تابِ نظر کہ سانسوں کا ارتعاش دیکھوں
کیسے حسین پیکر کی میں تراش دیکھوں
عادت بری مگر یہ عادت ہے میری اپنی
پہلو کسی بھی منظر کا دلخراش دیکھوں
موجود ہر طرف ہر ہر جگہ ہے تو ہی تو
کیونکر بتا میں اوروں کے بود و باش دیکھوں
ہے کیا عجب تماشا بتلا اے رہبرِ جاں
فرقت میں اور کتنے دل پاش پاش دیکھوں
کردے قریب منزل یا پھر تو رہبری کر
بے سمت راستوں کی کب تک تلاش دیکھوں
سب کاروبار ہیں الٹے دھندے ہیں سارے چوپٹ
مسند نشین کو میں دستِ فراش دیکھوں
اسرار گرچہ ایسا ممکن نہیں ہے لیکن
کہتی ہے حسرتِ دل جلوہ اے کاش دیکھوں
علیم اسرار