Urdu Deccan

Monday, August 9, 2021

ارشد سراغ

 یوم پیدائش 04 اگست


دم بہ دم جاری سفر ہے اپنے پیارے کی طرف 

جا رہا ہوں جاودانی استعارے کی طرف 


دھڑکنیں بھی تیز ہونے لگ گئیں گاڑی کے ساتھ  

اس نے جاتے وقت کب دیکھا اشارے کی طرف 


آ رہی ہے ایک آندھی رنج و غم کی شہر میں

جاں بچانے کو سبھی دوڑے سہارے کی طرف


اپنے بچوں کو تھا سمجھانا مجھے مفہوم عشق

 اس لیے میں چل دیا تھا بہتے دھارے کی طرف

  

ساری دنیا کی توجہ ۔۔۔چاند سے چہرے پہ تھی 

میری نظریں تھی چمکتے اک ستارے کی طرف


ایک بچہ چپ کھڑا ہے عرش میں گاڑے نظر  

دیکھتا ہے کتنی حسرت سے غبارے کی طرف


اس کی آنکھوں میں لکھی تھی آخری خواہش سُراغ 

ڈوبنے والے کا چہرہ تھا کنارے کی طرف


ارشد سراغ


احسان علی احسان

 یوم پیدائش 04 اگست


رات بھر بھوک فاقہ کھلاتی رہی 

مفلسی شادمانی کو کھاتی رہی 


فاصلے قربتوں کا مقدر ہوئے

زندگی وحشتوں کو جگاتی رہی  


آج فرطِ قلق کا وہ ہنگام تھا 

میرے دل کو اداسی ڈراتی رہی


بند ہونے لگی آس کی کھڑکیاں 

زندگی پہ مری بے ثباتی رہی


آئی آزار کھینچے ہوئے زندگی

اور نگاہِ رمیده رلاتی رہی 


آگ نے میرے دل کو بھی جھلسا دیا

راکھ سی زندگانی اڑاتی رہی


میرے گلشن میں اتری ہوئی چاندنی 

نغمہ ہائے اجل گنگناتی رہی


احسان علی احسان


روحی کنجاہی

 یوم پیدائش 04 اگست 1936


ہر تلخ حقیقت کا اظہار بھی کرنا ہے

دنیا میں محبت کا پرچار بھی کرنا ہے


بے خوابیٔ پیہم سے بیزار بھی کرنا ہے

بستی کو کسی صورت بیدار بھی کرنا ہے


دشمن کے نشانے پر کب تک یونہی بیٹھیں گے

خود کو بھی بچانا ہے اور وار بھی کرنا ہے


شفاف بھی رکھنا ہے گلشن کی فضاؤں کو

ہر برگ گل تر کو تلوار بھی کرنا ہے


کانٹوں سے الجھنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے

پھولوں سے محبت کا اظہار بھی کرنا ہے


اس جرم کی نوعیت معلوم نہیں کیا ہے

انکار بھی کرنا ہے اقرار بھی کرنا ہے


ہونے بھی نہیں دینا بحران کوئی پیدا

موقف پہ ہمیں اپنے اصرار بھی کرنا ہے


طے لمحوں میں کر ڈالیں صدیوں کا سفر لیکن

اس راہ کو اے روحیؔ ہموار بھی کرنا ہے


 

روحی کنجاہی


باصر سلطان کاغ

 یوم پیدائش 04 اگست 1953


یہ نہیں ہے کہ تجھے میں نے پکارا کم ہے

میرے نالوں کو ہواؤں کا سہارا کم ہے


اس قدر ہجر میں کی نجم شماری ہم نے

جان لیتے ہیں کہاں کوئی ستارا کم ہے


دوستی میں تو کوئی شک نہیں اس کی پر وہ

دوست دشمن کا زیادہ ہے ہمارا کم ہے


صاف اظہار ہو اور وہ بھی کم از کم دو بار

ہم وہ عاقل ہیں جنہیں ایک اشارا کم ہے


ایک رخسار پہ دیکھا ہے وہ تل ہم نے بھی

ہو سمرقند مقابل کہ بخارا کم ہے


اتنی جلدی نہ بنا رائے مرے بارے میں

ہم نے ہم راہ ابھی وقت گزارا کم ہے


باغ اک ہم کو ملا تھا مگر اس کو افسوس

ہم نے جی بھر کے بگاڑا ہے سنوارا کم ہے


آج تک اپنی سمجھ میں نہیں آیا باصرؔ

کون سا کام ہے وہ جس میں خسارا کم ہے


باصر سلطان کاظمی


یوسف اعظمی

 یوم پیدائش 04 اگست 1944


ہونٹوں کے صحیفوں پہ ہے آواز کا چہرہ

سایہ سا نظر آتا ہے ہر ساز کا چہرہ


آنکھوں کی گپھاؤں میں تڑپتی ہے خموشی

خوابوں کی دھنک ہے مرے ہم راز کا چہرہ


میں وقت کے کہرام میں کھو جاؤں تو کیا غم

ڈھونڈے گا زمانہ مری آواز کا چہرہ


سورج کے بدن سے نکل آئے ہیں ستارے

انجام میں بیدار ہے آغاز کا چہرہ


پلکیں ہیں کہ سرگوشی میں خوشبو کا سفر ہے

آنکھوں کی خموشی ہے کہ آواز کا چہرہ


یوسف اعظمی


اشرف رفیع

 یوم پیدائش 04 اگست 1940


پردے مری نگاہ کے بھی درمیاں نہ تھے

کیا کہیے ان کے جلوے کہاں تھے کہاں نہ تھے


جس راستے سے لے گئی تھی مجھ کو بے خودی

اس راہ میں کسی کے قدم کے نشاں نہ تھے


راز آشنا ہے میری نظر یا پھر آئنہ

ورنہ وہ اپنے حسن کے خود رازداں نہ تھے


کچھ بے صدا سے لفظ نظر کہہ گئی ضرور

مانا لب خموش رہین بیاں نہ تھے


آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں

بھولے تو یوں کہ جیسے کبھی مہرباں نہ تھے


اشرفؔ فریب زیست ہے کب امتحاں سے کم

اس کے سوا تو اور یہاں امتحاں نہ تھے


اشرف رفیع


امجد اسلام امجد

 یوم پیدائش 04 اگست 1944


کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا

وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا


وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں

دل بے خبر مری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا


میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں تری آس تیرے گمان میں

صبا کہہ گئی مرے کان میں مرے ساتھ آ اسے بھول جا


کسی آنکھ میں نہیں اشک غم ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم

تجھے زندگی نے بھلا دیا تو بھی مسکرا اسے بھول جا


کہیں چاک جاں کا رفو نہیں کسی آستیں پہ لہو نہیں

کہ شہید راہ ملال کا نہیں خوں بہا اسے بھول جا


کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں غم زندگی کے فشار میں

وہ جو درد تھا ترے بخت میں سو وہ ہو گیا اسے بھول جا


تجھے چاند بن کے ملا تھا جو ترے ساحلوں پہ کھلا تھا جو

وہ تھا ایک دریا وصال کا سو اتر گیا اسے بھول جا


امجد اسلام امجد


صوفی تبسم

 یوم پیدائش 04 اگسٹ 1899


ہزار گردش شام و سحر سے گزرے ہیں

وہ قافلے جو تری رہ گزر سے گزرے ہیں


ابھی ہوس کو میسر نہیں دلوں کا گداز

ابھی یہ لوگ مقام نظر سے گزرے ہیں


ہر ایک نقش پہ تھا تیرے نقش پا گماں

قدم قدم پہ تری رہ گزر سے گزرے ہیں


نہ جانے کون سی منزل پہ جا کے رک جائیں

نظر کے قافلے دیوار و در سے گزرے ہیں


رحیل شوق سے لرزاں تھا زندگی کا شعور

نہ جانے کس لیے ہم بے خبر سے گزرے ہیں


کچھ اور پھیل گئیں درد کی کٹھن راہیں

غم فراق کے مارے جدھر سے گزرے ہیں


جہاں سرور میسر تھا جام و مے کے بغیر

وہ مے کدے بھی ہماری نظر سے گزرے ہیں


صوفی تبسّم


شکیب کلگانوی

 دل کی اجڑی ہوئی بستی کو بسانے کے لیے

تم چلے آؤ کسی روز ہنسانے کے لیے


خالی خالی ہیں مرے دل کی نشستیں جاناں

منتظر ہوں میں تمھیں اس پہ بٹھانے کے لیے


اب ترے بعد مجھے کوئی نہیں ہے شکوہ

پر بچا کچھ نہ مرے پاس گنوانے کے لیے


درد پوشیدہ ہوا جاتا ہے آنکھوں سے عیاں

اور دلِ ناداں مصِر اسکو چھپانے کے لیے


آرزو خون سے میرے ہوئی پوری ان کی

پھول بالوں میں فقط ان کے سجانے کے لیے


ضرب سہہ سہہ کے وہ آمادہ بغاوت پہ ہوا

کوششیں خوب ہوئیں دل کو مٹانے لے لئے


نرم گفتار مری سب کا کھلونا ہے بنی

دستِ ہستی میں شکیبؔ اب تو ہنسانے کے لئے


 شکیبؔ کلگانوی


راحیل ثقلینی


 یوم پیدائش 03 اگست 1967


شوق آنکھوں کا نہیں چلتا یہاں

دوسرا چہرا نہیں چلتا یہاں


ورنہ پیروں سے کچل دیتے ہیں لوگ

بھیڑ میں رکنا نہیں چلتا یہاں


اپنے دکھ میں ہنسنے کی عادت بھی ڈال

ہر گھڑی رونا نہیں چلتا یہاں


جانے من یہ جسم کا بازار ہے 

عشق کا سکہ نہیں چلتا یہاں


دشمنوں کو کر لیا دل سے قبول


اب کوئی جھگڑا نہیں چلتا یہاں


یوں تو سب راحیل چلتا ہے مگر

بس تیرے جیسا نہیں چلتا یہاں


راحیل ثقلینی

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...