Urdu Deccan

Tuesday, June 1, 2021

محمد عارف

 دِل کے آئینے میں جو بھی تصویر تھی مُو قلم کا مُصّوِر کے تھا بانکپن

آنکھ کی پُتلیوں میں تھرکتے ہُوئے نوجواں لڑکیوں کے سُنہرے بدن


کوئی دوشیزہ تھی بال کھولے ہُوئے ساحلِ بِحر پر چاندی رات میں

جیسے کُہرے کی چادر میں لِپٹی ہُوئی کَسمُساتی ہُوئی چاندنی کی کِرَن


خواہِشوں کے جزیروں میں بھٹکے ہُوۓ جسقدر جِسم تھے وہ ہم آغوش تھے

اپنے عِشرتکدوں کی جواں رات میں قُرب کے بیکراں نشے میں تھے مگن


سُرخ جوڑوں میں لِپٹی ہُوئی لڑکیاں جِن کے چہروں پہ تھی ایک وحشت عیاں 

اِسلئے کیُونکہ اُنکے مجازی خُدا باندھ کر چلدئیے تھے سَروں سے کفن


اِک سُلگتی ہُوئی شمع کے قُرب میں کُچھ پتنگے جلے تھے جہاں راکھ تھی

راکھ کیا تھی سُلگتی ہُوئی آگ تھی پُھونک کر رکھ دیے مَخملیِں پیرہَن


شِدّتِ جذبِ اُلفت سے خاموش تھے کِتنے تھے بِن پیے ہی جو مدہوش تھے

روشنی کے سمُندر میں ڈُوبے ہُوئے خُوشبؤں میں نہائے ہُوئے مَرد و زَن


محمد عارف


شمشاد شاد

 امن کیسے ہوا اس دیش کا غارت لکھنا

اے مؤرخ تو سبب اس کا سیاست لکھنا


جھوٹ کیسے چڑھا پروان اگر لکھو گے

تو بلا خوف صحافت کی بدولت لکھنا


مت غریبوں کے مسائل پہ چلا اپنا قلم

پر امیروں کے قصیدے تو کبھی مت لکھنا


اک جہالت ہی سبب ہے مری بد حالی کا

یہ حقیقت ہے تو پھر کیوں نہ حقیقت لکھنا


اب کے نسخہ جو لکھو تو اے طبیبو اس پر

کیوں سدھرتی نہیں بیماروں کی حالت لکھنا


اس کو تخلیق کیا رب نے محبت کے لئے

دل پہ پھر کس لئے نفرت کی عبارت لکھنا


لکھتا ہوں لکھ کے مٹا دیتا ہوں پھر لکھتا ہوں

شاید آتا ہی نہیں مجھ کو شکایت لکھنا


میری بربادی کا افسانہ جو تحریر کرو

صاف لفظوں میں وجہ اسکی محبت لکھنا


شاد بک جائے جو آسانی سے منہ مانگے دام

کس لئے مال پہ پھر مال کی قیمت لکھنا


شمشاد شاد


طارق مسعود

 یوم پیدائش 31 مئی 2002


اک ترک رشتہ ہم سے نبھایا گیا ہے یار 

یعنی دیا لہو سے جلایا گیا ہے یار 


اترے نہیں ہیں یونہی درختوں پہ میٹھے پھل

پتھر کو سہنا پہلے سکھایا گیا ہے یار 


دکھ یہ ہے بزمِ اہلِ وفا میں بطورِ جج 

اک شخصِ بے وفا کو بلایا گیا ہے یار 


ایسا نہیں ہے لہجہ تھا پہلے سے پر اثر

اردو زبان سے یہ کمایا گیا ہے یار 


طارق مسعود 


ذوالفقار علی ذلفی

 کب ہُوا احساس اُس کو کچھ بھی میرے پیار کا

مجھ سے ہے اب تک رویہ غیر جیسا یار کا


تھی مجھے امید اُس سے تو وفاٶں کی مگر

وہ بھی جانبدار نِکلا راہ کی دیوار کا


بعد اُس کے نیند بھی آنکھوں سے رُوٹھی ہی رہی

دل نشانہ یوں ہُوا ہے اِک نظر کے وار کا


لگ گئی ہے اُس کو بھی شاید زمانے کی ہوا

بدلا بدلا ہے جو لہجہ آج کل دِلدار کا


اُس سے کہنا اب خدارا ضِد کو اپنی چھوڑ دے

درد حد سے بڑھ گیا ہے ہجر کے بیمار کا


پڑھ کے میری اِک غزل اُس کو یہ کہنا ہی پڑا

ذائقہ سب سے الگ ہے آپ کے اشعار کا


جاتے جاتے اُس نے ذُلفی درس مجھ کو یہ دیا

پھر بھروسا بھی نہ کرنا یوں کِسی کے پیار کا


ذوالفقار علی ذُلفی


ایس ڈی عابد

 شعر کہنا کہاں سہل ٹھہرا 

تیری زلفوں کا ایک بل ٹھہرا 


عمر بھر سر جسے نہ کر پایا 

تُو محبت کا وہ جبل ٹھہرا


تیرے دل میں مری محبت ہے 

یہ مرے ذہن کا خلل ٹھہرا 


تیرے پاؤں میں ہے بھنور شاید 

آج ٹھہرا ہے تُو نہ کل ٹھہرا 


میرا جانا اشد ضروری ہے 

تیرا اصرار ہے تو چل ٹھہرا 


دور ہو جائیں ہم سدا کیلئے

اپنی رنجش کا کیسا حل ٹھہرا  


اب نہ تجدیدِ دوستی ہو گی

فیصلہ یہ ترا اٹل ٹھہرا 


میں نے تبدیل کر کے دیکھا ہے

درد ہی درد کا بدل ٹھہرا 


میرے اشکوں کی قدر کون کرے 

مسکرانا ترا غزل ٹھہرا


آ گیا ہے تُو لوٹ کر عابدؔ

یہ مرے صبر کا ہی ۔۔ پھل ٹھہرا 


ایس،ڈی،عابدؔ


عجیب ساجد

 بِن تیرے دل میں اب کوئی آباد تک نہیں 

میرے لبوں پہ بھی کوئی فریاد تک نہیں


پوچھا ہے آج مجھ سے کسی نےجو تیرا نام 

حیرت کی بات ہے کہ مجھے یاد تک نہیں


بنیاد ایک کفر کا فتوٰی ہمارا فن

اپنے تو پاس اور کوئی ایجاد تک نہیں 


اِعلان کر رہا ہے کوئی زور و شُور سے 

اب مر رہےہیں لوگ اور اِمداد تک نہیں 

 

تِیشہ لئے ہوئے ہیں یونہی پھر رہے ہیں لوگ

مجنوں ہزار ہیں کوئی فرہاد تک نہیں 


سن کر مری غزل تو کہا سب نے خوب ہے 

افسوس اس کا ہے کہ کوئی داد تک نہیں


کیا ظلم ہو رہا ہے یہ مت ہم سے پوچھیے

 ساجد اب اس نگر میں کو ئی شاد تک نہیں


عجیب ساجد


انور جمال

 کس قدر کرتا تھا میں اس سے محبت، مت پوچھ

وقتِ رخصت تو مرے درد کی شدت، مت پوچھ


یوں سمجھ جیسے کہ برسوں کی شناسائی تھی

اے مرے دوست! مرے عشق کی مدت، مت پوچھ


اُس کو کھونے کیلئے ایک ہی پل کافی تھا

اور پانے میں ہوئی جتنی مشقت، مت پوچھ


مسکراتے ہوئے ایام گزر جاتے تھے

کتنا خوش تھا میں فقط اُس کی بدولت، مت پوچھ


تیرے بن کیسے گزرتے ہیں مرے شام و سحر

اور مری کیسی ہے فی الحال طبیعت، مت پوچھ


بھول جانے دے مجھے ماضی کو اپنے، انور

میرے گزرے ہوئے لمحوں کی اذیت، مت پوچھ


انورجمال


مسرور نظامی

 احساس کے جنگل میں خوشبو کا مسافر ہوں 

غالب کی حویلی کاخوش رنگ میں طائر ہوں 

  

غزلوں میں ترا چرچہ کرتا ہوں سرِ محفل 

خود ہوتا ہوں میں رسوا مجبور ہوں شاعر ہوں 


درویش سکونت کے خانے میں کرے کیا درج 

درپیش رہی ہجرت ہر لمحہ مہاجر ہوں 


امید مری منزل آنسو ہیں مرے پانی 

اک درد کی روٹی ہے کوئے عشق کا زائر ہوں 


اس قلبِ حزیں کا بس اک جرم محبت ہے 

جو چاہو سزا دینا موجود ہوں حاضر ہوں 


آوار گی تنہائی بیگانگی رسوائی 

میں عشق ہوں حلیے سے عاشق کےہی ظاہر ہوں 


مسرور یہی میری پہچاں ہے زمانے میں 

پھولوں کی تجارت ہے خوشبو کا میں تاجر ہوں 


مسرور نظامی


راز علیمی

 تیرے ایوان کے ہر کونے سے ڈر لگتا ہے

ہم ہیں وہ لوگ جنہیں سونے سے ڈر لگتا ہے


جان رکھے ہیں محبت کے معانی ہم نے

پیار کا بیج مگر بونے سے ڈر لگتا ہے


اک ستم یہ کہ اسے پانے کی چاہت بھی نہیں

دوسرا یہ کہ اسے کھونے سے ڈر لگتا ہے


تحفۂِ داغِ جگر رو کے نہ کُھو جائے کہیں

سُو! حفاظت کے لیے رونے سے ڈر لگتا ہے


راز علیمیؔ


میر خوشحال فیضی

 آنکھ سے اوجھل کہساروں میں 

گم ہے ذہن یہ نظاروں میں 


شرم سے ہو گئے پانی پانی 

نام تھے جن کے غداروں میں 


اس کی چاہت کرکے ہم نے 

خود کو ڈالا انگاروں میں 


عزت اتنی سستی کہاں ہے 

ملتی نہیں یہ دستاروں میں 


بات کرو بس پیار کی لوگو

کچھ نہیں رکھا ہتھیاروں میں 


قتل ہوئے ہیں، غم نہیں لیکن 

للکارا ہے تلواروں میں 


اگلے پل کچھ بھی کر لیں گے 

خدشہ رہتا فنکاروں میں 


مجھ کو فیضی دُکھ ہوا سن کر 

نام ترا ہے غمخواروں میں


میر خوشحال فیضی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...