Urdu Deccan

Wednesday, June 2, 2021

رفیق سرور

 یوم پیدائش 01 جون 1970


فلک سے کوئی ستارہ گرے تو رک جاؤں

اداس پیڑ کا پتہ ہلے تو رک جاؤں


تھکن سے چور ہوں جاری ہے زندگی کا سفر

زرا سی دیر کو رستہ رکے تو رک جاؤں


کسی کے ساتھ میں چلنا ہے میرا طئے لیکن

کسی کے واسطے رکنا پڑے تو رک جاؤں


قدم سے لپٹا ہوا ہے مسافرت کا جنوں

یہ کیسے ہو کوئی روکے مجھے تو رک جاؤں


میں بزم یار سے نکلا تو سوچ کر نکلا

کوئی خلوص سے آواز دے تو رک جاؤں


وہ جھولے میلے وہ بچپن کی یاد تازہ ہو

کہیں پہ راہ میں سرور ملے تو رک جاؤں


رفیق سرور


اشفاق انصاری

 یوم پیدائش 01 جون 1966


ایسی تسکین جو کھو کر ملے پاکر دیکھو

دولتِ مہر و مّروت کو لٹا کر دیکھو


یورشِ غم نے بنایا ہے نشانِ عبرت

میں ہو معتوبِ محبت مجھے آکر دیکھو


دیکھنا تم پہ بھی رحمت کی گھٹا برسے گی

غم کے ماروں کے لئے اشک بہا کر دیکھو


پھر یہ ہوگا کہ تمہیں میں ہی دکھائی دوں گا

تم نظر اپنی زمانے سے ہٹا کر دیکھو


مل ہی جائے گا ہر اک شئے میں نشانِ قدرت

تم کبھی چشم بصیرت تو اٹھا کر دیکھو


پھر سمجھ جاؤگے کہتے ہیں کسے قہرِخدا

منظرِ رقصِ اجل شہر میں جاکر دیکھو


اشفاق انصاری


خورشید قمرؔ

 یوم پیدائش 02 جون 1993


حق کی جانب میں جب سےکھڑا ہو گیا

ہر کسی کے لیے مسئلہ ہوگیا


عیب سارے مرے مجھ کو دکھنے لگے

میں جو خود کے لیے آئینہ ہو گیا


 ساری دنیا مرے پیچھے کیوں پڑ گئی

 الفتیں بانٹ کر میں! بُرا ہوگیا

 

 قدر و قیمت نہیں اصل کی اب کوئی

 کھوٹا سکہ جو ہرسو کھرا ہو گیا

 

 تتلیاں اور بھنورے بھی بیکل ہوے

 شاخ سے پھول جس دم جدا ہو گیا

 

 مال و دولت کی اب کیا ضرورت تجھے

 جب سراپا میں جاناں ترا ہوگیا

 

 پیار الفت کے چھیڑو قمر راگ اب

 نفرتوں کا یہاں دبدبہ ہوگیا

 

  خورشید قمرؔ


شہاب جعفری

 یوم پیدائش 02 جون 1930


دل پر وفا کا بوجھ اٹھاتے رہے ہیں ہم

اپنا ہر امتیاز مٹاتے رہے ہیں ہم


منہ پر جو یہ جلے ہوئے دامن کی راکھ ہے

شعلوں میں زندگی کے نہاتے رہے ہیں ہم


اتنا نہ کھل سکا کہ ہوا کس طرف کی ہے

سارے جہاں کی خاک اڑاتے رہے ہیں ہم


آنکھوں سے دل تک ایک جہان سکوت ہے

سنتے ہیں اس دیار سے جاتے رہے ہیں ہم


تیرا خیال مانع عرض ہنر ہوا

کس کس طرح سے جی کو جلاتے رہے ہیں ہم


کس کی صدا سنی تھی کہ چپ لگ گئی شہابؔ

ساتوں سروں کا بھید گنواتے رہے ہیں ہم


شہاب جعفری


Tuesday, June 1, 2021

جاوید وششٹ

 یوم پیدائش 01 جون 1920


ہر دل جو ہے بیتاب تو ہر اک آنکھ بھری ہے

انسان پہ سچ مچ کوئی افتاد پڑی ہے


رہ رو بھی وہی اور وہی راہبری بھی

منزل کا پتہ ہے نہ کہیں راہ ملی ہے


مدت سے رہی فرش تری راہ گزر میں

تب جا کے ستاروں سے کہیں آنکھ لڑی ہے


ایسا بھی کہیں دیکھا ہے مے خانے کا دستور

ہر چشم ہے لبریز ہر اک جام تہی ہے


رخسار بہاراں پہ چمکتی ہوئی سرخی

کہتی ہے کہ گلشن میں ابھی صبح ہوئی ہے


سمجھا ہے تو ذرے کو فقط ذرۂ ناچیز

چھوٹی سی یہ دنیا ہے جو سورج سے بڑی ہے


دنیا میں کوئی اہل نظر ہی نہیں باقی

کوتاہ نگاہی ہے تری کم نظری ہے


مدہوش فضا مست ہوا ہوش کی مت پوچھ

وارفتگئ شوق ہے اک گم شدگی ہے


کانٹوں پہ چلے ہیں تو کہیں پھول کھلے ہیں

پھولوں سے ملے ہیں تو بڑی چوٹ لگی ہے


پھر سوچ لو اک بار ابھی وقت ہے جاویدؔ

شکوے میں کچھ اندیشۂ خاطر شکنی ہے


جاوید وششٹ


شاہین بیگ

 یوم پیدائش 01 جون 1968


صندل و عنبر و لوبان نہیں ہے گھر میں

سر خوشی کا کوئی سامان نہیں ہے گھر میں


مسئلہ ایک بھی آسان نہیں ہے گھر میں

بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے گھر میں


باپ کا سر سے مرے سایہ اُٹھا ہے جب سے

ایسے لگتا ہے نگہبان نہیں ہے گھر میں


کیا حسیں دور تھا گھر میں تھے کتابوں کے ہجوم

اب تو غالب کا بھی دیوان نہیں ہے گھر میں


کس طرح آپ کو گھر آنے کی دعوت دے دوں

کچھ بھی تو آپ کے شایان نہیں ہے گھر میں


اتنی فرمائشیں آئیں کہ اُسے کہنا پڑا

گھر ہے ملتان میں ملتان نہیں ہے گھر میں


داد شعروں پہ مرے کیسے کوئی دے شاہیں

ایک بھی سچا قدر دان نہیں ہے گھر میں


شاہین بیگ


دعبل شاہدی

 یوم پیدائش 01 جون 


سفر کی راہ جو سورج بدلنے والا ہے

وہ صحنِ قصرِ عطش سے نکلنے والا ہے


یہ کہہ دو ظلم کی موجوں سے اپنی حد میں رہیں 

مزاجِ   بحرِ  تبسم   بدلنے  والا   ہے


مری ہی جیت کا اعلان ہوگا  مقتل میں

 مرا لہو ابھی نیزوں اچھلنے والا ہے

 

خدایا گردنِ خورشید کو سلامت رکھ

غضب  ہے خنجرِ تاریک  چلنے  والا ہے


وہ آفتاب جلا  دیگا  قصرِ  باطل  کو

جو عرشِ تشنہ لبی سے نکلنے والا ہے


میری ان آنکھوں سے طوفانِ درد و غم اٹھ کر 

نہ جانے  کتنے سمندر  نگلنے  والا   ہے


دعبل شاہدی


جہانگیر معید

 یوم پیدائش 01 جون 1973


ترے دیے ہوئے زخموں سے پیار کرتے ہوئے 

میں جی رہا ہوں ہر اک حد کو پار کرتے ہوئے 


میں دل کی آنکھ سے دیکھوں ترے سراپے کو 

خیال و خواب سے نقش و نگار کرتے ہوئے 


عزیز تھا تو مرے دل کو ایک عرصہ تک

میں غمزدہ ہوں بہت تجھ پہ وار کرتے ہوئے  


میں روح تک تری الفت کی پاؤں گا تاثیر 

محبتوں کی حدیں بے کنار کرتے ہوئے


خزاں کے پتوں کی صورت بکھر چکا ہوں معید

بہار_ زیست کی رہ استوار کرتے ہوئے 


جہانگیر معید


حبیب تنویر

 یوم پیدائش 01 جون 1923


بے محل ہے گفتگو ہیں بے اثر اشعار ابھی

زندگی بے لطف ہے نا پختہ ہیں افکار ابھی


پوچھتے رہتے ہیں غیروں سے ابھی تک میرا حال

آپ تک پہنچے نہیں شاید مرے اشعار ابھی


زندگی گزری ابھی اس آگ کے گرداب میں

دل سے کیوں جانے لگی حرص لب و رخسار ابھی


ہاں یہ سچ ہے سر بسر کھوئے گئے ہیں عقل و ہوش

دل میں دھڑکن ہے ابھی دل تو ہے خود مختار ابھی


کیوں نہ کر لوں اور ابھی سیر بہار لالہ زار

میں نہیں محسوس کرتا ہوں نحیف و زار ابھی


حبیب تنویر


خاور رضوی

 یوم پیدائش 01 جون 1938


یوں تو ہر چھب وہ نرالی وہ فسوں ساز کہ بس

ہائے وہ ایک نگاہ غلط انداز کہ بس


دیکھنے والو ذرا رنگ کا پردہ تو ہٹاؤ

سینۂ گل پہ ہے زخموں کا وہ انداز کہ بس


دل کے داغوں کو چھپایا تو ابھر آئے اور

رازداری ہی نے یوں کھول دیئے راز کہ بس


ہم نے بخشی ہے زمانے کو نظر اور ہمیں

یوں زمانے نے کیا ہے نظر انداز کہ بس


رنج و غم عشق و جنوں درد و خلش سوز و فراق

ایسے ایسے ملے خاورؔ ہمیں دم ساز کہ بس


خاور رضوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...