Urdu Deccan

Friday, July 16, 2021

حنا کوثر

 حَشمت و جَاہ کی توقِیر بدل جاتی ہے

بَخت ڈَھل جاتے ہیں ' تقدیر بدل جاتی ہے


وَجد میں ہوش کہاں رہتا ہے دِیوانے کو

رَقص میں پاؤں کی زنجیر بدل جاتی ہے


روز بدلے ہوئے لگتے ہیں مَنَاظَر مُجھ کو

روز ہی شہر کی تعمِیر بدل جاتی ہے


میں بناتی ہوں جوانی کے خَد و خَال مگر

عُمر ڈَھلتی ہے تو تصویر بدل جاتی ہے


تیرے چُھوتے ہی مُحبت کے مسِیحا میرے

جِسم میں خُون کی تاثِیر بدل جاتی ہے


کُچھ بھی رہتا نہیں تادیر مُحبت کے سِوا

نَقش مِٹ جاتے ہیں تحریر بدل جاتی ہے


حنا کوثر


صولت زیدی

 یوم پیدائش 12 جولائی 1936


عادت مری دنیا سے چھپانے کی نہیں تھی

وہ بات بھی کہہ دی جو بتانے کی نہیں تھی


میں خوش ہوں بہت گرد کو آئینے پہ رکھ کر

دی وہ مجھے صورت جو دکھانے کی نہیں تھی


ہم کھا گئے دھوکا تری آنکھوں کی نمی سے

وہ چوٹ دکھا دی جو دکھانے کی نہیں تھی


اچھا ہوا نیند آ گئی ارباب وفا کو

آگے یہ کہانی بھی سنانے کی نہیں تھی


یوں دل کو کیا شعلۂ غم تیرے حوالے

اس گھر میں کوئی چیز بچانے کی نہیں تھی


کچھ اس لئے اپنا نہ سکا اس کو زمانہ

صولتؔ کی جو عادت تھی زمانے کی نہیں تھی


صولت زیدی


اثر لکھنوی

 یوم پیدائش 12 جولائی 1885


حجاب رنگ و بو ہے اور میں ہوں

یہ دھوکا تھا کہ تو ہے اور میں ہوں


مقام بے نیازی آ گیا ہے

وہ جان آرزو ہے اور میں ہوں


فریب شوق سے اکثر یہ سمجھا

کہ وہ بیگانہ خو ہے اور میں ہوں


کبھی سودا تھا تیری جستجو کا

اب اپنی جستجو ہے اور میں ہوں


کبھی دیکھا تھا اک خواب محبت

اب اس کی آرزو ہے اور میں ہوں


فقط اک تم نہیں تو کچھ نہیں ہے

چمن ہے آب جو ہے اور میں ہوں


پھر اس کے بعد ہے اس ہو کا عالم

بس اک حد تک ہی تو ہے اور میں ہوں


اثر لکھنوی


نازش پرتاپ گڑھی

 یوم پیدائش 12 جولائی 1924


پھوٹ چکی ہیں صبح کی کرنیں سورج چڑھتا جائے گا

رات تو خود مرتی ہے ستارو تم کو کون بچائے گا


جو ذرہ جنتا میں رہے گا وہ تارا بن جائے گا

جو سورج ان کو بھولے گا وہ آخر بجھ جائے گا


تنہا تنہا رو لینے سے کچھ نہ بنے گا کچھ نہ بنا

مل جل کر آواز اٹھاؤ پربت بھی ہل جائے گا


مانا آج کڑا پہرا ہے ہم بپھرے انسانوں پر

لیکن سوچو تنکا کب تک طوفاں کو ٹھہرائے گا


کیوں چنتا زنجیروں کی ہتھکڑیوں سے ڈرنا کیسا

تم انگارہ بن جاؤ لوہا خود ہی گل جائے گا


جنتا کی آواز دبا دے یہ ہے کس کے بس کی بات

ہر وہ شیشہ ٹوٹے گا جو پتھر سے ٹکرائے گا


پونجی پتیو یاد رکھو وہ دن بھی اب کچھ دور نہیں

بند تجوری میں ہر سکہ انگارہ بن جائے گا


دکھ میں رونا دھونا کیسا مورکھ انساں ہوش میں آ

تو اس بھٹی میں تپ تپ کر کندن بنتا جائے گا


تن کے ناسوروں کو اجلے کپڑوں سے ڈھانپا لیکن

کس پردے میں لے جا کر تو من کا کوڑھ چھپائے گا


کس نے سمجھا ہے ڈھلتے سورج کا یہ سندیش یہاں

جو بھی بول بڑا بولے گا اک دن منہ کی کھائے گا


نازش پرتاپ گڑھی


دعبل شاہدی

 وہ حرف حرف سبھی کے سخن میں رہتا تھا

عجیب شخص تھا ہر انجمن میں رہتا تھا


اُسے نہ ڈھونڈ سکی آج تک کسی کی نظر 

وہ آفتاب کی ہر اک کرن میں میں رہتا تھا


میں اُس کے عشق کی گہرائیاں سمجھ نہ سکا

وہ عطر بن کی میرے پیراہن میں رہتا تھا


اُسی کا نام مہکتا تھا میری سانسوں میں 

وہ بوئے گُل کی طرح جو چمن رہتا تھا 


خزاں نے لوٹ لیا آ کے اُس گلِ تر کو 

کہ جس کا سارا قبیلہ چمن میں رہتا تھا


وہ میری فکر کی دنیا کا بن گیا موضوع

جو میری وسعتِ ذوقِ سخن میں رہتا تھا


لرزنے لگتی تھیں روحیں بھی سورماؤں کی 

قدم جمائے ہوے جب وہ رن میں رہتا تھا 

 

یقیں کسی کا کسی کا گماں تھا وہ دعبل

کسی کے دل میں کسی کے دہن میں رہتا تھا


دعبل شاہدی


محمد یعقوب اطہر

 اک بار میرے سامنے دستِ حنا رہا

اُس وقت سے ہی دل میں برابر مزا رہا


تکلیف دل کی جھیلی ہے اپنی خوشی سے اب 

یہ عشق کا تو درد ہی میری دوا رہا


راضی نہ کر سکا اُسے مِنّت کے باوجود

ناحق تمام شہر کو مجھ سے گِلہ رہا


صدمے کئی ہزاروں ملے جیسے راہ میں 

جیون تمام اپنا تماشا بنا رہا 


دیکھا کبھی جو درد کا مارا ہوا کوئی 

مِنّت میں اُس کے واسطے دستِ دعا رہا 


میرا خلوص بھائی نہ میرے سمجھ سکے 

میں تو برا تھا پہلے بھی اب بھی برا رہا 


مجھ سے کہا تھا اُس نے ذرا دیر تو رُکو 

برسوں تلک میں اُس کے لئے ہی رکا رہا 


ساری فضائیں پھر تو بہت دلربا لگیں 

میرے لئے اگر کوئی بادِ صبا رہا 


تنہائیوں میں بیٹھ کے اطہر یہ سوچو تم

اپنے ہی یار سے کوئی کب تک جدا رہا؟


محمد یعقوب اطہر 


اشفاق احمد صائم

 اِس ضبطِ بے مثال پہ شاباش دیجیے

مجھ کو مرے کمال پہ شاباش دیجیے


میرا خیال تھا کہ نبھائے گا عمر بھر

مجھ کو مرے خیال پہ شاباش دیجیے


بھر ہی گیا ہے زخمِ جدائی بھی دیکھیے

اب مجھ کو اندمال پہ شاباش دیجیے


رقصِ کُناں اڑائی ہے پتھر پہ دھول وہ

مجھ کو مری دھمال پہ شاباش دیجیے


مجھ کو قدم قدم پہ جو دیتا رہا فریب

دلبر کی چال چال پہ شاباش دیجیے


میں کہہ رہا ہوں اس کو سرِ عام بے وفا

مجھ کو مری مجال پہ شاباش دیجیے


مدت کے بعد اس نے یہ پوچھا کہ ، ٹھیک ہوں؟

اب اُس کے اِس سوال پہ شاباش دیجیے


اشفاق احمد صائم


ریاض خازم

 زندگی کیا بتائی ہے ہم نے

بس ندامت اٹھائی ہے ہم نے


اتنے مایوس ہیں نصیب سے ہم

اپنی قسمت رلائی ہے ہم نے


جب کوئی فائدہ نہیں ہونا

بے دلی کیوں سنائی ہے ہم نے


ہم کسی کے تو ہو گئے ہوتے

زندگی کیوں گنوائی ہے ہم نے


اس نے تنہا کہا ہمیں حازم

اپنی وحشت جَتائی ہے ہم نے


ریاض حازم


محمد عارف


 جب بھی دے بھر کے دے خالی نہ دے جام اے ساقی

بادہ نوشی تو نہ کر مجھ پہ حرام اے ساقی


غم غلط کرنے کو، آیا ہوں تری محفل میں

دو گھڑی، تُو جو کہے، کر لوں قیام اے ساقی


پینے آتے ہیں، چلے جاتے ہیں، پی کر میخوار

کس کو میخانے نے بخشا ہے دوام اے ساقی


میکدے سے تجھے جانے کی پڑی ہے جلدی

جب کہ آیا بھی نہیں دَور میں جام اے ساقی


مے فروشی کے عوض تجھ کو وہاں خُلد مِلے

تیرا دنیا میں بھی ہو اُونچا مقام اے ساقی


کُھل کے آئی بھی نہیں رات ابھی جوبن پر

جلد کیوں ڈوب گیا ماہِ تمام اے ساقی


شیشہ و جام چھلکنے کو ہیں کب سے بیتاب

کر دے پِھر نام مِرے آج کی شام اے ساقی


محمد عارف

مسرور نظامی

 حسن آیا ہے بازار تک 

بات پہنچے خریدار تک 


ہم نے ہتھیار ڈالے نہیں 

گر گئی سر سے دستار تک


کون اترا ہے میدان میں 

خوف میں ہے جو سالار تک


سگ بنے دیکھو ایوان کے

خود پرست اور خود دار تک


سر زرا کیا جھکا' دنیا کے 

ہاتھ پہنچے ہیں دستار تک


 راست بازی و حق گوئی ہی

آج لائی مجھے دار تک

 

ہفتہ بھر دل تڑپتا رہا 

وعدے پر ان کے اتوار تک


حسن آئے عیادت کرے 

ہو گیا عشق بیمار تک


  میرے الفاظ لہجہ نہیں 

اس کو ازبر تھے اشعار تک 


بیٹا آیا نہ اس بار بھی 

منتظر ماں تھی تہوار تک


ایک دوجے کی کرکے مدد

چیونٹیاں پہنچیں انبار تک 


لادے خاکِ درِ جانِ جاں 

کوئی مسرور بیمار تک


مسرور نظامی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...