Urdu Deccan

Wednesday, April 14, 2021

علیم اسرار

 تابِ نظر کہ سانسوں کا ارتعاش دیکھوں 

کیسے حسین پیکر کی میں تراش دیکھوں 


عادت بری مگر یہ عادت ہے میری اپنی

پہلو کسی بھی منظر کا دلخراش دیکھوں


موجود ہر طرف ہر ہر جگہ ہے تو ہی تو

کیونکر بتا میں اوروں کے بود و باش دیکھوں 


ہے کیا عجب تماشا بتلا اے رہبرِ جاں 

فرقت میں اور کتنے دل پاش پاش دیکھوں 


کردے قریب منزل یا پھر تو رہبری کر 

بے سمت راستوں کی کب تک تلاش دیکھوں 


سب کاروبار ہیں الٹے دھندے ہیں سارے چوپٹ

مسند نشین کو میں دستِ فراش دیکھوں 


اسرار گرچہ ایسا ممکن نہیں ہے لیکن 

کہتی ہے حسرتِ دل جلوہ اے کاش دیکھوں 


علیم اسرار


طاہر

 زندگی نے جب آکر ، کچھ سوال رکھے تھے

ہم نے اپنے لفظوں پر فتوے ڈال رکھے تھے


رابطے محبت میں ، وصل کے تناسب سے

اُس نے میرے حصے میں ، خال خال رکھے تھے


اس سفر کی راہوں میں ، سسکیاں ہیں آہیں ہیں

ہم نے اُن کے آگے یہ ، سب ملال رکھے تھے


ضابطے بھی کیسے اُس ، لازوال بندھن نے

باکمال رکھے تھے ، بے مثال رکھے تھے


ڈس رہے ہیں گر ہم کو ، اِس میں کیا تعجب ہے

ہم نے آستینوں میں ، سانپ پال رکھے تھے


چاہتوں کے سب تحفے ، ہم نے ساتھ میں طاھر

خوش جمال رکھے تھے ،خوش خیال رکھے تھے


طاھر


کشمیری لال ذاکر

 یوم پیدائش 07 اپریل 1919


یہ اور بات کہ آگے ہوا کے رکھے ہیں

چراغ رکھے ہیں جتنے جلا کے رکھے ہیں


نظر اٹھا کے انہیں ایک بار دیکھ تو لو

ستارے پلکوں پہ ہم نے سجا کے رکھے ہیں


کریں گے آج کی شب کیا یہ سوچنا ہوگا

تمام کام تو کل پر اٹھا کے رکھے ہیں


کسی بھی شخص کو اب ایک نام یاد نہیں

وہ نام سب نے جو مل کر خدا کے رکھے ہیں


انہیں فسانے کہو دل کی داستانیں کہو

یہ آئینے ہیں جو کب سے سجا کے رکھے ہیں


خلوص درد محبت وفا رواداری

یہ نام ہم نے کسی آشنا کے رکھے ہیں


تمہارے در کے سوالی بنیں تو کیسے بنیں

تمہارے در پہ تو کانٹے انا کے رکھے ہیں


کشمیری لال ذاکر


فیصل عجمی

 یوم پیدائش 07 اپریل 1951


تیری آنکھیں نہ رہیں آئینہ خانہ مرے دوست

کتنی تیزی سے بدلتا ہے زمانہ مرے دوست


جانے کس کام میں مصروف رہا برسوں تک

یاد آیا ہی نہیں تجھ کو بھلانا مرے دوست


پوچھنا مت کہ یہ کیا حال بنا رکھا ہے

آئینہ بن کے مرا دل نہ دکھانا مرے دوست


اس ملاقات میں جو غیر ضروری ہو جائے

یاد رہتا ہے کسے ہاتھ ملانا مرے دوست


دیکھنا مجھ کو مگر میری پذیرائی کو

اپنی آنکھوں میں ستارے نہ سجانا مرے دوست


اب وہ تتلی ہے نہ وہ عمر تعاقب والی

میں نہ کہتا تھا بہت دور نہ جانا مرے دوست


ہجر تقدیر میں لکھا تھا کہ مجبوری تھی

چھوڑ اس بات سے کیا ملنا ملانا مرے دوست


تو نے احسان کیا اپنا بنا کر مجھ کو

ورنہ میں کیا تھا حقیقت نہ فسانہ مرے دوست


اس کہانی میں کسے کون کہاں چھوڑ گیا

یاد آ جائے تو مجھ کو بھی بتانا مرے دوست


چھوڑ آیا ہوں ہواؤں کی نگہبانی میں

وہ سمندر وہ جزیرہ وہ خزانہ مرے دوست


ایسے رستوں پہ جو آپس میں کہیں ملتے ہوں

کیوں نہ اس موڑ سے ہو جائیں روانہ مرے دوست


فیصل عجمی


ریاض حازم

 بے وفائی تری مہارت ہے

تیرے کردار پر ندامت ہے


بد گماں رکھتا ہے مجھے یوں ہی

یہ ترا پیار یار لعنت ہے


اب محبت اسے نہیں ملتی

دیکھتا ہے مجھے یہ نوبت ہے


بس محبت مری برائی ہے

لوگ سمجھے نہیں عبادت ہے


سوچتا ہوں نہیں کٹے گا کبھی

زندگی کا سفر مصیبت ہے


میرا کچھ بھی رہا نہیں تم بھی

جا رہے ہو تمہیں اجازت ہے


راستہ اب بچا نہیں کوئی

بے وفا موت میری قسمت ہے


جان کیوں چھوڑتا نہیں حازم

عشق کو تجھ سے اب تو وحشت ہے


ریاض حازم


کوکی گل

 سجا کر بزم میں لائی گئی ہوں

یہاں ضد کرکے بلوائی گئی ہوں


ادھر کچھ بھی نہ بولوں گی یہ طے ہے

بطور_ خاص سمجھائی گئی ہوں


کسی در پر بھی چاہت سے گئی جب

اسی در سے میں ٹھکرائی گئی ہوں


خطا جب بھی ہوئی ہے کوئی مجھ سے

پکڑ کر کان سے لائی گئی ہوں


محبت کے تپے صحرا کی جانب 

میں ننگے پاوں، چلوائی گئی ہوں


محبت کا ہوں، اک پر کیف نغمہ

میں ہر محفل میں گل! گائی گئی ہوں


 کوکی گل


قمر شاہدی

 غنچۂ دل مرے جب جب کہ چٹک جاتے ہیں

آپ کی عطر مجسم سے مہک جاتے ہیں


کون آتا ہے علی الصبح دریچے پہ مرے

کس لئے باغ مرے دل کے مہک جاتے ہیں


منفرد کچھ تو ہے جی عشق میں جلنے کا مزہ

شمع جلتی ہے کہ پروانے لپک جاتے ہیں


دل جلانا نہ کہیں آپ کو کردے رسوا

کچھ دھوویں اٹھتے ہیں اور سوئے فلک جاتے ہیں


رستم و دارا کے کہتے ہیں جو ٹکر کے خودی

سب سے پہلے وہی دربے میں دبک جاتے ہیں


لب کشائی کی کبھی مجھ کو بھی دیجئے مہلت

آپ تو دل کی مرے بات اچک جاتے ہیں


آیت الکرسی جو رکھ لیتا ہوں میں ذاد سفر

حادثے راہوں کے پہلے ہی کھٹک جاتے ہیں


خم قمر یونہی نہیں ہوتی کسی کی بھی کمر

برگ اور بار سے ہر پیڑ لچک جاتے ہیں


قمر شاھدی 


جگر مرادآبادی

 یوم پیدائش 06 اپریل 1890


وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ

جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ


یہ ترا جمال کامل یہ شباب کا زمانہ

دل دشمناں سلامت دل دوستاں نشانہ


کبھی حسن کی طبیعت نہ بدل سکا زمانہ

وہی ناز بے نیازی وہی شان خسروانہ


میں ہوں اس مقام پر اب کہ فراق و وصل کیسے

مرا عشق بھی کہانی ترا حسن بھی فسانہ


مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے

مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ


ترے عشق کی کرامت یہ اگر نہیں تو کیا ہے

کبھی بے ادب نہ گزرا مرے پاس سے زمانہ


تری دوری و حضوری کا یہ ہے عجیب عالم

ابھی زندگی حقیقت ابھی زندگی فسانہ


مرے ہم صفیر بلبل مرا تیرا ساتھ ہی کیا

میں ضمیر دشت و دریا تو اسیر آشیانہ


میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں جو ہے فرق مجھ میں تجھ میں

ترا درد درد تنہا مرا غم غم زمانہ


ترے دل کے ٹوٹنے پر ہے کسی کو ناز کیا کیا

تجھے اے جگرؔ مبارک یہ شکست فاتحانہ


جگر مراد آبادی


Sunday, April 4, 2021

سلمان اریب

 یوم پیدائش 05 اپریل 1922


میرا سایہ ہے مرے ساتھ جہاں جاؤں میں

بے بسی تو ہی بتا خود کو کہاں پاؤں میں


بے گھری مجھ سے پتہ پوچھ رہی ہے میرا

در بدر پوچھتا پھرتا ہوں کہاں جاؤں میں


زخم کی بات بھی ہوتی تو کوئی بات نہ تھی

دل نہیں پھول کہ ہر شخص کو دکھلاؤں میں


زندگی کون سے ناکردہ گنہ کی ہے سزا

خود نہیں جانتا کیا اوروں کو بتلاؤں میں


ایک حمام میں تبدیل ہوئی ہے دنیا

سب ہی ننگے ہیں کسے دیکھ کے شرماؤں میں


سلیمان اریب


Saturday, April 3, 2021

قمر محمد آبادی

 یوم پیدائش 04 اپریل 1988


مجھ پر جو والدین کی شفقت ہے روزوشب

گھر میرا میرے واسطے   جنت ہے روزوشب


ہوں خوش نصیب ہوتی زیارت ہے روزوشب

دل کو سکوں  نظر کی طہارت ہے روزوشب


کس طرح میری ہستی بھلا کھائے گی فریب 

حاصل جو ان کی مجھکو حمایت ہے روزوشب


ہرآن میرے دل کی حویلی میں ہیں مکین 

دل میرا جیسے محوِ عبادت ہے روزوشب


ان کی محبتوں کے، دعاؤں کے ہی طفیل 

دل مطمئن شگفتہ طبیعت ہے روزوشب


مجھ پر ہے سایہ ان کا تو پھر کیسے میں کہوں

"ہرسانس  مبتلائے  مصیبت  ہے روزوشب" 


میں دیکھتا ہوں ان کو عقیدت سے اے قمر 

حج کا ثواب اور تلاوت ہے روزوشب

قمر محمد آبادی 


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...