Urdu Deccan

Monday, August 9, 2021

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

 یاد رفتگاں : بیاد شکیل بدایونی بمناسبت یوم تولد

03 اگست 1916


رونق شہر بدایوں تھے شکیل

ان کا فن ہے ان کی عظمت کی دلیل


ان کی ہےمرہون اردو شاعری 

روح پرور ان کی ہے فکر جمیل


ان کی غزلیں ہیں حدیث دلبری

وہ ستم دیدہ دلوں کے تھے وکیل


ان کے نغمے ہیں سرود سرمدی

فلمی دنیا میں شکل سلسبیل


عزم تھا ان کا بہت کچھ وہ کریں

لے کے آٸے تھے مگر عمر قلیل


دے جزاٸے خیر انھیں اس کی خدا

کارنامے ان کے ہیں برقی جلیل


احمد علی برقی اعظمی 


ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

 یاد رفتگاں : بیاد ممتاز ماہر لسانیات اردو پروفیسر نصیر احمد خان مرحوم

تاریخ وفات : 3 اگست ٢٠٢١


جہاں سےہوگئے رخصت نصیر احمد خاں

لسانیات پہ جن کی کتب ہیں ورد زباں


تھی ان کی ذات گرامی وقار جے این یو

تھے ان کے کام سے واقف تمام اہل جہاں


انھیں زبان وبیاں پر عبور تھا حاصل

نگارشات سے ان کی عیاں ہے روح زماں


لسانیات پہ ان کی کتب ہیں لاثانی

تھے اج عصری ادب میں وہ جس کی روح رواں


کئے جو کام ہیں تاریخ ساز اردو میں

تھا ان کا رخش قلم عمر بھر رواں و دواں


ہو ان کی روح کو حاصل سکون جنت میں

خدا کے فضل سے راس آئے ان کو باغ جناں


تھےایسے ماہر اسلوبیات وہ برقی

وفات جن کی ہے اردو کا اک عظیم زیاں


احمد علی برقی اعظمی 


جاذب قریشی

 یوم پیدائش 03 اگست 1940


جب تمہیں یاد کیا رنج ہوا بھول گئے

ہم اندھیروں میں اجالے کی فضا بھول گئے


تم سے بچھڑے تھے تو جینے کا چلن یاد نہ تھا

تم کو دیکھا ہے تو مرنے کی دعا بھول گئے


تیرے آنسو تھے کہ بے داغ ستاروں کے چراغ

عمر بھر کے لئے ہم اپنی سزا بھول گئے


ہم خیالوں میں تمہیں یاد کئے جاتے ہیں

اور تم دل کے دھڑکنے کی صدا بھول گئے


پیار میں کوئی فصیلیں جو اٹھائے بھی تو کیا

تم تو خود لذت اسلوب وفا بھول گئے


کسی مہکی ہوئی چھاؤں میں ٹھہر کے ہم بھی

سنگ دل وقت کا انداز جفا بھول گئے


کتنے نادان ہیں وہ اہل محبت جاذبؔ

جو ہر اک بات محبت کے سوا بھول گئے


جاذب قریشی


توصیف تبسم

 یوم پیدائش 03 اگست 1928


کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں

فرش شبنم سے اٹھیں اور گل تر ہو جائیں


دیکھنے والی اگر آنکھ کو پہچان سکیں

رنگ خود پردۂ تصویر سے باہر ہو جائیں


تشنگی جسم کے صحرا میں رواں رہتی ہے

خود میں یہ موج سمو لیں تو سمندر ہو جائیں


وہ بھی دن آئیں یہ بے کار گزرتے شب و روز

تیری آنکھیں ترے بازو ترا پیکر ہو جائیں


اپنی پلکوں سے جنہیں نوچ کے پھینکا ہے ابھی

کیا کرو گے جو یہی خواب مقدر ہو جائیں


جو بھی نرمی ہے خیالوں میں نہ ہونے سے ہے

خواب آنکھوں سے نکل جائیں تو پتھر ہو جائیں


توصیف تبسم


شکیل بدایونی

 یوم پیدائش 03 اگست 1916


بے خودی میں کیا بتائیں ہم کہ ہم نے کیا کیا

جس طرف جلوہ تیرا آیا نظر سجدہ کیا 


کر کے نالہ ہجر طیبہ میں مجھے رُسوا کیا 

اضطرابِ دردِ دل یہ ہائے تو نے کیا کِیا 


جلوہء در پردہ دیکھا ہو گئے بے خود کلیم 

عرش پر دیدارِ حق آقا نے بے پردہ کیا 


بت گرے بتخانے ٹوٹے کلمہ توحید سے 

حشر تم نے کائناتِ کفر میں برپا کیا 


خلوتِ عرش بریں سے تم نے آ کر دہر میں 

دین کی تبلیغ کی اسلام کا چرچا کیا 


چشمے پتھر سے اُبلنا عین فطرت ہے کلیم 

دستِ رحمت سے رواں سرکار نے دریا کیا 


دیکھ کر ہم عاصیوں پر لطف و رحمت کی نظر 

بخششِ اُمت کا حق نے آپ سے وعدہ کیا 


آج بھی ہے اے خوشا قسمت امید مغفرت 

محو دل سے تیری رحمت نے غمِ فردا کیا 


جلوہء روئے نبی نے دل میں آ کر اے شکیلؔ 

عرش کے انوار سے روشن میرا سینہ کیا 


شکیل بدایونی


انوری بیگم


 یوم پیدائش 15 مارچ 1959


جانے کیوں کر اس قدر سہما ہوا ہے آئینہ

آئینے کو دیکھ کر بھی ڈر رہا ہے آئینہ


کیا کوئی معصوم سی صورت نظر میں آ گئی

کیوں سوالوں میں الجھ کر رہ گیا ہے آئینہ


آپ اپنے آپ کو اس سے چھپا سکتے نہیں

آپ کی اک اک ادا سے آشنا ہے آئینہ


خواہشوں کے جال میں الجھا ہوا ہے ہر بشر

کون کتنا بے غرض ہے جانتا ہے آئینہ


آشیاں میرا جلایا نوچ ڈالے پر مرے

آپ کو اس حال میں بھی دیکھتا ہے آئینہ


اس لئے سب نے نگاہوں سے گرایا ہے اسے

جس کی جیسی شکل ہے وہ بولتا ہے آئینہ


ہاتھ میں پتھر لئے کیوں بڑھ رہے ہو اس طرف

چوٹ کھا کر خود بھی پتھر بن چکا ہے آئینہ


ظلم کی تلوار کے سائے میں بھی ہوں سجدہ ریز

انوریؔ ہر حال میں پہچانتا ہے آئینہ


انوری بیگم

علی افتخار جعفری

 یوم پیدائش 02 آگسٹ 1969


رنگ محفل سے فزوں تر مری حیرانی ہے

پیرہن باعث عزت ہے نہ عریانی ہے


نیند آتی ہے مگر جاگ رہا ہوں سر خواب

آنکھ لگتی ہے تو یہ عمر گزر جانی ہے


اور کیا ہے تری دنیا میں سوائے من و تو

منت غیر کی ذلت ہے جہاں بانی ہے


چوم لو اس کو اسی عالم مدہوشی میں

آخر خواب وہی بے سر و سامانی ہے


اپنے ساماں میں تصاویر بتاں ہیں یہ خطوط

کچھ لکیریں ہیں کف دست ہے پیشانی ہے


علی افتخار جعفری


محمد شرف الدین ساحل

یوم پیدائش 02 آگسٹ 1950


ہجوم غم میں بہر حال مسکرانا ہے 

ہوا کے رخ پہ چراغ یقیں جلانا ہے 


ہے دل خراش بہت یاد میرے ماضی کی 

اسے حریم غزل میں مجھے سجانا ہے 


گنہ کے خوف سے انسان کانپ جاتا تھا 

یہ واقعہ تو ہے لیکن بہت پرانا ہے 


تمام شہر پہ حاکم کا جبر ہے غالب 

یہ کیا کہ ناز بھی اس کا ہمیں اٹھانا ہے 


جدید دور میں اصحاب کہف کے مانند 

قدیم دور کا سکہ ہمیں چلانا ہے 


جنہیں ہے زعم بہت اپنی بے گناہی پر 

انہیں بھی چل کے ذرا آئینہ دکھانا ہے 


چراغ عزم کا تم ساتھ لے چلو ساحلؔ 

ہوا کے زور مسلسل کو آزمانا ہے


محمد شرف الدین ساحل


زین احترام

 یوم پیدائش 22 اگسٹ


اٹھاتا کون ہے نخرے ہمارے

کسے فرصت سنے قصّے ہمارے


گلے ملتے اچانک رک گیا وہ

پرانے دیکھ کر کپڑے ہمارے


وہ ہلکے زندگی کے بوجھ سے تھے

کتابوں سے بھرے بستے ہمارے


نئے اس سال سوچا تھا ملیں گے

مگر آئے نہ دن اچھّے ہمارے


یہ بہتر ہے کہانی موڑ لیں ہم 

نہیں ملتے اگر رستے ہمارے


انا کی ضد کہاں تک لے گئ ہے

ذرا سی دیر کے جھگڑے ہمارے


ٹھہر جا زین کب سے ہے سفر میں

صدا دینے لگے جوتے ہمارے


زین احترام


زبیر قلزم

 ہمیں بھی تو محبت ہو گئی تھی

نہ پوچھو کیا قیامت ہو گئی تھی


ہمیں جب عشق نے قیدی رکھا تھا

تو جاں دے کر ضمانت ہو گئی تھی


نبھا کا وعدہ کہتے بھول جائیں

جوانی میں حماقت ہو گئی تھی


اٹھائے پھر رہا ہوں لاش اپنی

مری مجھ سے ہلاکت ہو گئی تھی


یہ تم نے کیسے بدلی ہے بتاؤ

تمہیں بھی میری عادت ہو گئی تھی


میں جب تک لوٹا اپنے پاس تب تک

مرے اندر بغاوت ہو گئی تھی


اجل آئی ہے میں صدقے میں واری

اذیت میری قسمت ہو گئی تھی 


بچھڑتے وقت یہ بھی دکھ تھا قلزم

وہ کتنی خوبصورت ہو گئی تھی


زبیر قلزم


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...