Urdu Deccan

Friday, July 16, 2021

شجاع حیدر

 یہ دل آنسو بہا رہا ہے کیا

کوئی دل سے نکل گیا ہے کیا


مثلِ غالب سمجھ نہ پایا میں

دلِ نادان کو ہوا ہے کیا


جس کو بیعت کے واسطے کاٹا 

سر وہ نیزے پہ جھک گیا ہے کیا؟


ماں سے بچھڑے ہوئے سے مت پوچھو

کہ حفاظت کی وہ دعا ہے کیا


توڑ کر دل مرا وہ کہنے لگی

خیریت، تم کو کچھ ہوا ہے کیا؟


یعنی دینا ہے حشر میں بھی حساب

عشق کی اس قدر سزا ہے کیا


کیا کہا عشق ہو گیا ہے میاں؟

عہد مرنے کا کر لیا ہے کیا؟


تم زلیخا تو ہو مگر سوچو

آج یوسف کوئی رہا ہے کیا؟


دوست حیدر کہیں گے سن کے خبر

اچھا شاعر تھا مر چکا ہے کیا


شجاع حیدر


باسط ادیب

 ایک چہرہ گلاب جیسا ہے

یعنی وہ میرے خواب جیسا ہے


سارے منظر بدل گئے لیکن

ایک منظر سراب جیسا ہے


کون مارا گیا ہے مقتل میں 

وقت سارا عذاب جیسا ہے


سب لٹا ہم چکے محبت پر

سوختہ دل کباب جیسا ہے


میر کے راستے پہ چل باسط

حال، خانہ خراب جیسا ہے


باسط ادیب


نور محمد یاس


 دل کی بنیاد ہے قائم اسی تنویر کے ساتھ

اب یہ دیوار گرے گی تری تصویر کے ساتھ


کون ہوگا مرے احساس کی الجھن میں شریک

کس کی زنجیر کا رشتہ مری زنجیر کے ساتھ


تم کو سوچا تھا کہ تم آ گئے حیرت ہے مجھے

خواب دیکھا نہ تھا میں نے کبھی تعبیر کے ساتھ


ہمہ تن گوش ہوئی جاتی ہے کیوں بزمِ خیال

کوئی تو محوِ سخن ہے مری تصویر کے ساتھ


دھڑکنیں دل کی ہم آہنگ ہوئیں آخرِ شب

گھر کے دروازے کی بجتی ہوئی زنجیر کے ساتھ


گل کدے شہر کی تاریخ میں یوں لکھتے ہیں

ہم تو مسمار ہوئے ہر نئی تعمیر کے ساتھ


اپنے لشکر ہی کا حصّہ ہے یہ ورنہ اے یاسؔ

شاخِ گل کوئی بھی رکھتا نہیں شمشیر کے ساتھ


نور محمد یاس

کامل جنیٹوی

 کسی سے ہم کبھی بعض و عناد رکھتے نہیں

ستمگروں سے مگر اتّحاد رکھتے نہیں


ہمارے ظاہر و باطن ہیں مثلِ آئینہ

ریا کا چہروں پہ اپنے ضماد رکھتے نہیں


ہیں ارد گرد تمنّاؤں کے حسیں لشکر

ہم اپنے ساتھ کبھی انفراد رکھتے نہیں


کچھ ایسے لوگ بھی دیکھے امیرِ شہرِ سخن 

جو فکر و فن کی کوئی جائیداد رکھتے نہیں


ہے اپنا علمِ ریاضی بہت ہی مستحکم

جو منقسم ہمیں کر دے وہ عاد رکھتے نہیں


گھروں سے نکلیں جو باندھے ہوئے سروں سے کفن

وہ اپنے ذہن میں خوفِ فساد رکھتے نہیں


جہاں بھی ٹھہرے قدم ، سو گئے تھکن اوڑھے

ہم اپنے رختِ سفر میں مہاد رکھتے نہیں


وہ لوگ کرتے ملے دعوۓ مسیحائی

جو اپنے درد کا خود انسداد رکھتے نہیں


بنے جو اوروں کی تذلیل کا سبب کامل

غزل میں اپنی ہم ایسا مواد رکھتے نہیں


کاملؔ جنیٹوی


عادل اشرف

 ایسا نہیں کہ زیست سے اکتا گئے ہیں ہم 

ہجرِ فراقِ یار سے گھبرا گئے ہیں ہم 


اپنے مذاقِ رنگ پہ اترا گئے ہیں ہم 

اپنا نصاب زیست میں اپنا گئے ہیں ہم 


بزمِ حصارِ ذات میں آئے پلٹ کے پھر 

بزمِ حصارِ یار سے تنہا گئے ہیں ہم 


آب و ہوا خیال کی آئی ہے راس کیا؟

فصلِ زمینِ شعر پہ اترا گئے ہیں ہم 


ہم مثلِ آئینہ ہیں جہانِ خراب میں !

تاریکئی حیات سے دھندلا گئے ہیں ہم 


انسانیت کے قرض اتارے نہیں ابھی 

عادل وقار ِ زیست سے شرما گئے ہیں ہم 


عادل اشرف


ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

 جامعہ عثمانیہ ہے نازشِ ہندوستاں 

جامعہ عثمانیہ ہے اس کی عظمت کا نشاں

 

ہے یہ میر عثمان علی کی ایک زریں یادگار

اپنی آب و تاب سے جو آج بھی ہے ضوفشاں

 

حیدرآبادی ثقافت کی ہے یہ آئینہ دار

ہے سپہر علم پر روشن جو مثل کہکشاں

 

فارغ التحصیل اس کے ہر جگہ موجود ہیں 

جن کی خدماتِ ادب ہیں اہلِ دانش پر عیاں

 

ہے یہی سردارعلی کی بھی اک علمی زادگاہ

ہیں جو ٹورانٹو میں رہ کر ناشرِ اردو زباں


ڈاکٹر منان بھی تھے اس کے پہلے ڈاکٹر

اپنی دانائی سے تھے جو مرجعِ دانشوراں


تھا حسن چشتی کا بھی عثمانیہ سے ربطِ خاص

تھے شکاگو میں جو اربابِ نظر ہے میزباں

 

اس سے وابستہ تھے برسوں ڈاکٹر فاضل حسین

آج معیاری صحافت کے ہیں جو اک ترجماں


نام گنواؤں کہاں تک اس کے شاگردوں کا میں 

جو سپہر علم و فن پر آج بھی ہیں ضوفشاں

 

سرکشن پرساد جو عثمان علی کے تھے مشیر

ان کی ہیں خدمات برقیؔ زیبِ تاریخ جہاں


ڈاکٹر احمد علی برقی ؔ اعظمی


امجد رضا فیروزآبادی

 یوم پیدائش 10 جولائی 1984


دل کسی کا جیتنا چاہو تو جیتو پیار سے

مسئلے یہ حل نہ ہوں گئے ظلم کی تلوار سے


سر جھکانے پر تجھے مجبور کر دے گا غرور

سر بلندی ہوگی حاصل ہر جگہ کردار سے


بے حیائی بک رہی ہے شہر میں کوڑی کے بھاؤ

گندگی یہ لے کے مت آنا کبھی بازار سے


جس نے عزت کی ہو حاصل جھوٹ کی بنیاد پر

بچ کے رہنا ہوگا ایسے قافلہ سالار سے 


پیار کے دو بول ہی امجد میری قیمت ہے بس

کیا خریدے گا مجھے وہ درہم و دینار سے


امجد رضا فیروزآبادی


التفات ماہر

 یوم پیدائش 10 جولائی 1965


چڑھا ہوا ہے ابھی جس کے نام کا سورج

کبھی تو ہونا ہے اس کو بھی شام کا سورج


خدا کی دین ہے یہ خاص و عام کا سورج

ہے جتنا آقا کا اتنا غلام کا سورج


جھلس رہے ہیں یہاں کتنے پھول سے چہرے

جلاۓ دیتا ہے تیرے نظام کا سورج


یہ اپنے پیچھے لہو رنگ چھوڑ جاتا ہے

غروب ہوتا ہے جب انتقام کا سورج


کچھ آفتابِ سخن ڈوب کر یوں روشن ہیں

گۓ ہیں چھوڑ کے اپنے کلام کا سورج


ابھی تو قید ہے بنگلوں میں روشنی اس کی

کبھی تو چمکے گا ماہر عوام کا سورج


التفات ماہر


اسد بھوپالی

 یوم پیدائش 10 جولائی 1921


کچھ بھی ہو وہ اب دل سے جدا ہو نہیں سکتے

ہم مجرم توہین وفا ہو نہیں سکتے


اے موج حوادث تجھے معلوم نہیں کیا

ہم اہل محبت ہیں فنا ہو نہیں سکتے


اتنا تو بتا جاؤ خفا ہونے سے پہلے

وہ کیا کریں جو تم سے خفا ہو نہیں سکتے


اک آپ کا در ہے مری دنیائے عقیدت

یہ سجدے کہیں اور ادا ہو نہیں سکتے


احباب پہ دیوانے اسدؔ کیسا بھروسہ

یہ زہر بھرے گھونٹ روا ہو نہیں سکتے


اسد بھوپالی


محسن زیدی

 یوم پیدائش 10 جولائی 1935


یہ ہیں جو آستین میں خنجر کہاں سے آئے

تم سیکھ کر یہ خوئے ستم گر کہاں سے آئے


جب تھا محافظوں کی نگہبانیوں میں شہر

قاتل فصیل شہر کے اندر کہاں سے آئے


کیا پھر مجھے یہ اندھے کنویں میں گرائیں گے

بن کر یہ لوگ میرے برادر کہاں سے آئے


یہ دشت بے شجر ہی جو ٹھہرا تو پھر یہاں

سایہ کسی شجر کا میسر کہاں سے آئے


اسلوب میرا سیکھ لیا تم نے کس طرح

لہجے میں میرا ڈھب مرے تیور کہاں سے آئے


ماضی کے آئینوں پہ جلا کون کر گیا

پیش نگاہ پھر وہی منظر کہاں سے آئے


دور خزاں میں کیسے پلٹ کر بہار آئی

پژمردہ شاخ پر یہ گل تر کہاں سے آئے


محسنؔ اس اختصار پہ قربان جائیے

کوزے میں بند ہو کے سمندر کہاں سے آئے


محسن زیدی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...