Urdu Deccan

Friday, July 16, 2021

محمد یعقوب اطہر

 اک بار میرے سامنے دستِ حنا رہا

اُس وقت سے ہی دل میں برابر مزا رہا


تکلیف دل کی جھیلی ہے اپنی خوشی سے اب 

یہ عشق کا تو درد ہی میری دوا رہا


راضی نہ کر سکا اُسے مِنّت کے باوجود

ناحق تمام شہر کو مجھ سے گِلہ رہا


صدمے کئی ہزاروں ملے جیسے راہ میں 

جیون تمام اپنا تماشا بنا رہا 


دیکھا کبھی جو درد کا مارا ہوا کوئی 

مِنّت میں اُس کے واسطے دستِ دعا رہا 


میرا خلوص بھائی نہ میرے سمجھ سکے 

میں تو برا تھا پہلے بھی اب بھی برا رہا 


مجھ سے کہا تھا اُس نے ذرا دیر تو رُکو 

برسوں تلک میں اُس کے لئے ہی رکا رہا 


ساری فضائیں پھر تو بہت دلربا لگیں 

میرے لئے اگر کوئی بادِ صبا رہا 


تنہائیوں میں بیٹھ کے اطہر یہ سوچو تم

اپنے ہی یار سے کوئی کب تک جدا رہا؟


محمد یعقوب اطہر 


اشفاق احمد صائم

 اِس ضبطِ بے مثال پہ شاباش دیجیے

مجھ کو مرے کمال پہ شاباش دیجیے


میرا خیال تھا کہ نبھائے گا عمر بھر

مجھ کو مرے خیال پہ شاباش دیجیے


بھر ہی گیا ہے زخمِ جدائی بھی دیکھیے

اب مجھ کو اندمال پہ شاباش دیجیے


رقصِ کُناں اڑائی ہے پتھر پہ دھول وہ

مجھ کو مری دھمال پہ شاباش دیجیے


مجھ کو قدم قدم پہ جو دیتا رہا فریب

دلبر کی چال چال پہ شاباش دیجیے


میں کہہ رہا ہوں اس کو سرِ عام بے وفا

مجھ کو مری مجال پہ شاباش دیجیے


مدت کے بعد اس نے یہ پوچھا کہ ، ٹھیک ہوں؟

اب اُس کے اِس سوال پہ شاباش دیجیے


اشفاق احمد صائم


ریاض خازم

 زندگی کیا بتائی ہے ہم نے

بس ندامت اٹھائی ہے ہم نے


اتنے مایوس ہیں نصیب سے ہم

اپنی قسمت رلائی ہے ہم نے


جب کوئی فائدہ نہیں ہونا

بے دلی کیوں سنائی ہے ہم نے


ہم کسی کے تو ہو گئے ہوتے

زندگی کیوں گنوائی ہے ہم نے


اس نے تنہا کہا ہمیں حازم

اپنی وحشت جَتائی ہے ہم نے


ریاض حازم


محمد عارف


 جب بھی دے بھر کے دے خالی نہ دے جام اے ساقی

بادہ نوشی تو نہ کر مجھ پہ حرام اے ساقی


غم غلط کرنے کو، آیا ہوں تری محفل میں

دو گھڑی، تُو جو کہے، کر لوں قیام اے ساقی


پینے آتے ہیں، چلے جاتے ہیں، پی کر میخوار

کس کو میخانے نے بخشا ہے دوام اے ساقی


میکدے سے تجھے جانے کی پڑی ہے جلدی

جب کہ آیا بھی نہیں دَور میں جام اے ساقی


مے فروشی کے عوض تجھ کو وہاں خُلد مِلے

تیرا دنیا میں بھی ہو اُونچا مقام اے ساقی


کُھل کے آئی بھی نہیں رات ابھی جوبن پر

جلد کیوں ڈوب گیا ماہِ تمام اے ساقی


شیشہ و جام چھلکنے کو ہیں کب سے بیتاب

کر دے پِھر نام مِرے آج کی شام اے ساقی


محمد عارف

مسرور نظامی

 حسن آیا ہے بازار تک 

بات پہنچے خریدار تک 


ہم نے ہتھیار ڈالے نہیں 

گر گئی سر سے دستار تک


کون اترا ہے میدان میں 

خوف میں ہے جو سالار تک


سگ بنے دیکھو ایوان کے

خود پرست اور خود دار تک


سر زرا کیا جھکا' دنیا کے 

ہاتھ پہنچے ہیں دستار تک


 راست بازی و حق گوئی ہی

آج لائی مجھے دار تک

 

ہفتہ بھر دل تڑپتا رہا 

وعدے پر ان کے اتوار تک


حسن آئے عیادت کرے 

ہو گیا عشق بیمار تک


  میرے الفاظ لہجہ نہیں 

اس کو ازبر تھے اشعار تک 


بیٹا آیا نہ اس بار بھی 

منتظر ماں تھی تہوار تک


ایک دوجے کی کرکے مدد

چیونٹیاں پہنچیں انبار تک 


لادے خاکِ درِ جانِ جاں 

کوئی مسرور بیمار تک


مسرور نظامی


شجاع حیدر

 یہ دل آنسو بہا رہا ہے کیا

کوئی دل سے نکل گیا ہے کیا


مثلِ غالب سمجھ نہ پایا میں

دلِ نادان کو ہوا ہے کیا


جس کو بیعت کے واسطے کاٹا 

سر وہ نیزے پہ جھک گیا ہے کیا؟


ماں سے بچھڑے ہوئے سے مت پوچھو

کہ حفاظت کی وہ دعا ہے کیا


توڑ کر دل مرا وہ کہنے لگی

خیریت، تم کو کچھ ہوا ہے کیا؟


یعنی دینا ہے حشر میں بھی حساب

عشق کی اس قدر سزا ہے کیا


کیا کہا عشق ہو گیا ہے میاں؟

عہد مرنے کا کر لیا ہے کیا؟


تم زلیخا تو ہو مگر سوچو

آج یوسف کوئی رہا ہے کیا؟


دوست حیدر کہیں گے سن کے خبر

اچھا شاعر تھا مر چکا ہے کیا


شجاع حیدر


باسط ادیب

 ایک چہرہ گلاب جیسا ہے

یعنی وہ میرے خواب جیسا ہے


سارے منظر بدل گئے لیکن

ایک منظر سراب جیسا ہے


کون مارا گیا ہے مقتل میں 

وقت سارا عذاب جیسا ہے


سب لٹا ہم چکے محبت پر

سوختہ دل کباب جیسا ہے


میر کے راستے پہ چل باسط

حال، خانہ خراب جیسا ہے


باسط ادیب


نور محمد یاس


 دل کی بنیاد ہے قائم اسی تنویر کے ساتھ

اب یہ دیوار گرے گی تری تصویر کے ساتھ


کون ہوگا مرے احساس کی الجھن میں شریک

کس کی زنجیر کا رشتہ مری زنجیر کے ساتھ


تم کو سوچا تھا کہ تم آ گئے حیرت ہے مجھے

خواب دیکھا نہ تھا میں نے کبھی تعبیر کے ساتھ


ہمہ تن گوش ہوئی جاتی ہے کیوں بزمِ خیال

کوئی تو محوِ سخن ہے مری تصویر کے ساتھ


دھڑکنیں دل کی ہم آہنگ ہوئیں آخرِ شب

گھر کے دروازے کی بجتی ہوئی زنجیر کے ساتھ


گل کدے شہر کی تاریخ میں یوں لکھتے ہیں

ہم تو مسمار ہوئے ہر نئی تعمیر کے ساتھ


اپنے لشکر ہی کا حصّہ ہے یہ ورنہ اے یاسؔ

شاخِ گل کوئی بھی رکھتا نہیں شمشیر کے ساتھ


نور محمد یاس

کامل جنیٹوی

 کسی سے ہم کبھی بعض و عناد رکھتے نہیں

ستمگروں سے مگر اتّحاد رکھتے نہیں


ہمارے ظاہر و باطن ہیں مثلِ آئینہ

ریا کا چہروں پہ اپنے ضماد رکھتے نہیں


ہیں ارد گرد تمنّاؤں کے حسیں لشکر

ہم اپنے ساتھ کبھی انفراد رکھتے نہیں


کچھ ایسے لوگ بھی دیکھے امیرِ شہرِ سخن 

جو فکر و فن کی کوئی جائیداد رکھتے نہیں


ہے اپنا علمِ ریاضی بہت ہی مستحکم

جو منقسم ہمیں کر دے وہ عاد رکھتے نہیں


گھروں سے نکلیں جو باندھے ہوئے سروں سے کفن

وہ اپنے ذہن میں خوفِ فساد رکھتے نہیں


جہاں بھی ٹھہرے قدم ، سو گئے تھکن اوڑھے

ہم اپنے رختِ سفر میں مہاد رکھتے نہیں


وہ لوگ کرتے ملے دعوۓ مسیحائی

جو اپنے درد کا خود انسداد رکھتے نہیں


بنے جو اوروں کی تذلیل کا سبب کامل

غزل میں اپنی ہم ایسا مواد رکھتے نہیں


کاملؔ جنیٹوی


عادل اشرف

 ایسا نہیں کہ زیست سے اکتا گئے ہیں ہم 

ہجرِ فراقِ یار سے گھبرا گئے ہیں ہم 


اپنے مذاقِ رنگ پہ اترا گئے ہیں ہم 

اپنا نصاب زیست میں اپنا گئے ہیں ہم 


بزمِ حصارِ ذات میں آئے پلٹ کے پھر 

بزمِ حصارِ یار سے تنہا گئے ہیں ہم 


آب و ہوا خیال کی آئی ہے راس کیا؟

فصلِ زمینِ شعر پہ اترا گئے ہیں ہم 


ہم مثلِ آئینہ ہیں جہانِ خراب میں !

تاریکئی حیات سے دھندلا گئے ہیں ہم 


انسانیت کے قرض اتارے نہیں ابھی 

عادل وقار ِ زیست سے شرما گئے ہیں ہم 


عادل اشرف


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...