Urdu Deccan

Friday, July 16, 2021

حسنین عاقب

 یوم پیدائش 08 جولائی 1971


اور تھوڑا سا بکھر جاؤں یہی ٹھانی ہے

زندگی میں نے ابھی ہار کہاں مانی ہے


ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تو کچھ ملتا نہیں

دشت و صحرا کی میاں خاک کبھی چھانی ہے


قتل کو قتل جو کہتے ہیں غلط کہتے ہیں

کچھ نہیں ظل الٰہی کی یہ نادانی ہے


سہم جاتے ہیں اگر پتہ بھی کوئی کھڑکے

جانتے سب ہیں ترا ذمہ نگہبانی ہے


اپنی غیرت کا سمندر ابھی سوکھا تو نہیں

بوند بھر ہی سہی آنکھوں میں ابھی پانی ہے


حسنین عاقب


مینو بخشی

 یوم پیدائش 08 جولائی 1955


کچھ تو خودی کا رنگ ہے کچھ بے خودی کا رنگ

دونوں کا امتزاج ہے یہ زندگی کا رنگ


پیش نگاہ میرے ہزاروں ہی رنگ تھے

دل نے کیا پسند مگر آپ ہی کا رنگ


یہ ہے فریب چشم کہ یہ دل کا واہمہ

ہر گل میں دیکھتی ہوں گل‌ کاغذی کا رنگ


اس کو بھلائے گرچہ زمانہ گزر گیا

آتا ہے یاد آج بھی مجھ کو اسی کا رنگ


رنگیں ہے جس کے دم سے مری کائنات دل

وہ ہے جمال یار کی تابندگی کا رنگ


آہیں بھرے گا کب کوئی پھولوں کو دیکھ کر

آئے گا کب کسی میں بھلا دلبری کا رنگ


اس میں ہے رنگ تیرے رخ بے مثال کا

سب سے جدا ہو کیوں نہ مری شاعری کا رنگ


مینو بخشی


عالم فیضی

 یوم پیدائش 08 جولائی 1990


مشکلوں میں رہ کے اب ہر خوشی نہیں ملتی

زندگی تو ملتی ہے پر بھلی نہیں ملتی


جب سے مل گئی دولت بھول بیٹھے یوں رب کو

ان کی اب دعاؤں میں عاجزی نہیں ملتی


پھر رہا ہے بن کے تو قوم کا مسیحا جو 

تجھ میں کچھ بزرگوں سی سادگی نہیں ملتی


بیٹھ کر جو کرتے ہیں محفلوں میں لفاظی

قول میں بھی اب ان کے دل کشی نہیں ملتی


دیکھنے میں لگتے ہیں جو بہت ہی بھولے سے

لب جو ان کا وا ہوتا کچھ ہنسی نہیں ملتی


شکر رب کی نعمت کا جو سدا نہیں کرتے 

ان کو رب کی دولت بھی دائمی نہیں ملتی


جان بھی اگر عالم تم انھیں ہبہ کردو 

ظالموں کی آنکھوں میں کچھ نمی نہیں ملتی


عالم فیضی


داؤد اسلوبی

 یوم پیدائش 07 جولائی 1961


زندگی اجنبی سی لگتی ہے

آپ کی اک کمی سی لگتی ہے


تم نہ آئے تو روشنی کیسی 

 دور تک تیرگی سی لگتی ہے


اس کا چہرہ ہے چاند سا چہرہ

یاد بھی چاندنی سی لگتی ہے


اسکے ہونٹوں سے پھول جھڑتے ہیں

وہ مجھے پھل جھڑی سی لگتی ہے


اسکی آنکھوں میں روشنی کم ہے

نبض میں بر ہمی سی لگتی


ختم ہوگا نہ زندگی کا سفر

 دور منزل کھڑی سی لگتی


دورِ حاضر ترا خدا حافظ

رہبری رہزنی سی لگتی ہے


وہ نہیں بزم ناز میں داؤد

ایک اس کی کمی سی لگتی ہے


داؤد اسلوبی


اقبال عظیم

 یوم پیدائش 08 جولائی 1913


مانا کہ زندگی سے ہمیں کچھ ملا بھی ہے

اس زندگی کو ہم نے بہت کچھ دیا بھی ہے


محسوس ہو رہا ہے کہ تنہا نہیں ہوں میں

شاید کہیں قریب کوئی دوسرا بھی ہے


قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں

اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے


غرقاب کر دیا تھا ہمیں ناخداؤں نے

وہ تو کہو کہ ایک ہمارا خدا بھی ہے


ہو تو رہی ہے کوشش آرائش چمن

لیکن چمن غریب میں اب کچھ رہا بھی ہے


اے قافلے کے لوگو ذرا جاگتے رہو

سنتے ہیں قافلے میں کوئی رہنما بھی ہے


ہم پھر بھی اپنے چہرے نہ دیکھیں تو کیا علاج

آنکھیں بھی ہیں چراغ بھی ہے آئنا بھی ہے


اقبالؔ شکر بھیجو کہ تم دیدہ ور نہیں

دیدہ وروں کو آج کوئی پوچھتا بھی ہے


اقبال عظیم


محمد حذیفہ

 دِکھا جو دلکش تمہارا چہرہ مریض دل کو قرار آیا

ہزار لَیلائیں ہیں جہاں میں مجھے تو بس تم پہ پیار آیا 


نشیلی آنکھیں، غزالی آنکھیں، شراب خانہ تمہاری آنکھیں

تمہاری آنکھوں کا جام پی کر ہی مجھ کو دلبر خمار آیا


سیاہ زلفیں، جمالی رخ ہے، گلابی لب ہیں ، عُنُق صراحی

حسین مُکھڑے پہ مرنے مٹنے مَیں لے کے سانسیں اُدھار آیا


کتابی رخ کا مطالعَہ ہو ، کہ نازنیں اب اُٹھا دو پردہ

 تمہاری خاطر ہی جانِ جاناں میں توڑ ساری دِوار آیا 


وہ مجھ سےجب ہم کلام ہو تو،لبوں سےاسکےہیں پھول جھڑتے

زبان شیرین و خوش بیانی ، یہ میرے حصے میں یار آیا


ہے تیری ہرنی سی چال جاناں، ادا نرالی ہے قہر ڈھاتی

تِری اداؤں پہ میرے ہمدم میں جان کرنے نثار آیا


حسین اتنا بنایا رب نے کہ چاند بھی تم پہ رشک کرتا

تمہارے جیسا نہیں ہے کوئی، میں دیکھ سارا دِیار آیا


شباب اسکا نہ پوچھ مجھ سے حذیفہ وہ تو الگ ہے سب سے

نصیب ور لوگ ہیں جو یارو، مرا بھی ان میں شمار آیا


   محمدحذیفہ


کاشی

 تھوڑی اَنا ضرور ہے مغرور تو نہیں

آزاد سا میں شخص ہوں محصور تو نہیں


سہتا رہے جفاؤں کو اُلفت کے نام پر

اب اس قدر بھی دل مرا مجبور تو نہیں


ہنس ہنس کے کیوں اٹھاؤں ترے ناز اور ستم

عاشق ہوں میں ترا کوئی مزدور تو نہیں


اک روز بھر ہی جائے گا یہ بے وفائی کا

چھوٹا سا ایک زخم ہے ناسور تو نہیں


کاشی رواں دواں ہے نئے راستوں پہ اب

 گھائل ہوا تھا دل مِرا معذور تو نہیں


"کاشی"


رتن پنڈوروی

 یوم پیدائش 07 جولائی 1907


یہ کون سا مقام ہے اے جوش بے خودی

رستہ بتا رہا ہوں ہر اک رہنما کو میں


دونوں ہی کامیاب ہوئے ہیں تلاش میں

ذات خدا ملی مجھے ذات خدا کو میں


مٹی اٹھا کے دیکھتا ہوں راہ شوق کی

بھولا نہیں ہوں جوش طلب میں فنا کو میں


ہستی فنا ہوئی تو حقیقت یہ کھل گئی

میں خود بقا ہوں کس لیے ڈھونڈوں بقا کو میں


کیوں کر میں اس کو دشمن ہستی قرار دوں

پاتا ہوں مدعا کا ذریعہ قضا کو میں


کیوں اس کی جستجو کا ہو سودا مجھے رتنؔ

مجھ سے اگر جدا ہو تو ڈھونڈوں خدا کو میں


رتن پنڈوروی


حسن عابدی

 یوم پیدائش 07 جولائی 1929


پل رہے ہیں کتنے اندیشے دلوں کے درمیاں

رات کی پرچھائیاں جیسے دیوں کے درمیاں


پھر کسی نے ایک خوں آلود خنجر رکھ دیا

خوف کے ظلمت کدے میں دوستوں کے درمیاں


کیا سنہری دور تھا ہم زرد پتوں کی طرح

در بہ در پھرتے رہے پیلی رتوں کے درمیاں


اے خدا انسان کی تقسیم در تقسیم دیکھ

پارساؤں دیوتاؤں قاتلوں کے درمیاں


آشتی کے نام پر اتنی صف آرائی ہوئی

آ گئی بارود کی خوش بو گلوں کے درمیاں


میرا چہرہ خود بھی آشوب سفر میں کھو گیا

میں یہ کس کو ڈھونڈتا ہوں منزلوں کے درمیاں


حسن عابدی


حافظ لدھیانوی

 یوم پیدائش 07 جولائی 1920


وہ قریۂ مہتاب رہے صبح و مسا یاد

کچھ بھی نہ رہے شہر تمنا کے سوا یاد


انوار کی بارش تھی سر منزل طیبہ

ہر منزل خوش دیکھ کے آتا تھا خدا یاد


اب تک ہیں نگاہوں میں در و بام حرم کے

اب تک ہے مجھے وادئ‌ رحمت کی فضا یاد


ہے سیرت اطہر مرا سرمایۂ ہستی

محبوب دو عالم کی ہے ایک ایک ادا یاد


ڈوبے نہ کبھی میرے مقدر کا ستارا

اک بار جو کر لیں مجھے محبوب خدا یاد


قربان ہوئی جاتی تھیں رحمت کی گھٹائیں

ان کانپتے ہونٹوں کا ہے انداز دعا یاد


ہر ایک کے دامن میں مرادوں کے گہر تھے

حافظؔ مجھے دربار کی ہے شان سخا یاد


حافظ لدھیانوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...