Urdu Deccan

Monday, May 24, 2021

گل جہاں

 یوم پیدائش 15 مئی 1983


کل صبج دیا رکھ دیا یوں میں نے افق پر

جلتا تھا جو سورج کی طرح بامِ فلک پر


کر دیتی ہے موجودگی تنہائی پہ افشاء

آتا ہے بہت غصہ مجھے اپنی مہٙک پر


تجھ رنگ سے واقف جو نہ ہوتی مری آنکھیں

انگشت بدندان میں ہو جاتا دھنک پر


تارا ہوں غلط برج کا کیا میرا مقدر

مٙیں ٹک نہیں پاتا کسی ابجد میں ، ورٙق پر


شاید کہ نکل آئیں محبت کے معانی

اک نظم اگر لکھوں میں عورت کی جھجھک پر


لا پاتا نہیں روح تلک کھینچ کے خود کو

گھس جاتا ہے یہ سارا بدن اندھی سڑک پر


گلیوں میں اندھیرے کا رہا گشت مسلسل

پر اپنا عقیدہ رہا جگنو کی چمک پر


تو سارے کا سارا تو مجھے ہضم نہ ہو گا

بھاری ہیں فقط آنکھیں مرے چودہ طبق پر


کیوں اِس سے ہر اک ذائقہ یہ زہر کی رد کیوں؟

پہنچے ہی نہیں فلسفی گل رازِ نمک پر


گل جہاں


خورشید احمد جامی

 یوم پیدائش 15 مئی 1915


کوئی ہلچل ہے نہ آہٹ نہ صدا ہے کوئی

دل کی دہلیز پہ چپ چاپ کھڑا ہے کوئی


ایک اک کر کے ابھرتی ہیں کئی تصویریں

سر جھکائے ہوئے کچھ سوچ رہا ہے کوئی


غم کی وادی ہے نہ یادوں کا سلگتا جنگل

ہائے ایسے میں کہاں چھوڑ گیا ہے کوئی


یاد ماضی کی پراسرار حسیں گلیوں میں

میرے ہم راہ ابھی گھوم رہا ہے کوئی


جب بھی دیکھا ہے کسی پیار کا آنسو جامیؔ

میں نے جانا مرے نزدیک ہوا ہے کوئی


خورشید احمد جامی


رنجور عظیم آبادی

 یوم پیدائش 15 مئی 1863


جنازہ دھوم سے اس عاشق جانباز کا نکلے

تماشے کو عجب کیا وہ بت دمباز آ نکلے


اگر دیوانہ تیرا جانب کہسار جا نکلے

قبور وامق و مجنوں سے شور مرحبا نکلے


ابھی طفلی ہی میں وہ بت نمونہ ہے قیامت کا

جوانی میں نہیں معلوم کیا نام خدا نکلے


کہاں وہ سرد مہری تھی کہاں یہ گرم جوشی ہے

عجب کیا اس کرم میں بھی کوئی طرز جفا نکلے


مرا افسانہ ہے مجذوب کی بڑ گر کوئی ڈھونڈے

نہ ظاہر ہو خبر اس کی نہ اس کا مبتدا نکلے


وہ میرے لاشے پر بولے نظر یوں پھیر کر مجھ سے

چلے حوروں سے تم ملنے نہایت بے وفا نکلے


ہمارا دل ہماری آنکھ دونوں ان کے مسکن ہیں

کبھی اس گھر میں جا دھمکے کبھی اس گھر میں آ نکلے


پڑا کس کشمکش میں یار کے گھر رات میں جا کر

نہ اٹھ کر مدعی جائے نہ میرا مدعا نکلے


تڑپتا ہوں بجھا دے پیاس میری آب خنجر سے

کہ میرے دل سے اے قاتل ترے حق میں دعا نکلے


دکھا کر زہر کی شیشی کہا رنجورؔ سے اس نے

عجب کیا تیری بیماری کی یہ حکمی دوا نکلے


رنجور عظیم آبادی


زہرا نگاہ

 یوم پیدائش 14 مئی 1937


نقش کی طرح ابھرنا بھی تمہی سے سیکھا

رفتہ رفتہ نظر آنا بھی تمہی سے سیکھا


تم سے حاصل ہوا اک گہرے سمندر کا سکوت

اور ہر موج سے لڑنا بھی تمہی سے سیکھا


اچھے شعروں کی پرکھ تم نے ہی سکھلائی مجھے

اپنے انداز سے کہنا بھی تمہی سے سیکھا


تم نے سمجھائے مری سوچ کو آداب ادب

لفظ و معنی سے الجھنا بھی تمہی سے سیکھا


رشتۂ ناز کو جانا بھی تو تم سے جانا

جامۂ فخر پہننا بھی تمہی سے سیکھا


چھوٹی سی بات پہ خوش ہونا مجھے آتا تھا

پر بڑی بات پہ چپ رہنا بھی تمہی سے سیکھا


زہرا نگاہ


یاور حبیب ڈار

 دعا

تُو شاہِ جہاں خالقِ دو جہاں ہے

ترا بول بالا تُو کون و مکاں ہے


تری عظمتیں،رفعتیں،حاجتیں ہوں

گنہ در گُزر ہوں عطا رحمتیں ہوں


تُو شاہِ نشیں ہے تُو آقا ہے میرا

کروں دو جہاں بول بالا میں تیرا


ریاکار اور ہیں گنہ گار بندے

مگر ٹھہرے تیرے وفا دار بندے


کرم کی نظر ہو، دعا ہے ہماری

ہمیں پے عطا ہو کہ رحمت تمہاری


جگر چاک سینا کشادہ نہیں ہے

پلٹ جانے کا اب اِرادہ نہیں ہے


عطا رحمتوں، برکتوں کے جوازے

خدا اپنی رحمت سے سب کو نوازے


مصیبت ہیں تیرے یہ خوشیاں ہیں تیری

زمانے ہیں تیرے تو صدیاں ہیں تیری


یہ فریاد یاور کی سن لے خدایا

مجھے پاسِ الفت و رضا دے خدایا


یاور حبیب ڈار


خالد ندیم بدایونی

 اہلِ جہاں حریف ہمارے ہوئے تو کیا

ہم بھی ہیں آج وقت کے مارے ہوئے تو کیا


محراب و در کو پھر بھی اُجالے نہیں نصیب

آنگن میں میرے چاند ستارے ہوئے تو کیا


دل جب ہمارا خانۂ ویران ہو گیا

اُس وقت پورے خواب ہمارے ہوئے تو کیا


اب دید کی طلب ہے نہ ملنے کی آرزو

اُن کی طرف سے لاکھ اِشارے ہوئے تو کیا


پھولوں میں دِلکشی ہے نہ کلیوں پہ ہے نکھار

رنگین گلستاں کے نظارے ہوئے تو کیا


تابندگی نگاہ کی جب مر کے رہ گئ

اب آئیں وہ نقاب اُتارے ہوئے تو کیا


ہارا نہیں ہوں اب بھی محبّت کی جنگ میں

راہِ وفا میں مجھ کو خسارے ہوئے تو کیا


ساحل پہ لے کے جائے گا 'خالد' تمہارا عزم

دریا کے دور تم سے کنارے ہوئے تو کیا



خالد ندیم بدایونی

Thursday, May 13, 2021

انس مسرورانصاری

 شہر کی بھیڑ میں خود کو کبھی تنہا کرنا

اپنے ہونے کا نہ ہونےکا تماشا کرنا


میں بھی دیکھوں تری آنکھوں کی فسوں اندازی

اک ذرا میری طرف بھی رخ زیبا کرنا


کشتیء عمررواں حلقہء گرداب میں ہے

حوصلہ پھر بھی ہےموجوں کو کنارا کرنا


یہ اجالے تو سبب ہیں مری رسوائی کا

روشنی آنکھ میں چبھتی ہے، اندھرا کرنا


میرے خوابوں کو سلیقے سے ہنر آتا ہے

رنگ تصویر کا تصویر سے گہرا کرنا


فرصت یک نفس جاں بھی نہیں ہے مسرور

پھربھی آتا ہے ہمیں قطرے کو دریا کرنا


انس مسرورانصاری


Wednesday, May 12, 2021

شہباز انصاری

 یوم پیدائش 13 مئی 1961


نیند اب آتی ہے کیوں تاخیر سے

خُواب خالی رہ گیا تعبیر سے


رہزنوں نے رہبروں کےبھیس میں

پُوچھیئے مت کیا کِیا شمشیر سے


خُود بناتے ہو مِٹاتے ہوکبھی

کھیلتے ہو کیوں مِری تقدیر سے


گُمشدہ لوگوں کے وُرثاء کی فُغاں

رُک نہیں سکتی کِسی تعزیر سے


فیصلوں میں کچھ سُقم تو ہے کہیں

ڈر گیا قاضی مِری تحریر سے


آج بھی ہر شہر کا ہر اِک یزید

کانپتاہے نعرہِؑ تکبیر سے


باندھ سکتا ہے مسافر کِس طرح

اپنے پاوؑں وقت کی زنجیر سے


جب بھی دیکھوں میں تیری تصویر کو

جھانکتے رہتے ہو تم تصویر سے


کیا ہوا شہباز اب کیوں گھر کی راہ

پُوچھتے پِھرتے ہو ہر رہگیر سے


شہباز انصاری


خواجہ عزیز الحسن مجذوب

 جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے


جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے

مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے

کبھی غور سے بھی دیکھا ہے تو نے

جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سُونے


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے


ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے

مکیں ہو گٔیٔے لا مکاں کیسے کیسے

ھؤے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے

زمیں کھا گٔیٔ آسماں کیسے کیسے


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے


اجل نے نہ کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا

اسی سے سکندرسا فاتح بھی ہارا

ہر ایک چھوڑ کے کیاکیا حسرت سدھارا

پڑا رہ گیا سب یہیں ٹھاٹ سارا


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے


تجھے پہلے بچپن میں برسوں کھلایا

جوانی نے پھر تجھ کو مجنوں بنایا

بڑھاپے نے پھر آ کے کیا کیا ستایا

اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے


یہی تجھ کو دھُن ہے رہُوں سب سے بالا

ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا

جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا؟

تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا


کؤی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی؟

جنون چھوڑ کر اب ہوش میں آ بھی

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے​


خواجہ عزیز الحسن مجذوب


نور الدین نور غوری

 یوم پیدائش 12 مئی 1954


اس طرح مصروف گر دست قضا رہ جائے گا

دیکھنا اک دن زمیں پر بس خدا رہ جائے گا


قید خانے میں بدلتی جا رہی ہے یہ زمیں

کیا یوں ہی یہ آسماں بس دیکھتا رہ جائے گا


خوف کی آندھی بجھا دے گی امیدوں کے دیئے

سوچتا ہوں قصر دل میں اور کیا رہ جائے گا


میرے اپنے ہی کریں گے یوں اگر طعنہ زنی

عمر بھر ہر زخم دل یوں ہی ہرا رہ جائے گا


خواب بن جائیں گی ساری محفلیں سب رونقیں

صرف کورونا کا ہر سو نقش پا رہ جائے گا


خاک میں مل جائے گی جب حوصلوں کی کہکشاں

بے بسی کا ٹمٹماتا بس دیا رہ جائے گا


نور ایسے موڑ پر لے آئی ہے اب زندگی

ہر کوئی اس موڑ پر تنہا کھڑا رہ جائے گا


نور الدین نور غوری


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...