یوم پیدائش 05 جون 1944
کھلا مجھ پر در امکان رکھنا
مرے مولا مجھے حیران رکھنا
یہی اک مرحلہ منزل نہ ٹھہرے
یہی اک مرحلہ آسان رکھنا
مرے دل کا ورق نکلے نہ سادہ
کوئی خواہش کوئی ارمان رکھنا
یہ دل طاق چراغ زر نہ ٹھہرے
مرے مالک مجھے نادان رکھنا
مرے حالات مجھ کو چھو نہ پائیں
مجھے ہر حال میں انسان رکھنا
بھری رکھنا مرے مولا یہ آنکھیں
دکھوں کی بارشوں کا مان رکھنا
مرے ساتھی بھی مجھ سے بے نوا ہیں
بساطیں دیکھ کر تاوان رکھنا
یہ دن کیوں کر چڑھا وہ شب ڈھلی کیوں
مجھے آیا نہ اتنا دھیان رکھنا
مجھے بھی عام یا گمنام کر دے
کہ اک آزار ہے پہچان رکھنا
اسیر عمر کو آیا نہ اب تک
کتاب ہجر کا عنوان رکھنا
ہوا کی طرح صحرا سے گزر جا
سفر میں کیا سر و سامان رکھنا
خالد احمد