اک بار میرے سامنے دستِ حنا رہا
اُس وقت سے ہی دل میں برابر مزا رہا
تکلیف دل کی جھیلی ہے اپنی خوشی سے اب
یہ عشق کا تو درد ہی میری دوا رہا
راضی نہ کر سکا اُسے مِنّت کے باوجود
ناحق تمام شہر کو مجھ سے گِلہ رہا
صدمے کئی ہزاروں ملے جیسے راہ میں
جیون تمام اپنا تماشا بنا رہا
دیکھا کبھی جو درد کا مارا ہوا کوئی
مِنّت میں اُس کے واسطے دستِ دعا رہا
میرا خلوص بھائی نہ میرے سمجھ سکے
میں تو برا تھا پہلے بھی اب بھی برا رہا
مجھ سے کہا تھا اُس نے ذرا دیر تو رُکو
برسوں تلک میں اُس کے لئے ہی رکا رہا
ساری فضائیں پھر تو بہت دلربا لگیں
میرے لئے اگر کوئی بادِ صبا رہا
تنہائیوں میں بیٹھ کے اطہر یہ سوچو تم
اپنے ہی یار سے کوئی کب تک جدا رہا؟
محمد یعقوب اطہر