Urdu Deccan

Tuesday, June 15, 2021

مجید لاہوری

 یوم پیدائش 10 جون 1913


جہاں کو چھوڑ دیا تھا جہاں نے یاد کیا

بچھڑ گئے تو بہت کارواں نے یاد کیا


ملا نہیں اسے شاید کوئی ستم کے لئے

زہ نصیب مجھے آسماں نے یاد کیا


وہ ایک دل جو کڑی دھوپ میں جھلستا تھا

اسے بھی سایۂ زلف بتاں نے یاد کیا


پناہ مل نہ سکی ان کو تیرے دامن میں

وہ اشک جن کو مہ و کہکشاں نے یاد کیا


خیال ہم کو بھی کچھ آشیاں کا تھا لیکن

قفس میں ہم کو بہت آشیاں نے یاد کیا


ہمارے بعد بہائے کسی نے کب آنسو

ہم اہل درد کو ابر رواں نے یاد کیا


غم زمانہ سے فرصت نہیں مگر پھر بھی

مجیدؔ چل تجھے پیر مغاں نے یاد کیا


مجید لاہوری


قادر صدیقی

 تیرا فراق عرصۂ محشر لگا مجھے

جب بھی خیال آیا بڑا ڈر لگا مجھے


جب بھی کیا ارادۂ ترک تعلقات

کیا جانے کیوں وہ شوخ حسیں تر لگا مجھے


پرکھا تو ظلمتوں کے سوا اور کچھ نہ تھا

دیکھا تو ایک نور کا پیکر لگا مجھے


خود اپنی ذات پر بھی نہ رہ جائے اعتبار

اے وقت ہو سکے تو وہ نشتر لگا مجھے


کیا جانے کس جہان میں بستے ہیں نرم دل

میں نے جسے چھوا وہی پتھر لگا مجھے


اک مرتبہ ضرور نظر پھر سے اٹھ گئی

جو قد بھی تیرے قد کے برابر لگا مجھے


قسمت اسی کو کہتے ہیں پھولوں کی سیج پر

لیٹا جو میں تو کانٹوں کا بستر لگا مجھے


اس پھول کا کلیجہ ملا غم سے پاش پاش

جو پھول دیکھنے میں گل تر لگا مجھے


دل ہنس کے جھیل جائے یہ بات اور ہے مگر

چرکا تری نگاہ کا اکثر لگا مجھے


دنیا کا یہ نظام یہ معیار سیم و زر

کمتر لگا مجھے کبھی بد تر لگا مجھے


ان کی گلی کی بات ہی قادرؔ عجیب ہے

ہر شخص شعر فہم و سخنور لگا مجھے


قادر صدیقی


محب کوثر

 وہ جو آنکھوں سے مرے دل میں اتر جائے گا

روشنی بن کے ہر اک سمت بکھر جائے گا


دن گزارے گا بہرحال ترے کوچے میں

رات آ جائے تو دیوانہ کدھر جائے گا


موج دریا نے ڈبویا تھا جسے ساحل پر

کیا خبر تھی کہ وہ طوفاں سے ابھر جائے گا


چاندنی رات میں اک اور قیامت ہوگی

رنگ چہرے کا ترے اور نکھر جائے گا


تجھ سے بچھڑا ہوں مگر ربط ہے اتنا کوثرؔ

دل کا ہر زخم تری یاد سے بھر جائے گا


محب کوثر


ابو لویزا علی

 حلول کر نہیں سکتا تو پھر حلاوت دے

مجھےطواف نہیں وصل کی سہولت دے


مدار قید ہے گردش سے تنگ آگیا ہوں 

طواف چھوڑ کے آؤں مجھے اجازت دے


درشت لہجے میں خود سے کلام کر یارم 

لذیذ لہجے سے خود کو بھی تھوڑی لذت دے 


ہے اک اسیر جو تیری اسیری میں خوش ہے

مگر یہ چاہتا ہے تو اسے حکومت دے


درخت پھل کے عوض بس توجہ چاہتا ہے

اجیر کہتا ہے آجر سے میری اجرت دے


سوال داغتے چہروں سے کہہ رہی ہے آنکھ 

جواب دیتی ہوں ،دوں گی ،ذرا سی مہلت دے 


ابو لویزا علی


شمشاد شاد

 کاسہء سر میں ہے میرے اک عدد نادر دماغ

لوگ ایسے ہی نہیں کہتے مجھے حاضر دماغ


دل اسیرِ غم ہوا جاتا ہے قصداً ان دنوں

ایسی صورت میں کرے تو کیا کرے آخر دماغ


کیا کسی کی بات کی گہرائی تک پہنچے گا یہ

 دل کا موقف تک سمجھنے سے ہے جب قاصر دماغ


کیوں نہ حاصل ہو اسے فرماں روائی جسم کی

سر سے پا تک جب ہے ایک اک عضو پر قادر دماغ


اُس کی میٹھی میٹھی باتوں میں نہ آ جانا کہیں 

چہرے سے معصوم ہے لیکن ہے وہ شاطر دماغ


کیا پھنساؤگے مجھے تم سازشوں کے جال میں 

مجھ کو میرے رب نے بخشا ہے میاں وافر دماغ


کی ہے کتنی بار اِسے تنبیہ ایماں نے مگر

باز آتا ہی نہیں اِلحاد سے کافر دماغ


ایک بس تم ہی نہیں ہو باہنر سنسار میں

ہم بھی کہلاتے ہیں اپنے آپ میں ماہر دماغ


شاؔد پہلی سی توجہ اب اِسے حاصل نہیں

اسلئے اعضاۓ تن میں ہے گراں خاطر دماغ


شمشاد شاد


ظہیر غازی پوری

 یوم پیدائش 08 جون 1938


ہر آدمی کو خواب دکھانا محال ہے

شعلوں میں جیسے پھول کھلانا محال ہے


کاغذ کی ناؤ بھی ہے کھلونے بھی ہیں بہت

بچپن سے پھر بھی ہاتھ ملانا محال ہے


انساں کی شکل ہی میں درندے بھی ہیں مگر

ہر عکس آئینے میں دکھانا محال ہے


مشکل نہیں اتارنا سورج کو تھال میں

لیکن چراغ اس سے جلانا محال ہے


اک بار خود جو لفظوں کے پنجرے میں آ گیا

اس طائر نوا کو اڑانا محال ہے


اپنے لہو کی بھینٹ چڑھانے کے بعد بھی

قدروں کی ہر فصیل تک آنا محال ہے


تا عمر اپنی فکر و ریاضت کے باوجود

خود کو کسی سزا سے بچانا محال ہے


ظہیرؔ غازی پوری


شمیم کرہانی

 یوم پیدائش 8 جون 1913


فاصلہ تو ہے مگر کوئی فاصلہ نہیں

مجھ سے تم جدا سہی دل سے تم جدا نہیں


کاروان آرزو اس طرف نہ رخ کرے

ان کی رہ گزر ہے دل عام راستہ نہیں


اک شکست آئینہ بن گئی ہے سانحہ

ٹوٹ جائے دل اگر کوئی حادثہ نہیں


آئیے چراغ دل آج ہی جلائیں ہم

کیسی کل ہوا چلے کوئی جانتا نہیں


آسماں کی فکر کیا آسماں خفا سہی

آپ یہ بتائیے آپ تو خفا نہیں


کس لیے شمیمؔ سے اتنی بدگمانیاں

مل کے دیکھیے کبھی آدمی برا نہیں


شمیم کرہانی


جاوید احمد غامدی

 اٹھ کہ یہ سلسلۂ شام و سحر تازہ کریں

عالمِ نو ہے ترے قلب و نظر تازہ کریں


اس زمانے کو بھی دیں اور زمانہ کوئی

پھر اٹھیں ولولۂ علم و ہنر تازہ کریں


تیری تدبیر سے نومید ہوئی ہے فطرت

راستے اور بھی ہیں رختِ سفر تازہ کریں


شعلۂ طور اٹھے آتشِ فاراں ہو کر

پھر تری خاک میں پوشیدہ شرر تازہ کریں


حرف و آہنگ نہ ہوں سوزِ دروں سے خالی

ہر رگِ ساز میں اب خونِ جگر تازہ کریں


جاوید احمد غامدی


جاوید احمد

 یوم پیدائش 01 جون 1948


دنیا سے تن کو ڈھانپ قیامت سے جان کو

دو چادریں بہت ہیں تری آن بان کو


اک میں ہی رہ گیا ہوں کیے سر کو بار دوش

کیا پوچھتے ہو بھائی مرے خاندان کو


جس دن سے اپنے چاک گریباں کا شور ہے

تالے لگا گئے ہیں رفوگر دکان کو


فی الحال دل پہ دل تو لیے جا رہے ہو تم

اور جو حساب بھول گیا کل کلان کو


دل میں سے چن کے ہم بھی کوئی غنچہ اے نسیم

بھیجیں گے تیرے ہاتھ کبھی گلستان کو


مشغول ہیں صفائی و توسیع دل میں ہم

تنگی نہ اس مکان میں ہو میہمان کو


احمد جاوید


Monday, June 7, 2021

جاوید سلطان

 یوم پیدائش 07 جون 


گر ہو سکے تو بس اسے یکبار دیکھنا

کس حال میں ہے تیرا یہ بیمار دیکھنا


صورت تری کبھی ترا سنگار دیکھنا

دل چاہتا ہے تجھ کو ہی ہر بار دیکھنا


ملتی نہیں تسلّی دلاسوں سے اب مجھے

دو پل کی زندگی ہے مرے یار دیکھنا


آنسو بہانا اپنے مقدر پہ اور بس

تصویر کو تمہاری لگاتار دیکھنا


خود کو بھی آئینے میں ذرا دیکھ لو میاں

پھر اس کے بعد تم مرا کردار دیکھنا


  جاوید سلطان


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...