Urdu Deccan

Tuesday, July 6, 2021

داور نوید

 یوم پیدائش 01 جولائی 1970


زلفوں کو رخ پہ ڈال بڑی تیز دھوپ ہے

اے یار خوش جمال بڑی تیز دھوپ ہے


چہرہ ہے سرخ سرخ پسینے سے جسم تر

خود کہہ رہا ہے حال بڑی تیز دھوپ ہے


شدت کی پیاس سے یوں جمی لب پہ پپٹریاں

جیسے شجر پہ چھال بڑی تیز دھوپ ہے


پہلے بھی تیز دھوپ تھی ایسی مگر نہ تھی

یعنی کہ اب کے سال بڑی تیز دھوپ ہے


پہرہ فرات پر ہے یزیدی سپاہ کا

پیاسی علی کی آل بڑی تیز دھوپ ہے


صحرا میں تو سراب نظر آتے ہیں نوید 

اوسان رکھ بحال بڑی تیز دھوپ ہے


داور نوید


سلیم انصاری

 یوم پیدائش 01 جولائی 1962


مجھ کو سزائے موت کا دھوکہ دیا گیا 

میرا وجود مجھ میں ہی دفنا دیا گیا 


بولو تمہاری ریڑھ کی ہڈی کہاں گئی 

کیوں تم کو زندگی کا تماشہ دیا گیا 


آنکھوں کو میری سچ سے بچانے کی فکر میں 

ٹی وی کے اسکرین پہ چپکا دیا گیا 


سازش نہ جانے کس کی بڑی کامیاب ہے 

ہر شخص اپنے آپ میں بھٹکا دیا گیا 


سلیم انصاری


خورشید بخاروی

 یوم پیدائش 01 جولائی 1963


ہمارے جسم کے اندر بھی کوئی رہتا ہے 

مگر یہ کیسے کہیں ہم کہ وہ فرشتہ ہے 


عجیب شخص ہے وہ پیاس کے جزیروں کا 

پہن کے دھوپ سدا مقتلوں میں رہتا ہے 


نظر ہے دن کے چمکتے لباس پر سب کی 

قبائے شام کے پیوند کون گنتا ہے 


ہماری عریاں ہتھیلی پہ اب بھی شام و سحر 

یہ کون ہے جو گہر آنسوؤں کے رکھتا ہے 


بچھڑ گئے تو اکیلے رہیں گے ہم شاربؔ 

کہ سارسوں سا ہمارا تمہارا رشتہ ہے


شارب مورانوی


شارب مورانوی

 یوم پیدائش 01 جولائی 1963


ہمارے جسم کے اندر بھی کوئی رہتا ہے 

مگر یہ کیسے کہیں ہم کہ وہ فرشتہ ہے 


عجیب شخص ہے وہ پیاس کے جزیروں کا 

پہن کے دھوپ سدا مقتلوں میں رہتا ہے 


نظر ہے دن کے چمکتے لباس پر سب کی 

قبائے شام کے پیوند کون گنتا ہے 


ہماری عریاں ہتھیلی پہ اب بھی شام و سحر 

یہ کون ہے جو گہر آنسوؤں کے رکھتا ہے 


بچھڑ گئے تو اکیلے رہیں گے ہم شاربؔ 

کہ سارسوں سا ہمارا تمہارا رشتہ ہے


شارب مورانوی


اطہر اعظمی

 یوم پیدائش 01 جولائی 1965


ڈری سی، سہمی سی اس سوگوار دنیا کا

خدایا! بخش دے پھر سے قرار دنیا کا

 

کسی کے جانے سے کب فرق پڑنے والا ہے 

چلے گا ایسے ہی سب کاروبار دنیا 

 

تمہیں خبر تھی میں دنیا تمہیں سمجھتا تھا

تمہارے بعد کہاں اعتبار دنیا کا 

 

سبھی یہ سوچ کے آنکھیں چرا رہے ہیں یہاں 

ہمیں پہ تھوڑی ہے دارومدار دنیا کا 

 

ذرا سی دیر کو قدرت نے آنکھ کیا بدلی 

غرور ہو گیا سب تار تار دنیا کا 

 

ہمارے حرص نے رنگت بگاڑ دی اسکی 

تو آؤ کرتے ہیں پھر سے سنگار دنیا 


اگر فقیری کا اتنا ہی شوق ہے اطہر 

تو پھر اتارئے سر سے خمار دنیا کا 


اطہر اعظمی


عمران انجم

 یوم پیدائش 01 جولائی 1970


کوئی بھی اب اسے تبدیل کر نہیں سکتا

بگڑ گیا ہے وہ اتنا سدھر نہیں سکتا


ہمارے زعم سے واقف ہے پانیوں کا مزاج

ہمارے سامنے دریا بپھر نہیں سکتا


ہمارا قتل بغاوت کو تقویت دے گا

ہمارا نظریہ مر کے بھی مر نہیں سکتا


مجھے تو چھو کے بتا ہوں کہ یا نہیں ہوں میں

میں اپنے ہونے کی تصدیق کر نہیں سکتا


 اس آئینے کا بدن کرچیوں میں دفنا دو

تمہیں جو دیکھ کے خود ہی نکھر نہیں سکتا


جنوں کو میں نے دکھاٸی ہے اعتدال کی راہ

سو چاہ کے بھی وہ حد سے گزر نہیں سکتا


مثال دی تری اس کو وہ جس کا دعوی تھا

یہ ماہتاب زمیں پر اتر نہیں سکتا


بس ایک عشق ہی صحرا میں ڈھوتا رہتا ہوں

میں کوٸی اور مشقت تو کر نہیں سکتا


ترے گلے میں جو کشکول حرص و لالچ ہے

زمیں کے چاند ستاروں سے بھر نہیں سکتا


عمران انجم


جبیب بنارسی

 یوم پیدائش 01 جولائی 1965


آج کا دور بھی افسوس اسی ہیجان میں ہے

قیصریّت کی ادا کیوں ابھی سلطان میں ہے


میں عقیدت کو نہ بدلوں گا تمھارے ڈر سے

پختگی ظالمو! اب بھی مرے ایمان میں ہے


آج خورشیدِ مصائب ہے سوا نیزے پر

اب تو ہر شخص یہاں حشر کے میدان میں ہے


کیسے انصاف ہو قانون میں ٹھہراؤ نہیں

ایک ہلچل سی ابھی عدل کی میزان میں ہے


خوشنما پھول کی مانند حبیبِ ناداں

نقشِ پا آج بھی دیکھ آؤ بیابان میں ہے


 حبیب بنارسی


شارق خلیل آبادی

 یوم پیدائش 01 جولائی 1956


شاید مرے اپنے مرے قاتل تو نہیں تھے

احباب ٰمرے خون میں شامل تو نہیں تھے


جو چھوڑ گئے ساتھ یوں لشکر کا اچانک

ایسا مجھے لگتا ہےٰ وہ بزدل تو نہیں تھے


کچھ لوگ جو تعریف مری کر کے گئے ہیں

وہ میری تمناؤں کے قاتل تو نہیں تھے


حق گوئی پہ جو لوگ بھڑک اٹھتے تھے ہم پر

لگتا ہے وہ شیدائی باطل تو نہیں تھے


رسوا جو ہوئے بزم ادب سے تری کل شب

تہذیب کے ارکان سے غافل تو نہیں تھے


یہ موج بہا لائی ہے منجدھار میں جن کو

وہ لوگٰ بتاؤ لب ساحل تو نہیں تھے


 ہاں عشق میں تم ٹوٹ کے بکھرے تھے یقینا

پر صورتٍ شارق کبھی تٍل تٍل تو نہیں تھے


شارق خلیل آبادی


نہال رضوی

 یوم پیدائش 01 جولائی 1957


مت کرئے چھیڑ چھاڑ چمن کے اصول سے

کانٹے الگ نہ کیجئے گلشن میں پھول سے


کسدرجہ تلملائی ہیں خوشیاں نہ پوچھئے

دل پر مرے صحیفہء غم کے نزول سے


حالت کسی بھی دور میں ایسی نہ تھی کبھی

 خطرہ ہے آج علم کو جتنا جہول سے

 

کھو جائیں آسمان تو حیرت نہ کیجئے

افلاک پٹ گئے ہیں کچھ اسدرجہ دھول سے


جاکر وہاں حیات کا مقصد نہ ڈھونڈھئے

اکثر ہمارے فعل جہاں ہوں فضول سے


چہرے اتر گئے ہیں ہماری خوشی سے کیوں

کیوں دوست لگ رہے ہیں ہمارے ملول سے


شکوہ کسی سے اور مناسب نہیں نہال 

ہم دربدر ہوئے ہیں خود اپنی ہی بھول سے


نہال رضوی


اعتبار ساجد

 یوم پیدائش 01 جولائی 1948


تمہیں جب کبھی ملیں ' فرصتیں مرے دل سے بوجھ اتاردو

میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو


مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خال وخد

مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو، مرے سارے زنگ اتار دو


کسی اور کو مرے حال سے نہ غرض ہے کوئی نہ واسطہ

میں بکھر گیا ہوں سمیٹ لو' میں بگڑ گیا ہوں سنوار دو


مری وحشتوں کو بڑھا دیا ہے جدائیوں کے عذاب نے

مرے دل پہ ہاتھ رکھو ذرا' مری دھڑکنوں کو قرار دو


تمہیں صبح کیسی لگی کہو' مری خواہشوں کے دیار کی

جو بھلی لگی تو یہیں رہو' اسے چاہتوں سے نکھار دو


وہاں گھر میں کون ہے منتظر کہ ہو فکر دیر سویر کی

بڑی مختصر سی یہ رات ہے اسی چاندنی میں گزار دو


کوئی بات کرنی ہے چاند سے کسی شاخسار کی اوٹ میں

مجھے راستے میں یہیں کہیں کسی کنج گل میں اتار دو


اعتبار ساجد


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...