Urdu Deccan

Saturday, July 31, 2021

سلمان اختر

 یوم پیدائش 31 جولائی 1946


وہ پاس رہ کے بھی مجھ میں سما نہیں سکتا

وہ مدتوں نہ ملے دور جا نہیں سکتا


وہ ایک یاد جو دل سے مٹی نہیں اب تک

وہ ایک نام جو ہونٹوں پہ آ نہیں سکتا


وہ اک ہنسی جو کھنکتی ہے اب بھی کانوں میں

وہ اک لطیفہ جو اب یاد آ نہیں سکتا


وہ ایک خواب جو پھر لوٹ کر نہیں آیا

وہ اک خیال جسے میں بھلا نہیں سکتا


وہ ایک شعر جو میں نے کہا نہیں اب تک

وہ ایک راز جسے میں چھپا نہیں سکتا


سلمان اختر


اظہر ادیب

 یوم پیدائش 31 جولائی 1945


کچھ اب کے رسم جہاں کے خلاف کرنا ہے

شکست دے کے عدو کو معاف کرنا ہے


ہوا کو ضد کہ اڑائے گی دھول ہر صورت

ہمیں یہ دھن ہے کہ آئینہ صاف کرنا ہے


وہ بولتا ہے تو سب لوگ ایسے سنتے ہیں

کہ جیسے اس نے کوئی انکشاف کرنا ہے


مجھے پتہ ہے کہ اپنے بیان سے اس نے

کہاں کہاں پہ ابھی انحراف کرنا ہے


چراغ لے کے ہتھیلی پہ گھومنا ایسے

ہوائے تند کو اپنے خلاف کرنا ہے


وہ جرم ہم سے جو سرزد نہیں ہوئے اظہرؔ

ابھی تو ان کا ہمیں اعتراف کرنا ہے


اظہر ادیب


جمیل دوشی

 یوم پیدائش 15 جولائی 1951


تیری طرف ہوں اور کنارے کھڑا ہوں میں 

اب یہ گلہ نہ کرنا ادھر جا ملا ہوں میں


میری شکست پر ہی اگر منحصر ہے امن

تو لے بغیر شرط سپر ڈالتا ہوں


وہ ہے کہ مجھ سے روٹھ گیا ہے بغیر بات

میں ہوں اسے بھی اپنی خطا مانتا ہوں میں


میں سوچتا ہوں میرے سوا سب سکوں سے ہیں

اور پھر یہ سوچتا ہوں غلط سوچتا ہوں میں 


میں اپنے آپ خود کہیں چھپ جاتا ہوں جمیل

پھر خود کو پاگلوں کی طرح ڈھونڈتا ہوں میں 


جمیل دوشی


غلام جیلانی قمر

 یوم پیدائش 01 فروری 2002


دل کی بے چارگی سے الجھا ہوں

یعنی میں عاشقی سے الجھا ہوں


آدمی آدمی کو ہے معلوم

میں کسی آدمی سے الجھاہوں


تب سے الجھن نہیں مجھے کوئی

جب سےمیں عاشقی سےالجھا ہوں


مجھ کو الجھن ہوئی الجھنے میں

میں بڑی سادگی سے الجھا ہوں


بجھ نہ جائے کہیں چراغ سحر

آج میں چاندنی سے الجھاہوں


باطنی تو تری خدا جانے 

میں تری ظاہری سےالجھاہوں


غلام جیلانی قمر


آلوک یادو

 یوم پیدائش 30 جولائی 1960


فیصلہ ممکن ہے یوں منصف اگر عادل نہ ہو

قتل تو ہوتے رہیں ثابت کوئی قاتل نہ ہو


مشکلیں آساں نہ ہوں میری تو مجھ کو غم نہیں

پر جو ہے آساں کم از کم وہ تو اب مشکل نہ ہو


دفن ہیں دفتر کی فائل میں ہزاروں مسئلے

ایسا لگتا ہے کہ جیسے قبر ہو فائل نہ ہو


ختم ہونے کو سفر ہے ساتھ چھوٹا جائے ہے

چاہتا ہے دل مرا منزل ابھی حاصل نہ ہو


عشق ہے ایسا سفر جس کی کوئی منزل نہیں

یعنی اک کشتی کہ جس کے واسطے ساحل نہ ہو


آلوک یادو


واجد علی شاہ

 یوم پیدائش 30 جولائی 1823


سہے غم پئے رفتگاں کیسے کیسے

مرے کھو گئے کارواں کیسے کیسے


وہ چتون وہ ابرو وہ قد یاد سب ہے

سناؤں میں گزرے بیاں کیسے کیسے


مرے داغ سوزاں کا مضموں نہ سوچو

جلے کہہ کے آتش‌ زباں کیسے کیسے


رہا عشق سے نام مجنوں کا ورنہ

تہ خاک ہیں بے نشاں کیسے کیسے


شب وصل میں مہ کو عریاں کریں گے

عیاں ہوں گے راز نہاں کیسے کیسے


کمر یار کی ناتوانی میں ڈھونڈی

توہم ہوئے درمیاں کیسے کیسے


کلیجے میں اخترؔ پھپھولے پڑے ہیں

مرے اٹھ گئے قدرداں کیسے کیسے


واجد علی شاہ اختر


ماہر القادری

 یوم پیدائش 30 جولائی 1906


ساقی کی نوازش نے تو اور آگ لگا دی

دنیا یہ سمجھتی ہے مری پیاس بجھا دی


ایک بار تجھے عقل نے چاہا تھا بھلانا

سو بار جنوں نے تری تصویر دکھا دی


اس بات کو کہتے ہوئے ڈرتے ہیں سفینے

طوفاں کو خودی دامن ساحل نے ہوا دی


مانا کہ میں پامال ہوا زخم بھی کھائے

اوروں کے لیے راہ تو آسان بنا دی


اتنی تو مئے ناب میں گرمی نہیں ہوتی

ساقی نے کوئی چیز نگاہوں سے ملا دی


وہ چین سے بیٹھے ہیں مرے دل کو مٹا کر

یہ بھی نہیں احساس کہ کیا چیز مٹا دی


اے باد چمن تجھ کو نہ آنا تھا قفس میں

تو نے تو مری قید کی میعاد بڑھا دی


لے دے کے ترے دامن امید میں ماہرؔ

ایک چیز جوانی تھی جوانی بھی لٹا دی


ماہر القادری


سید رئیس احمد

 یوم پیدائش 23 فروری 1992


ایسی چاہت مجھے عطا کردے

عشق ہو جائے تو فنا کردے 


قوم و ملت کا جذبہ زندہ رہے

دل میں تابندہ مدعا کردے


عقدۂ زیست مجھ پہ کھل جائے

تو، حقیقت سے آشنا کردے


 جو بھی دیکھے مجھے سنور جائے

اے خدا مجھکو آئینہ کردے


شہر کا شہر ہو گیا ویران

اس کو پھر سےچمن نما کردے


جھوٹ کے سامنے نہ سر خم ہو

اپنے قد سے مجھے بڑا کردے


ہر طرف تیرگی کا غلبہ ہے

کوئی روشن یہاں دیا کردے


مجھکو سید رئیس کہتے ہیں

دل رئیسانہ اے خدا کردے


سید رئیس احمد


ضمیر قیس

 یوم پیدائش 29 جولائی 1975


ترے درویش جو احساس ِ زیاں رکھتے ہیں

ایسے طوفان ، سمندر بھی کہاں رکھتے ہیں


تم یہ مرجھائے ہوئے پھول کہاں لے آئے ؟

ہم تو متروک صحیفوں کو یہاں رکھتے ہیں


بیٹھ جاتے ہیں درختوں کی گھنی چھاؤں میں

بوڑھے ماں باپ کی یادوں کو جواں رکھتے ہیں


اب تو ہر شخص ہی اندازہ لگا لیتا ہے

ہم اذیت ہو کہ خواہش ہو ، نہاں رکھتے ہیں


وہ بھی لب ہیں جو مٹا دیتے ہیں خود گھونٹ کی پیاس

وہ بھنور بھی ہیں جو کشتی کو رواں رکھتے ہیں


سب کی قسمت میں نہیں ہوتا ہے پنجرے کا سکون

کچھ پرندے ہیں جو محفوظ مکاں رکھتے ہیں


ہم فقیروں کی اداسی نہیں جانے والی

ہم بہاروں سے چھپا کر یہ خزاں رکھتے ہیں


بند کی جاتی نہیں کوئی اچانک سے کتاب

عشق رستے میں بھی چھوڑیں تو نشاں رکھتے ہیں


جانے بازار میں کیا شعبدہ برداری ہے !

دام بڑھ جاتے ہیں انگلی کو جہاں رکھتے ہیں


ہم بھی شانوں کے فرشتوں کی طرح ہیں جو ضمیر

لکھتے سب کچھ ہیں مگر بند زباں رکھتے ہیں


ضمیر قیس


عامر قدوائی

 یوم پیدائش 29 جولائی 1952  


دعائیں مانگ رہے ہیں سبھی سحر کے لئے

بہت ضروری ہے سورج نیا بشر کے لئے


زمین بانجھ نہ ہو جائے شدتِ غم سے

ابھی سے فکر کرو اس کے بال و پر کے لئے


خلوصِ دل سے ملو وہ سنوار دے گا تمہیں

نہیں ہے کام یہ مشکل ستارہ گر کے لئے


بہا لے اشکِ ندامت وہ بخش دے گا تجھے

کھلا ہوا ہے ابھی در گناہ گر کے لئے


اندھیرے کاٹ کے پھر آسماں کرو روشن

کہ روشنی بھی ضروری ہے ہر نگر کے لئے


یہ مہر و ماہ سبھی کھو چکے چمک اپنی

نئے چراغ ضروری ہیں اب سفر کے لئے


  عامر قدوائی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...