Urdu Deccan

Friday, July 16, 2021

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

 جامعہ عثمانیہ ہے نازشِ ہندوستاں 

جامعہ عثمانیہ ہے اس کی عظمت کا نشاں

 

ہے یہ میر عثمان علی کی ایک زریں یادگار

اپنی آب و تاب سے جو آج بھی ہے ضوفشاں

 

حیدرآبادی ثقافت کی ہے یہ آئینہ دار

ہے سپہر علم پر روشن جو مثل کہکشاں

 

فارغ التحصیل اس کے ہر جگہ موجود ہیں 

جن کی خدماتِ ادب ہیں اہلِ دانش پر عیاں

 

ہے یہی سردارعلی کی بھی اک علمی زادگاہ

ہیں جو ٹورانٹو میں رہ کر ناشرِ اردو زباں


ڈاکٹر منان بھی تھے اس کے پہلے ڈاکٹر

اپنی دانائی سے تھے جو مرجعِ دانشوراں


تھا حسن چشتی کا بھی عثمانیہ سے ربطِ خاص

تھے شکاگو میں جو اربابِ نظر ہے میزباں

 

اس سے وابستہ تھے برسوں ڈاکٹر فاضل حسین

آج معیاری صحافت کے ہیں جو اک ترجماں


نام گنواؤں کہاں تک اس کے شاگردوں کا میں 

جو سپہر علم و فن پر آج بھی ہیں ضوفشاں

 

سرکشن پرساد جو عثمان علی کے تھے مشیر

ان کی ہیں خدمات برقیؔ زیبِ تاریخ جہاں


ڈاکٹر احمد علی برقی ؔ اعظمی


امجد رضا فیروزآبادی

 یوم پیدائش 10 جولائی 1984


دل کسی کا جیتنا چاہو تو جیتو پیار سے

مسئلے یہ حل نہ ہوں گئے ظلم کی تلوار سے


سر جھکانے پر تجھے مجبور کر دے گا غرور

سر بلندی ہوگی حاصل ہر جگہ کردار سے


بے حیائی بک رہی ہے شہر میں کوڑی کے بھاؤ

گندگی یہ لے کے مت آنا کبھی بازار سے


جس نے عزت کی ہو حاصل جھوٹ کی بنیاد پر

بچ کے رہنا ہوگا ایسے قافلہ سالار سے 


پیار کے دو بول ہی امجد میری قیمت ہے بس

کیا خریدے گا مجھے وہ درہم و دینار سے


امجد رضا فیروزآبادی


التفات ماہر

 یوم پیدائش 10 جولائی 1965


چڑھا ہوا ہے ابھی جس کے نام کا سورج

کبھی تو ہونا ہے اس کو بھی شام کا سورج


خدا کی دین ہے یہ خاص و عام کا سورج

ہے جتنا آقا کا اتنا غلام کا سورج


جھلس رہے ہیں یہاں کتنے پھول سے چہرے

جلاۓ دیتا ہے تیرے نظام کا سورج


یہ اپنے پیچھے لہو رنگ چھوڑ جاتا ہے

غروب ہوتا ہے جب انتقام کا سورج


کچھ آفتابِ سخن ڈوب کر یوں روشن ہیں

گۓ ہیں چھوڑ کے اپنے کلام کا سورج


ابھی تو قید ہے بنگلوں میں روشنی اس کی

کبھی تو چمکے گا ماہر عوام کا سورج


التفات ماہر


اسد بھوپالی

 یوم پیدائش 10 جولائی 1921


کچھ بھی ہو وہ اب دل سے جدا ہو نہیں سکتے

ہم مجرم توہین وفا ہو نہیں سکتے


اے موج حوادث تجھے معلوم نہیں کیا

ہم اہل محبت ہیں فنا ہو نہیں سکتے


اتنا تو بتا جاؤ خفا ہونے سے پہلے

وہ کیا کریں جو تم سے خفا ہو نہیں سکتے


اک آپ کا در ہے مری دنیائے عقیدت

یہ سجدے کہیں اور ادا ہو نہیں سکتے


احباب پہ دیوانے اسدؔ کیسا بھروسہ

یہ زہر بھرے گھونٹ روا ہو نہیں سکتے


اسد بھوپالی


محسن زیدی

 یوم پیدائش 10 جولائی 1935


یہ ہیں جو آستین میں خنجر کہاں سے آئے

تم سیکھ کر یہ خوئے ستم گر کہاں سے آئے


جب تھا محافظوں کی نگہبانیوں میں شہر

قاتل فصیل شہر کے اندر کہاں سے آئے


کیا پھر مجھے یہ اندھے کنویں میں گرائیں گے

بن کر یہ لوگ میرے برادر کہاں سے آئے


یہ دشت بے شجر ہی جو ٹھہرا تو پھر یہاں

سایہ کسی شجر کا میسر کہاں سے آئے


اسلوب میرا سیکھ لیا تم نے کس طرح

لہجے میں میرا ڈھب مرے تیور کہاں سے آئے


ماضی کے آئینوں پہ جلا کون کر گیا

پیش نگاہ پھر وہی منظر کہاں سے آئے


دور خزاں میں کیسے پلٹ کر بہار آئی

پژمردہ شاخ پر یہ گل تر کہاں سے آئے


محسنؔ اس اختصار پہ قربان جائیے

کوزے میں بند ہو کے سمندر کہاں سے آئے


محسن زیدی


روش صدیقی

 یوم پیدائش 10 جولائی 1909


وہ نکہت گیسو پھر اے ہم نفساں آئی

اب دم میں دم آیا ہے اب جان میں جاں آئی


ہر طنز پہ رندوں نے سر اپنا جھکایا ہے

اس پر بھی نہ واعظ کو تہذیب مغاں آئی


جب بھی یہ خیال آیا کیا دیر ہے کیا کعبہ

ناقوس برہمن سے آواز اذاں آئی


اس شوخ کی باتوں کو دشوار ہے دہرانا

جب باد صبا آئی آشفتہ بیاں آئی


اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے

وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی


یہ خندۂ گل کیا ہے ہم نے تو یہ دیکھا ہے

کلیوں کے تبسم میں چھپ چھپ کے فغاں آئی


آباد خیال اس کا شاداں رہے یاد اس کی

اک دشمن دل آیا اک آفت جاں آئی


اشعار روشؔ سن کر توصیف و ستائش کو 

سعدیؔ کا بیاں آیا حافظؔ کی زباں آئی


روش صدیقی


انور زاہدی

 یوم پیدائش 09 جولائی 1946


ملو تو صحرا سے دریا نکال لائیں ہم

چلو جو ساتھ تو رستہ نکال لائیں ہم


نجوم شمس و قمر سبکے سب ہمارے ہیں

کہو تو کوئی ستارہ نکال لائیں ہم


پلٹ کے آتے نہیں دن گزر گئے جو بھی

سنو تو عہد جو گزرا نکال لائیں ہم


وہ ایک شھر جہاں رہ گیا ہے جان و دل

کہاں گیا وہ نگر کیا نکال لائیں ہم


گزشتہ عہد وہ دریا کا خواب سا انور

بتاو خواب سے قصہ نکال لائیں ہم


انور زاہدی


اقبال خورشید

 نبیؐ کی شان میں ہر دم کلام ہو جائے

نبیؐ کی آل کی مدحت میں شام ہو جائے


مراد دل میں لئے ہیں کھڑے زیارت کی

حضورؐ آپؐ جو کہہ دیں تو کام ہو جائے 


تمھاری آل سے نسبت ہے مجھکو اے آقاؐ

تمہارے در کے غلاموں میں نام ہو جائے


نظر کے سامنے میری ہو آپؐ کی تربت

مری حیات کا یوں اختتام ہو جائے


قرار پائے گا مولا مرا دلِ مضطر

اگر مدینے میں حاضر غلام ہو جائے


عطا ہے تجھ کو یہ خورشید شاعری تیری

تو کیوں نہ روز نبیؐ پر سلام ہو جائے


 اقبال خورشید


شاعر فتح پوری

 یوم پیدائش 09 جولائی 1939


گل بداماں حیات کیا ہوگی

اب خزاں سے نجات کیا ہوگی


کیف جاوید چاہئے مجھ کو

مستیء بے ثبات کیا ہوگی


ہر طرف چھا گئی ہے تیرہ شبی

دن جو یہ ہے تو رات کیا ہوگی


جب وہ آئیں گئے سامنے میرے

سوچتا ہوں کہ بات کیا ہوگی


لب پہ اللہ دل ہوس آلود

زاہدوں کی نجات کیا ہوگی


دیکھ کر ان کو ہوش اڑتے ہیں

حسن والوں سے بات کیا ہوگی


شاعر اس شوخ کی نگاہ کرم 

مائل التفات کیا ہوگی


شاعر فتح پوری


علامہ رشید ترابی

 یوم پیدائش 09 جولائی 1908

نظم تہنیت جوبلی


حسن خودار بنا عشق کو بیخود کر کے

مضطرب اسکو کیا کیف کے نغمہ بھر کے

اختیار اسکو ملا جبر کے پردہ سر کے

پھر تو عالم ہی بنا صدقے میں صورت گر کے


دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق بین 

ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خودبین


حسن خود بین نے بنائی ہے یہ پیاری دنیا

کیف و کم عشق کا تھا جس نے سنواری دنیا

سبق آموز محبت ہے یہ ساری دنیا

ہم ہوئے حسن کے اور ہے یہ ہماری دنیا


نگہ جلوہ شناس آج ہے عالم تیرا

ذرہ ذرہ ہے یہاں راز کا محرم تیرا


بزم ہستی میں ہیں باطن کبھی ظاہر جلوے

جلوہ میں عقل کو ہر وقت ہیں حاضر جلوے

سب یہ تنویر محبت کی ہیں خاطر جلوے 

ہائے خاکم بدہن کیسے ہیں کافر جلوے 


کیف آگین قد محبوب کی رعنائیاں ہیں

عشق کی گود میں اب حسن کی انگرائیاں ہیں


(نظم نا مکمل ہے )

علامہ رشید ترابی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...