Urdu Deccan

Tuesday, June 29, 2021

ندا اعظمی

 یوم پیدائش 28 جون


دید جب تک تری نہیں ہوتی

درد دل میں کمی نہیں ہوتی


جب وہ بچھڑا تو یہ یقین ہوا

زندگی زندگی نہیں ہوتی 


وہ تو سورج کے دم سے روشن ہے

چاند میں روشنی نہیں ہوتی


تیرا لہجہ بھی تلخ تھا ورنہ

بات دل پر لگی نہیں ہوتی


لفظ اپنے سنوار کر بولو

لفظ کی واپسی نہیں ہوتی


اس نے مجھکو صدا نہیں دی ندا

ورنہ کیا میں رکی نہیں ہوتی


ندا اعظمی


ابو المجاہد زاہد

 یوم پیدائش 28 جون 1928


اکثر ” جھوٹے لوگ“ ملے ہیں عالی شان ایوانوں میں

ہم نے نقلی پھول ہی دیکھے سونے کے گلدانوں میں


بھینٹ چڑھا دی ساری ہمت ساحل کی آسائش پر

طوفانوں سے لڑنے والے ڈوب گئے میدانوں میں


میرے لئے حیرت کی اس سے بڑھ کر کوئی بات نہیں

فرزندانِ نور ملے ہیں ظلمت کے دربانوں میں


اک ملت بن کر سب بھائی ایک ہی گھر میں رہتے تھے

بٹتے بٹتے ،بٹتے بٹتے ،بٹ گئے کتنے خانوں میں


دونوں ہی شیطان ہیں لیکن لالؔ بڑا ہے یا پیلاؔ

سارا جھگڑا بس اس پر ہے ان دونوں شیطانوں میں


اندھیارے افسردہ گھروں کے دور بھی ہوں تو کیونکر ہوں

سورج تو لپٹے رکھے ہیں غفلت کے جزدانوں میں


قبریں ایسی جیسے دلہنیں چوتھی کی ہوں اے زاہدؔ

کیا کیا زیب و زینت دیکھی اسلامی بت خانوں میں


ابوالمجاہد زاہد 


مسعودہ ریاض

 یوم پیدائش 27 جون

 

وقت کے جو بھی صَرفِ نظر ہو گئے

وہ پڑے راہ میں اک حجر ہو گئے


جن کی قسمت میں سوکھے شجر ہو گئے

مفلسی میں ہیں وہ بے ثمر ہو گئے


ٹھوکروں میں تھا رکھتا زمانہ جنہیں

زیر تھے جو وہ اب ہیں زبر ہو گئے


کل کے دھنوان ہیں دربدر آج کے

بگڑے حالات ایسے صفر ہو گئے


پھر مرے یار نے لی نہ میری خبر

راحَتِ جاں تھے سوزِ جگر ہو گئے


مشکلوں سے کبھی بھی نہ گھبراٸے ہم

دکھ کے آگے یوں سینہ سپر ہو گئے


کیسے مسعودہؔ غم جھیل پاٸے گی یہ

سارے اپنے پراٸے اگر ہو گئے


مسعودہؔ ریاض


آصفہ زمانی

 اے مرے دل بتا خواب بنتا ہے کیوں

روٹھنا ان کی فطرت ہے روتا ہے کیوں


بے وفا آدمی بے وفا زندگی

جانتا ہے اگر دل لگاتا ہے کیوں


دور رہ کر بھی جب تو مرے پاس ہے

تجھ کو پانے کو دل پھر مچلتا ہے کیوں


وہ جدا کیا ہوئے زندگی بھی گئی

آنسوؤں کی جگہ خوں بہاتا ہے کیوں


آصفہ زمانی


اسنی بدر

 اچھی اردو پیاری اردو

کچھ دیر تو مجھ سے بات کرو


جو نیل گگن سے آئی ہو

تو روشن میری رات کرو


جو کومل سندر لڑکی ہو

تو دل اپنا سوغات کرو


جو بازی رکھو چاہت کی

تم جیتو ہم کو مات کرو


ان پھیکے پھیکے لفظوں پر

سب بے جا خوب اکڑتے ہیں


سب جانتے ہیں تم بولتی ہو

تو پھول لبوں سے جھڑتے ہیں


سب اپنے ادھورے جملوں میں

یہ ہیرے موتی جڑتے ہیں


سب تم سے آنکھ ملاتے ہیں

سب پاؤں تمہارے پڑتے ہیں


ہم نے تو یہی دیکھا ہے یہاں

جو تم نے کہا وہ ریت بنا


ہم نے تو یہی سمجھا ہے یہاں

سر تم نے دئے سنگیت بنا


ہم نے تو یہی جانا ہے یہاں

تم سے ہی کوئی من میت بنا


نظموں نے ہمیں چوما بڑھ کر

اور میٹھا سچا گیت بنا


لیکن یہ تمہاری قسمت ہے

ہات آئی ہے ایسی تنہائی


پھرتی ہو کہیں ماری ماری

جو ملتا ہے سو ہرجائی


ہر روز کے دھوکے راہوں میں

ہر روز جبیں پر رسوائی


ہر روز ذرا سی خوش فہمی

ہر روز کی محفل آرائی


جب دنیا کے ان میلوں سے

تھک جاؤ تو مرے پاس آنا


جب اوروں کی بانہوں سے کبھی

اکتاؤ تو مرے پاس آنا


میں بڑھ کر نذر اتاروں گی

گھبراؤ تو میرے پاس آنا


مرہم سے نہیں بھر پائے اگر

یہ گھاؤ تو میرے پاس آنا


اچھی اردو پیاری اردو

اچھی اردو پیاری اردو


اسنی بدر


ثریا حیا

 یوم پیدائش 26 جون 1946


اےغم تو میرے ساتھ رہا کر قدم قدم

کچھ حسرتوں کی خاک اڑا کر قدم قدم


وہ دن بھی خوب تھے کہ سرِ وادیٔ جنوں

ہم آ گئے تھے خواب سجا کر قدم قدم 


وہ اور اس کی ذات سے منسوب رفعتیں

رکھتے رہے ہیں دل میں چھپا کرقدم قدم


اک آرزوئے دید تھی سو اب نہیں رہی

اس دل کو آئینہ سا بنا کر قدم قوم


وہ ہجر تھاکہ وصل تھا کچھ یاد ہی نہیں

سیراب ہو گئے جسے پا کر قدم قدم


طوفاں کا خوف ہونہ حیاؔ بجلیوں کا ڈر

یا رب مجھے وہ عشق عطا کر قدم قدم


ثریا حیا


عزیز نبیل

 یوم پیدائش 26 جون 1976


اس کی سوچیں اور اس کی گفتگو میری طرح

وہ سنہرا آدمی تھا ہو بہ ہو میری طرح


ایک برگ بے شجر اور اک صدائے بازگشت

دونوں آوارہ پھرے ہیں کو بہ کو میری طرح


چاند تارے اک دیا اور رات کا کومل بدن

صبح دم بکھرے پڑے تھے چار سو میری طرح


لطف آوے گا بہت اے ساکنان قصر ناز 

بے در و دیوار بھی رہیو کبھو میری طرح


دیکھنا پھر لذت کیفیت تشنہ لبی

توڑ دے پہلے سبھی جام و سبو میری طرح


اک پیادہ سر کرے گا سارا میدان جدل

شرط ہے جوش جنوں اور جستجو میری طرح


عزیز نبیل


عالم فیضی

 دل میں گھس کر بیان لیتا ہے

بات مطلب کی جان لیتا ہے


منزلیں اس کو مل ہی جاتی ہیں

کچھ، جو کرنے کی ٹھان لیتا ہے


یوں بہت کچھ ہے اس کے پاس مگر 

پھر بھی دیکھو وہ دان لیتا ہے


چل گئی کیسی اب ہوا لوگو!

بھائی بھائی کی جان لیتا ہے


چھوڑ دیتے ہیں ساتھ سب عالم

وقت جب امتحان لیتا ہے


عالم فیضی


اویس ساقی

 یوم پیدائش 26 جون 1989


زندگی کامیاب تنکوں پر 

بہہ رہی مثلِ آب تنکوں پر


وہ دباتے ہیں آس محلوں میں 

میں سجاتا ہوں خواب تنکوں پر


دیکھ لیجے ناں میری عیاشی 

سو رہا ہوں جناب تنکوں پر


خاکساری ہے شیوہءِ مومن

کیوں بشر ہو خراب تنکوں پر


شاہ ہو کر اڑان کا پھر بھی

گھر بنائے عقاب تنکوں پر


تختِ شاہاں گھرے ہیں ظلمت میں

روشنی کا شباب تنکوں پر


ہر کسی نے یوں داد دی مجھ کو

ہے غزل لاجواب تنکوں پر


آشیاں دیکھ جل رہا ہے مرا

ہے مسلط عذاب تنکوں پر


بخش دے زندگی نئی ان کو

ڈال ساقی شراب تنکوں پر


اویس ساقی


شاکر حسین اصلاحی

 یوم پیدائش 25 جون 1979


ان کی یادوں کے شجر باقی ہیں

لمس و لذت کے ثمر باقی ہیں

 

کچھ کو سیلاب بلاِ روند گیا

پھر بھی کچھ گاؤں میں گھر باقی ہیں


 روشنی حسن کی رہ جائے گی 

جب تلک اہلِ ہنر باقی ہیں


اب یقیں ہوتا نہیں سایوں کا

یوں تو راہوں میں شجر باقی ہیں


غم کے سائل کی صدا کہتی ہے

خشک آنکھوں کے کھنڈر باقی ہیں


آنکھیں خوں بار ہیں اپنی شاکر

اب کہاں لعل و گہر باقی ہیں


شاکر حسین اصلاحی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...