

مجھے ہی بیوفا ٹھہرا دیا ہے


عزیزوں دوستوں کے مشوروں نے

ہمارا مسئلہ الجھا دیا ہے


بڑھائے جب بھی پاؤں حق کی جانب

مرے رب نے مجھے رستہ دیا ہے


کھلا کر خوبصورت گل خدا نے

ہمارا گلستاں مہکا دیا ہے


سڑک پر آئے دہقانوں نے بھاؤ

سب آٹے دال کا بتلا دیا ہے


'حسن' بندوں نے جیسے بیج بوئے

خدا نے پھل انھیں ویسا دیا ہے


حسن شمسی


اصغر گھورکپوری

 یوم پیدائش 16 فروری 1927


ہم دشت سے ہر شام یہی سوچ کے گھر آئے

شاید کہ کسی شب ترے آنے کی خبر آئے


معلوم کسے شہر طلسمات کا رستہ

کچھ دور مرے ساتھ تو مہتاب سفر آئے


اس پھول سے چہرے کی طلب راحت جاں ہے

پھینکے کوئی پتھر بھی تو احساں مرے سر آئے


تا پھر نہ مجھے تیرہ نصیبی کا گلا ہو

یہ صبح کا سورج مری آنکھوں میں اتر آئے


اب آگے علم اور کوئی ہاتھوں سے لے لے

ہم شب کے مسافر تھے چلے تا بہ سحر آئے


اصغر گورکھپوری


نثار ناسک

یوم پیدائش 15 فروری 1945


اس سے پہلے کہ مجھے وقت علیحدہ رکھ دے

میرے ہونٹوں پہ مرے نام کا بوسہ رکھ دے


حلق سے اب تو اترتا نہیں اشکوں کا نمک

اب کسی اور کی گردن پہ یہ دنیا رکھ دے


روشنی اپنی شباہت ہی بھلا دے نہ کہیں

اپنے سورج کے سرہانے مرا سایہ رکھ دے


تو کہاں لے کے پھرے گی مری تقدیر کا بوجھ

میری پلکوں پہ شب ہجر یہ تارا رکھ دے


مجھ سے لے لے مرے قسطوں پہ خریدے ہوئے دن

میرے لمحے میں مرا سارا زمانہ رکھ دے


ہم جو چلتے ہیں تو خود بنتا چلا جاتا ہے

لاکھ مٹی میں چھپا کر کوئی رستہ رکھ دے


ہم کو آزادی ملی بھی تو کچھ ایسے ناسکؔ

جیسے کمرے سے کوئی صحن میں پنجرہ رکھ دے


نثار ناسک


خضر احمد خان شرر


 اک نظر تو اِدھر چارہ گر دیکھنا

کیوں ہے روٹھا مرا ہم سفر دیکھنا 


اِس ڈگر دیکھنا اُس ڈگر دیکھنا

راستوں کو ترے سر بہ سر دیکھنا 


کاش تقدیر میں اب یہی ہو لکھا

ہو رُخِ مصطفیﷺ عمر بھر دیکھنا


زندگی کی اُڑانیں ہوں بھرنی اگر  

تم پرندہ نہیں اُس کے پر دیکھنا


کچھ تو دشمن مخالف ہیں صف میں کھڑے

کچھ ہیں احباب سینہ سپر دیکھنا 


شام ہوتے ہی سورج بچھڑ جائے گا 

پھر نہ اُبھرے گا وہ رات بھر دیکھنا 


جن کے آنگن میں خنجر نہ ہوں پھول ہوں 

 شہر میں کوئی ایسا ہو گھر دیکھنا


مشورہ ہے مرا میرے احباب سے

عیب چُنّا مرے مت ہُنر دیکھنا 


اوج پر بھی چڑھے اور زمیں پر گرے

کیسے کیسے یہاں نام ور دیکھنا 


اے فلک دے چھپا بادلوں میں اُسے 

چاند میرا نہیں بام پر دیکھنا


ہے یہی مشغلہ جب سے تو ہے گیا

ٹِکٹِکی باندھ کر رہ گذر دیکھنا


آج کا نوجواں عشق کی آگ میں 

کود پڑتا ہے کیوں بے خطر دیکھنا


نوجوانی میں کر ایک غلطی جواں 

ہاتھ ملتا رہا عمر بھر دیکھنا 


جانتا ہوں تغافل بجا ہے ترا

پر خُدارا اِدھر اک نظر دیکھنا 


رات بھر یہ عبادت ہی کرتا ہوں میں 

یاد کرنا تری اور قمر دیکھنا  


بس اِسی فکر میں کٹ رہی شب شرر

جاگ جائیں تو ہوگی سحر دیکھنا 

    خضر احمد خان شرر

ظہیر ناصری

 در و دیوار سے گھر کے قرینے بات کرتے ہیں

مگر مہمان آجائے تو زینے بات کرتے ہیں


اگر ہم مصلحت کی آڑ لے کر چپ بھی ہو جائیں

ہماری دونوں آنکھوں کے نگینے بات کرتے ہیں


کسی صورت سے ہو جاتا ھے طوفانوں کا اندازہ

سمندر چپ بھی ہوجائے سفینے بات کرتے ہیں


فقیروں کی تو عادت ھے بہت خاموش رہتے ہیں

ذرا ان کو ٹٹولو تو دفینے بات کرتے ہیں


ذرا قرآن کی گہرائیوں میں جھانک کر دیکھو

یقینناٗ علم و حکمت کے خزینے بات کرتے ہیں


بہت مشکل سے ہر ساعت گزرتی ھے غریبی کی

فراغت میں ہواؤں سے مہینے بات کرتے ہیں


ضعیفی میں خود اپنی سانس بھی اک بوجھ لگتی ھے

جوانی میں تو جسموں کے پسینے بات کرتے ہیں


ظہیر ناصری


عامر زمان خان

 جینے کو میں احساس کے ہر باندھ رہا ہوں

اک بورئیے میں سارا نگر باندھ رہا ہوں


اس حبس کے ماحول میں میرے لئے جو تھا

لہجے کا تیرے سارا اثر باندھ رہا ہوں


مجھ سے اے میری جان تو اتنا نہ خفا ہو

اک لمس کا احساس اگر باندھ رہا ہوں


عامر زمان خان




رئیس فروغ

 یوم پیدائش 15 فروری 1926


آنکھیں جن کو دیکھ نہ پائیں سپنوں میں بکھرا دینا

جتنے بھی ہیں روپ تمہارے جیتے جی دکھلا دینا


رات اور دن کے بیچ کہیں پر جاگے سوئے رستوں میں

میں تم سے اک بات کہوں گا تم بھی کچھ فرما دینا


اب کی رت میں جب دھرتی کو برکھا کی مہکار ملے

میرے بدن کی مٹی کو بھی رنگوں میں نہلا دینا


دل دریا ہے دل ساگر ہے اس دریا اس ساگر کی

ایک ہی لہر کا آنچل تھامے ساری عمر بتا دینا


ہم بھی لے کو تیز کریں گے بوندوں کی بوچھار کے ساتھ

پہلا ساون جھولنے والو تم بھی پینگ بڑھا دینا


فصل تمہاری اچھی ہوگی جاؤ ہمارے کہنے سے

اپنے گاؤں کی ہر گوری کو نئی چنریا لا دینا


یہ مرے پودے یہ مرے پنچھی یہ مرے پیارے پیارے لوگ

میرے نام جو بادل آئے بستی میں برسا دینا


ہجر کی آگ میں اے ری ہواؤ دو جلتے گھر اگر کہیں

تنہا تنہا جلتے ہوں تو آگ میں آگ ملا دینا


آج دھنک میں رنگ نہ ہوں گے ویسے جی بہلانے کو

شام ہوئے پر نیلے پیلے کچھ بیلون اڑا دینا


آج کی رات کوئی بیراگن کسی سے آنسو بدلے گی

بہتے دریا اڑتے بادل جہاں بھی ہوں ٹھہرا دینا


جاتے سال کی آخری شامیں بالک چوری کرتی ہیں

آنگن آنگن آگ جلانا گلی گلی پہرا دینا


اوس میں بھیگے شہر سے باہر آتے دن سے ملنا ہے

صبح تلک سنسار رہے تو ہم کو جلد جگا دینا


نیم کی چھاؤں میں بیٹھنے والے سبھی کے سیوک ہوتے ہیں

کوئی ناگ بھی آ نکلے تو اس کو دودھ پلا دینا


تیرے کرم سے یارب سب کو اپنی اپنی مراد ملے

جس نے ہمارا دل توڑا ہے اس کو بھی بیٹا دینا


رئیس فروغ 


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...