Urdu Deccan

Sunday, March 28, 2021

عابد حسین عابد

 شوق سے پالے تھے میں نے جس کے نخرےناز بھی

وہ مرا قاتل بھی نکلا وہ مرا ہمراز بھی


سرخ لب ابرو کشیدہ اور نگاہِ ناز بھی

ہر ادا قاتل صنم کی اور عجب انداز بھی


بادشاہِ عشق ہوں پر دوں کسے دل کا محل

اک طرف گلناز ہے اور اک طرف ممتاز بھی


ہے نصیبا خاک اپنی جگ خیالی تشنگی

یا الٰہی کیا غضب ہے زندگی کا راز بھی


میں نہ واعظ میں نہ زاہد میں نہ عابد ساقیا

کیا نہیں میرے لئے اب ساغر و شیراز بھی


گر فلک منزل ہے تیری یوں نہ ڈر طوفان سے

ہے بہت اونچی دلِ ناداں تری پرواز بھی


لوٹ لی محفل جو تو نے دفعتاً اک شعر سے 

یوں لگا عابؔد ہمیں تو ہے سخن شہباز بھی


عابد حسین عابؔد


سعدیہ بشیر

 چهوٹی چهوٹی رنجشوں میں فاصلوں کا شورتھا 

جس نے بدلا راستہ وہ ظرف میں کم زور تها 


اس بدن کی سلطنت میں کس قدر بے خامشی 

دل ذرا سا ، چار خانے ، کس قدر منہ زور تها


ہم وفاؤں کے خزانے کهنکهناتے رہ گئے 

اور جفا کے چار سکوں کا بهی کتنا شور تھا


اب کہاں تصویر میں وہ رنگ وہ رعنائیاں

 ایک جذبہ ڈھے چکا تھا اب کنار گور تھا 


منصفوں نے بھی سنی تھی آہ زاری کی صدا 

فیصلہ محفوظ رکھا ، ان کے دل میں چور تھا


سعدیہ بشیر


یامین یاسمین

شہرِ وفا میں اپنا بھی کیا نام آیا ہے 

مانگا خدا سے جو ہے وہی کام آیا ہے 


ہر اور پھول کِھل اُٹھے اُجڑے دیار میں 

تیری نگاہِ شوق کا انعام آیا ہے 


لوٹ آئے گا وہ وقت،امیدِ بہار رکھ

فطرت سے ہم کو آج یہ پیغام آیا ہے 


یامین یاسمین


سید مرتضی بسمل

 روز و شب ہم نے اشکباری کی

انتہا ہے یہ بے قراری کی


میرا دامن سیاہ تھا پھر بھی

اے خدا تو نے پاسداری کی


جانے کب کا میں مر گیا ہوتا

ان کی یادوں نے آبیاری کی


کوستا ہی رہا مجھے ہر دم 

قدر کیا جانے وہ بھکاری کی


خاک ہوں خاک میں ہی ملنا ہے

بُو بھی آتی ہے خاکساری کی


کام میں نے کیا مصور کا

میں نے شعروں میں دستکاری کی


میں تو مجنون بن گیا بسمل

مجھ پہ لوگوں نے سنگ باری کی


سید مرتضی بسمل


میر خوشحال فیضی

 مالی کی حرکتوں پہ قدغن ہے

اس لیے داغدار گلشن ہے


خون کرنا پڑا ہے خواہش کا

ہم یہ سمجھے تھے سہل جیون ہے


ہوش آتے ہی مشکلیں دیکھیں

میری خوشیوں کا عہد بچپن ہے


اُس کو کرنا ہے فیصلہ میرا

اس لیے تیز آج دھڑکن ہے


کتنے رازوں کو دفن ہم نے کیا

دل ہمارا بھی ایک مدفن ہے


ایک پل میں ،میں ہو گیا تیرا

تیرے چہرے پہ کتنا جوبن ہے


ہم کو کیا لینا شہر سے فیضی

دشتِ ویراں میں اپنا مسکن ہے


میر خوشحال فیضی


محمد الیاس کرگلی

 ایسا تو نہیں دل میں محبت ہی نہیں تھی

اظہار محبت کی بھی ہمت ہی نہیں تھی


آساں تو نہیں عشق کا سودا مرے ہمدم

ایسا بھی نہیں مجھ میں وہ دولت ہی نہیں تھی


ترسیلِ عدم سے نہ ہوا عشق کا اظہار

افسوس زمانے میں سہولت ہی نہیں تھی 


ہم اپنی انا لے کے ہی واپس چلے آئے 

تکرار کی ہم میں کوئی عادت ہی نہیں تھی


ہم بس کہ کتابوں میں ہی کھوئے رہے اب تک

دل کے لئے اپنے کوئی مہلت ہی نہیں تھی 


پہلی ہی نظر میں ترا ہونا بھی عجب تھا

اور بن ترے دل میں کوئی حاجت ہی نہیں تھی


اُس وقت میرے نام سے واقف نہ تھی دنیا

الیاس کی اس دور میں شہرت ہی نہیں تھی


محمد الیاس کرگلی


راتھر عمر

 نظر لگی ہے کس کی میرے شہر کو

کہ خون نے ہے اوڑھا پورے شہر کو


جکڑ کے پنجرے میں قید کرنا یوں

 سمجھ یہ آ رہا ہے سارے شہر کو


بجھائے ہیں چراغ کتنے بے وجہ

بنایا مقبرہ پیارے شہر کو


یہاں کے تخت کا اٹھا کے فائدہ

کئے خسارے ہی خسارے شہر کو


سبھی ہیں محو اپنے آپ میں عمر

یہاں پہ کون اب نکھارے شہر کو


راتھر عمر


اشرف نرملی

 ترس جاتی ہیں آنکھیں جینا بھی دشوار ہوتاہے

بڑی مشکل سے اب تو چاند کا دیدار ہوتا ہے


نہ دولت میں سکونِ دل ہے نہ شہرت میں اے جاناں 

کہ تجھ کو دیکھ کر ہی دل گلِ گلزار ہوتا ہے


زباں سے اسکی سننے کے لیے بے چین ہوں کب سے

محبت کا مگر اس سے کہاں اظہار ہوتا ہے


مکمل کوئی ہوتا ہے ادھورا رہتا ہے کوئی

محبت میں کہاں ہر اک کا بیڑا پار ہوتا ہے


نگاہوں کو تو بھاتے ہیں کئی چہرے یہاں اشرف

مگر دل جس پہ آجائے اسی سے پیار ہوتا ہے


اشرف نرملی


افتخار عارف

 یوم پیدائش 21مارچ 1940


ہو کے دنیا میں بھی دنیا سے رہا اور طرف

دل کسی اور طرف ،دستِ دعا اور طرف


اک رجز خواں ہنر ِکاسہ و کشکول میں طاق

جب صفِ آرا ہوئے لشکر تو ملا اور طرف


اے بہ ہر لمحہ نئے وہم میں الجھے ہوئے شخص

میری محفل میں الجھتا ہے تو جا اور طرف


اہلِ تشہیر و تماشا کے طلسمات کی خیر

چل پڑے شہر کے سب شعلہ نوا اور طرف


کیا مسافر تھا سفر کرتا تھااِس بستی میں

اور لو دیتے تھے نقشِ کفِ پا اور طرف


شاخِ مژگاں سے جو ٹوٹا تھا ستارہ سرِ شام

رات آئی تو وہی پھول کھلا اور طرف


نرغۂ ظلم میں دکھ سہتی رہی خلقتِ شہر

اہلِ دنیا نے کیے جشن بپا اور طرف


افتخار عارف


طاہر مسعود

 یوم پیدائش 21 مارچ 1974


کوئی ہمدرد بن کر آ گیا ہے

ہوا جب حال ابتر آ گیا ہے


 ِمرے مدِ مقابل جنگ لڑنے 

ِمرا یارِ ستمگر آ گیا ہے


جو ان دیکھا تھا پڑھ کر دیکھنا ہے 

فسانے میں وہ منظر آ گیا ہے


ارے یارا ! نہیں تکلیف ، مت رو

یونہی بس ہاتھ دل پر آ گیا ہے


بنے گا کل مرا بازو ۔۔ کہ بیٹا

مرے قد کے برابر آ گیا ہے


پرانے درد اوڑھے تھا جو موسم

نئے کپڑے پہن کر آ گیا ہے


نہیں تھا نام میرا سرکشوں میں 

مگر حسبِ مقدر آ گیا ہے


مجھے جانا تھا لیکن جا نہ پایا 

اسے آنا نہ تھا ۔۔ پر آ گیا ہے 


تمہاری منتظر خوشیاں ہیں " طاہر" 

اب آنکھیں پونچھ لو گھر آ گیا ہے


" طاہر مسعود "


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...