Urdu Deccan

Tuesday, July 6, 2021

ڈاکٹر وحید الحق

 یوم پیدائش 04 جولائی


وہ عندلیبِ شاخ گلستاں نہیں رہا

پھولوں پہ رنگ جشنِ بہاراں نہیں رہا


پرواز جس کی حدِ نظر سے بلند تھی

رشکِ چمن وہ رشکِ گلستاں نہیں رہا


لطف و کرم خلوص و محبت میں بے نظیر

تھا جس پہ جان و دل مرا قرباں نہیں رہا


روشن چراغِ علم و ہنر کر گیا مگر

وہ منتظم وہ ہادی و نگراں نہیں رہا


ماتم کناں ہیں شہر کے دیوار و در سبھی

وہ کیا گیا کہ درد کا درماں نہیں رہا


چپ چاپ جاکے شہرِ خموشاں میں سو گیا

بزمِ طرب میں نغمئہ خوباں نہیں رہا


رکھنا ذرا سنبھال کے اس کی نشانیاں

اب درمیاں وہ صاحبِ دوراں نہیں رہا


آئے ہیں در پہ مانگنے کاسے میں روشنی

کہہ دو ذرا چراغِ فروزاں نہیں رہا


ڈاکٹر وحید الحق


میر یٰسین علی خان

 یوم پیدائش 04 جولائی 1908


میں تم کو پوجتا رہا جب تک خودی میں تھا

اپنا ملا سراغ مجھے بے خودی کے بعد


کیا رسم احتیاط بھی دنیا سے اٹھ گئی

یہ سوچنا پڑا مجھے تیری ہنسی کے بعد


گھبرا کے مر نہ جائیے مرنے سے فائدہ

اک اور زندگی بھی ہے اس زندگی کے بعد


آئے ہیں اس جہاں میں تو جانا ضرور ہے

کوئی کسی سے پہلے تو کوئی کسی کے بعد


اے ابر نو بہار ٹھہر پی رہا ہوں میں

جانا برس کے خوب مری مے کشی کے بعد


مرتے تھے جس پہ ہم وہ فقط حسن ہی نہ تھا

یہ راز ہم پہ آج کھلا عاشقی کے بعد


اے موسم بہار ٹھہر آ رہا ہوں میں

دامان چاک چاک کی بخیہ گری کے بعد


میر یٰسین علی خاں


سلام ؔمچھلی شہری

 یوم پیدائش 01 جولائی 1921


کاش تم سمجھ سکتیں زندگی میں شاعر کی ایسے دن بھی آتے ہیں

جب اسی کے پروردہ چاند اس پہ ہنستے ہیں پھول مسکراتے ہیں


اب تو میرے شہ پارے جو تم ہی سے تھے منسوب یوں جھلک دکھاتے ہیں

دور ایک مندر میں کچھ دیے مرادوں کے جیسے جھلملاتے ہیں


تم نے کب یہ سمجھا تھا میں نے کب یہ سوچا تھا زندگی کی راہوں میں

چلتے چلتے دو راہی ایک موڑ پر آ کر خود ہی چھوٹ جاتے ہیں


کام حسن کاروں کا آنسوؤں کی ضو دے کر کچھ کنول کھلا دینا

موت حسن کاروں کی جب وہ خود شب غم میں یہ دیے بجھاتے ہیں


تیز تر ہوائیں ہیں موت کی فضائیں ہیں رات سرد و جامد ہے

احمریں ستارے بھی واقعی دوانے ہیں اب بھی مسکراتے ہیں


الوداع اے میری شاہکار نظموں کی زرنگار شہزادی

ماورائے الفت بھی کچھ نئے تقاضے ہیں جو مجھے بلاتے ہیں


سلام ؔمچھلی شہری


فضا ابن فیضی

 یوم پیدائش 01 جولائی 1923


آنکھوں کے خواب دل کی جوانی بھی لے گیا

وہ اپنے ساتھ میری کہانی بھی لے گیا


خم چم تمام اپنا بس اک اس کے دم سے تھا

وہ کیا گیا کہ آگ بھی پانی بھی لے گیا


ٹوٹا تعلقات کا آئینہ اس طرح

عکس نشاط لمحۂ فانی بھی لے گیا


کوچے میں ہجرتوں کے ہوں سب سے الگ تھلگ

بچھڑا وہ یوں کہ ربط مکانی بھی لے گیا


تھے سب اسی کے لمس سے جل تھل بنے ہوئے

دریا مڑا تو اپنی روانی بھی لے گیا


اب کیا کھلے گی منجمد الفاظ کی گرہ

وہ ہمت کشود معانی بھی لے گیا


سر جوشیٔ قلم کو فضاؔ چپ سی لگ گئی

وہ جاتے جاتے شعلہ بیانی بھی لے گیا


فضا ابن فیضی


محمد عبد الحمید صدیقی نظر لکھنوی

 یوم پیدائش 03 جولائی 1927


مسلماں دیکھ کر اب دل کی حیرانی نہیں جاتی

کجا سیرت کہ صورت تک بھی پہچانی نہیں جاتی


حدیث غم سنانے سے پریشانی نہیں جاتی

مگر کچھ لوگ ہیں جن کی یہ نادانی نہیں جاتی


جناب شیخ بول اٹھیں بہ ہر مبحث بہ ہر موقع

کہ ان کی خوئے‌ پندار ہمہ دانی نہیں جاتی


سنا سیل تمنا میں ہزاروں شہر دل ڈوبے

مگر پھر بھی تمناؤں کی طغیانی نہیں جاتی


سجایا ہم نے تصویر بتاں سے خانۂ دل کو

مگر با ایں ہمہ اس گھر کی ویرانی نہیں جاتی


محمد مصطفی کی شان رفعت کوئی کیا جانے

جہاں وہ ہیں وہاں تک فکر انسانی نہیں جاتی


کیا لوگوں نے گرد آلود کتنا چہرۂ ماضی

نظرؔ حیرت ہے پھر بھی اس کی تابانی نہیں جاتی


محمد عبد الحمید صدیقی نظر لکھنوی


زیب النساء زیبی

 یوم پیدائش 03 جولائی 1958


انسان کوئی بھی تو فرشتہ بنا نہیں

سچ پوچھیے تو کوئی یہاں بے خطا نہیں


 قإئم رہے جو توبہ پہ ساقی کے روبرو

 ایسا تو میکدے میں کوئی پارسا نہیں

 

 ہم ہیں قصور وار ہمیں اعتراف ہے

 تہمت لگانے والے بھی تو دیواتا نہیں

 

 وہ جس کو اپنے دل کا فسانہ سنا سکیں

 ہم کو تو ایسا شخص ابھی تک ملا نہیں

 

 چہرہ بدل بدل کے وہ آیا ہے بار بار

 لیکن کسی بھی چہرے میں مجھ سے چھپا نہیں

 

 وہ بے وفا تھا چھوڑ کے مجھ کو چلا گیا

 میں بھول جاؤں اس کو ، مگر بھولتا نہیں

 

 کشتی کو تونے چھوڑ دیا یوں ہی نا خدا

 کیا تو سمجھ رہا ہے ہمارا خدا نہیں

 

 اس کے قریب جاؤں تو ملتا نہیں ہے وہ 

 اور دور ہو بھی جاؤں تو مجھ سے جدا نہیں 

 

 زیبی رفیق ہوتے ہیں سب اچھے دور کے

 جب وقت ہو کڑا کوئی پہچانتا نہیں

 

 زیب النساء زیبی


کمار پاشی

 یوم پیدائش 03 جولائی 1935


ایک کہانی ختم ہوئی ہے ایک کہانی باقی ہے

میں بے شک مسمار ہوں لیکن میرا ثانی باقی ہے


دشت جنوں کی خاک اڑانے والوں کی ہمت دیکھو

ٹوٹ چکے ہیں اندر سے لیکن من مانی باقی ہے


ہاتھ مرے پتوار بنے ہیں اور لہریں کشتی میری

زور ہوا کا قائم ہے دریا کی روانی باقی ہے


گاہے گاہے اب بھی چلے جاتے ہیں ہم اس کوچے میں

ذہن بزرگی اوڑھ چکا دل کی نادانی باقی ہے


کچھ غزلیں ان زلفوں پر ہیں کچھ غزلیں ان آنکھوں پر

جانے والے دوست کی اب اک یہی نشانی باقی ہے


نئی نئی آوازیں ابھریں پاشیؔ اور پھر ڈوب گئیں

شہر سخن میں لیکن اک آواز پرانی باقی ہے


کمار پاشی


نائلہ راٹھور

 مجھے سمجھنے کا ہے جو دعویٰ تو یہ بتاؤ کہ کیا ہوا ہے

ہے آنکھ نم کیوں یہ دل ہے غمگیں فضا بھی جیسے خفا خفا ہے


ہے دل کا عالم دھواں دھواں سا پلک پلک پر ہیں خواب اٹکے 

یہ شام اتری ہے کیسی گھر میں دیا جلا ہے نہ در کھلا ہے


میں سر جھکائے کھڑی ہوں کب سے ہے دور تک بس وہی اندھیرا

مرا مقدر ہے یہ سیاہی نہ صبح جاگی نہ دن چڑھا ہے


یوں تم نہ حیرت سے مجھکو دیکھو یقین مانو کہ سچ یہی ہے

گیا جو اک بار کب ہے لوٹا یہی ہے دیکھا یہی سنا ہے


نہ راستوں پر گلاب مہکے نہ سایہ کرنے سحاب آئے

کہ یونہی کانٹوں پہ چلتے چلتے یہ زندگی کا سفر کٹا ہے


نبھانا رشتہ اسے بھی مشکل مرے بھی دل میں جگہ نہیں ہے

نہ فرقتوں میں کسک رہی ہے نہ قربتوں میں مزا رہا ہے


ہوانے دی تھی یہی بشارت گھڑی دعا کی یہی تھی شاید

ترے تسلط سے جان نکلی تو پھر ہی اذن سفر ملا ہے


نائلہ راٹھور


احمد سہیل

 یوم پیدائش 02 جولائی 1953


جلتا تھا رات ہی سے دل یاسمن تمام

رخصت تھی صبح تک یہ بہار چمن تمام


جذبہ یہ رشک کا ہے اے عشاق کش مجھے

بازار سے خرید لئے ہیں کفن تمام


دل جل رہا ہے وحشت یاد غزال سے

روشن ہیں اس چراغ سے دشت و دمن تمام


مدت سے ہیں پڑے ہوئے چوکھٹ پہ یار کی

پامال ہو چکے ہیں مرے روح و تن تمام


کمزور ہے بہت دل بے ساختہ مرا

اور شہر میں حکومت یک بت شکن تمام


قتل بہار ہو گیا پھولوں کے دیس میں

غنچوں نے چاک چاک کئے پیرہن تمام


کس کی شب سیاہ بجھی کوہ طور پر

کس آفتاب حشر پہ آیا گہن تمام


احمد سہیل


ساز دہلوی

 یوم پیدائش 03 جولائی 1945

انہونی ایسی ہو گئی اب کی بہار میں

 کانٹے ہی کانٹے پھوٹ پڑے لالہ زار میں

 

اچھّی کہی کہ چھوڑ دوں میں آپ کا خیال

 جیسے کہ میرا دل ہو مرے اختیار میں

 

اوّل محاذ قبر ہے پھر حشر پھر حساب

بیٹھی ہیں سب بلائیں مرے انتظار میں


جن کی ہزاروں سال کی لکھّی گئی سزا 

اتنے گناہ کر لئے ایّام چار میں ؟


گزری ہے آدھی عمر اسے ڈھونڈتے ہوئے

آدھی گزر ہی جائے گی قول وقرار میں


دل اس نے اصل زر کی ضمانت میں رکھ لیا

باقی ہے جسم جائے گا وہ بھی ادھار میں


انگلی پکڑ کے ساز ذرا ابتدا تو کر

پہنچا بھی ہاتھ آئے گا دو چار بار میں


ساز دہلوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...