Urdu Deccan

Thursday, April 1, 2021

اعظم شاہد

 یوم پیدائش 01 اپریل


اُس  سے بچھڑ  کے زیست  میں راحت نہیں رہی 

خود   اپنی   ذات  سے   بھی  محبت  نہیں  رہی 


میں   نے   سُنا    ہے   آج،    مرے   بعد    دوستو

اُس   بزم   میں   کسی   پہ   عنایت  نہیں   رہی


چھوڑا  ہے  جب  سے تتلیوں کے  پیچھے  بھاگنا 

دن  بھر  چمن  میں  رہنے  کی عادت  نہیں  رہی 


وہ   پیار   یاد  کر   کے   بہت  رو   رہے  ہیں  ہم 

اب  کے  ہمارے  سر   پہ  وہ  شفقت  نہیں  رہی 


بِکنے   لگا   هے   کوڑیوں   کے    بھاؤ   ہر   جگہ 

انسان    کی   جہان    میں   قیمت   نہیں   رہی 


بہتا   هے  بے  گناہوں  کا  کیوں خون  شہر  میں 

قاضی    نہیں    رہا    کہ   عدالت    نہیں    رہی 


غم    ہائے  روز  گار   میں  اعظم   کو   کیا   ہوا 

خود  کو بھی یاد  رکھنے کی فُرصت نہیں  رہی


                                  اعظم شاھد


Wednesday, March 31, 2021

آغا حاشر کشمیری


 یوم پیدائش 01 اپریل 1879


سوئے مے کدہ نہ جاتے تو کچھ اور بات ہوتی

وہ نگاہ سے پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی


گو ہوائے گلستاں نے مرے دل کی لاج رکھ لی

وہ نقاب خود اٹھاتے تو کچھ اور بات ہوتی


یہ بجا کلی نے کھل کر کیا گلستاں معطر

اگر آپ مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی


یہ کھلے کھلے سے گیسو انہیں لاکھ تو سنوارے

مرے ہاتھ سے سنورتے تو کچھ اور بات ہوتی


گو حرم کے راستے سے وہ پہنچ گئے خدا تک

تری رہ گزر سے جاتے تو کچھ اور بات ہوتی



آغا حشر کاشمیری

مسعود بیگ تشنہ

 یوم پیدائش 01 اپریل 1954 


جب اسے راستہ دکھائی نہ دے

آنکھ والے کی رہنمائی نہ دے


چھین لے مجھ سے چاہے سب دولت

مفت میں ایسی جگ ہنسائی نہ دے


میں بھلا، اپنی خصلتوں میں بھلا

مجھ کو بے داغ پارسائی نہ دے


بے سکوں ہے یہ نامراد ابھی 

درد سے گہری آشنائی نہ دے


ٹانگا ڈولی جو کر کے لے جائیں

ٹوٹی پھوٹی وہ چار پائی نہ دے


تو ہی کافی ہے اور یہ فرعون! 

میرے مولا مجھے خدائی نہ دے


میری دنیا ہے چھوٹی سی "تشنہ" 

دعوتِ جشنِ اجتماعی نہ دے 


مسعود بیگ تشنہ


سعدیہ بشیر

 یوم پیدائش 01 اپریل


اک ادائے خوش نما زنجیر کیسے ہو گئی ؟

روشنی کی زلف یوں دل گیر کیسے ہو گئی ؟


میرے اللہ! تجھ کو مجھ پہ پیار کتنا آ گیا 

اک ذرا سی آہ میـں تاثیر کیسے ہو گئی ؟


تیرے دل کے چور مجھ پہ سارے کیسے کُھل گئے 

ہائے ! نادانی مِری تقصیر کیسے ہو گئی ؟


سارے وعدے ایسے کیسے پانیوں پہ بَہہ گئے 

چاہِ یوسُف کی صدا تحریر کیسے ہو گئی ؟


دل سمَجھنے سے ہے قاصِر' اک جدائی کی خبر 

مسئَلہ کیوں بن گئی ؟ گمبھیر کیسے ہو گئی ؟


وقت کی اک چال سے سب برملا کہنے لگے 

بے صدا لاٹھی تھی جو' وہ تیر کیسے ہو گئی ؟


سعدیہؔ بشـیر 


مظفر حنفی

 یوم پیدائش 01 اپریل 1936


یوں توڑ نہ مدت کی شناسائی ادھر آ

آ جا مری روٹھی ہوئی تنہائی ادھر آ


مجھ کو بھی یہ لمحوں کا سفر چاٹ رہا ہے

مل بانٹ کے رو لیں اے مرے بھائی ادھر آ


اے سیل روان ابدی زندگی نامی

میں کون سا پابند ہوں ہرجائی ادھر آ


اس نکہت و رعنائی سے کھائے ہیں کئی زخم

اے تو کہ نہیں نکہت و رعنائی ادھر آ


اعصاب کھنچے جاتے ہیں اب شام و سحر میں

ہونے ہی کو ہے معرکہ آرائی ادھر آ


سنتا ہوں کہ تجھ کو بھی زمانے سے گلہ ہے

مجھ کو بھی یہ دنیا نہیں راس آئی ادھر آ


میں راہ نماؤں میں نہیں مان مری بات

میں بھی ہوں اسی دشت کا سودائی ادھر آ


مظفر حنفی


ساحل منیر

 خودخدا محبت ہے


گھر کے سُونے آنگن میں

رونقیں محبت سے

دِل کی ویراں بستی میں

راحتیں محبت سے

بزمِ کیف و مستی کی

شدتیں محبت سے

تیرے میرے جذبوں کی

حِدتیں محبت سے

مامتا کے ہونٹوں پر

اِک دعا محبت ہے

باپ کے بڑھاپے کا 

آسرا محبت ہے

ظلمتوں کی بستی میں

اِک دِیا محبت ہے

زہر کے پیالے کا

فلسفہ محبت ہے

سُولیوں پہ چڑھنے کا

سِلسلہ محبت ہے

سجدہ گاہِ مقتل کی

ہر دُعا محبت ہے

رزمِ حق و باطل میں 

کربلاؔ محبت ہے

مُنکرِ محبت سُن!

خود خُدا محبت ہے



ساحل منیر

احمد صدیقی


 یوم پیدائش 31 مارچ 1993


اس جیسا یہاں کوئی بھی فن کار نہیں ہے

قاتل ہے مگر ہاتھ میں تلوار نہیں ہے


اٹھوں گا مگر صبح تو ہونے دے مؤذن

سونے کے لئے نیند بھی درکار نہیں ہے


یوں ہے کہ فقط دیکھ کے ہوتی ہے تسلی

معمولی کوئی نقش یا دیوار نہیں ہے


درد دل مجروح کوئی سمجھے تو کیسے

اس شہر میں مجھ سا کوئی بیمار نہیں ہے


ہاتھوں میں لئے ہاتھ گزرتے رہے ہم دو

پھر جا کے ہوا علم مجھے پیار نہیں ہے


تصویر تری آنکھ ملاتی رہی دن بھر

پر ہاتھ ملانے کو یہ تیار نہیں ہے


احمد صدیقی

Tuesday, March 30, 2021

افتخار راغب

 یوم پیدائش 31 مارچ 1973


انکار ہی کر دیجیے اقرار نہیں تو

الجھن ہی میں مر جائے گا بیمار نہیں تو


لگتا ہے کہ پنجرے میں ہوں دنیا میں نہیں ہوں

دو روز سے دیکھا کوئی اخبار نہیں تو


دنیا ہمیں نابود ہی کر ڈالے گی اک دن

ہم ہوں گے اگر اب بھی خبردار نہیں تو


کچھ تو رہے اسلاف کی تہذیب کی خوشبو

ٹوپی ہی لگا لیجیے دستار نہیں تو


ہم برسر پیکار ستم گر سے ہمیشہ

رکھتے ہیں قلم ہاتھ میں تلوار نہیں تو


بھائی کو ہے بھائی پہ بھروسہ تو بھلا ہے

آنگن میں بھی اٹھ جائے گی دیوار نہیں تو


بے سود ہر اک قول ہر اک شعر ہے راغبؔ

گر اس کے موافق ترا کردار نہیں تو


افتخار راغب


احمد شمیم

 یوم پیدائش 31 مارچ 1930


ابھی رنج سفر کی ابتدا ہے

ابھی سے جی بہت گھبرا رہا ہے


دئے بجھنے لگے ہیں طاقچوں میں

ہر اک شے پر اندھیرا چھا رہا ہے


ہوا شاخوں میں چھپ کر رو رہی ہے

نہ جانے کیسا موسم آ رہا ہے


ٹھٹھرتی رت میں زخمی انگلیوں سے

ہمیں دریا میں سونا ڈھونڈھنا ہے


اسی امید پر بن باس کاٹیں

ہمیں بھی ایک دن گھر لوٹنا ہے


بہت چاہوں کہ میں بھی ہاتھ اٹھاؤں

مرے ہونٹوں پہ لیکن بد دعا ہے


احمد شمیم


Monday, March 29, 2021

انجم عثمان

 یوم پیدائش 29 مارچ


پس یقیں کہیں ہم بھی ترے گمان میں ہیں

ترا نشاں ہیں یہ تارے جو آسمان میں ہیں


حرم سرا تھا ترا دل سو چھوڑ آئے اسے

وگرنہ کہنے کو اب بھی اسی مکان میں ہیں


مرے نصیب کے خوش رنگ خواب اور سراب

نہ اس جہان میں تھے اور نہ اس جہان میں ہیں


میں اپنے واسطے ان میں سے خود ہی چن لوں گی

وہ سانحے جو میسر تری دکان میں ہیں


سراب ہیں یہ تمہارے سب آئنہ خانے

بصارتیں بھی نہ جانے کس امتحان میں ہیں


کبھی وہ آئنہ چشم میں سنورتے تھے

وہ سارے خواب نصابوں کے جو بیان میں ہیں


نہ جانے لائیں گے دل پر تباہیاں کیا کیا

وہ حادثے جو ابھی تک تری کمان میں ہیں


یہ پل صراط کہاں لے چلا ہمیں انجمؔ

نہ ہم زمیں کے رہے اور نہ آسمان میں ہیں


انجم عثمان


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...