Urdu Deccan

Monday, August 9, 2021

ڈاکٹر عنبر عابد

 کچھ اس لئے بھی وہ مجھے اچھا بہت لگا

اس کا ہر ایک عیب تھا تم سا بہت لگا


تیرے بغیر عید تو تھی ہی بے لطف و کیف

تیرے بغیر چاند بھی دھندلا بہت لگا


ہنس کر اگرچہ ٹال دی میں نے تمہاری بات

دل کو تمہاری بات سے دھکا بہت لگا


جو شخص اپنے آپ میں اک انجمن تھا کل

آج ایک انجمن میں وہ تنہا بہت لگا


اک جھوٹ اس نے بولا تھا سچ کے سپورٹ میں

وہ شخص مجھکو اس لئے سچا بہت لگا


حالانکہ میرے حق میں تھی ہر بات آپکی

لہجہ نہ جانے کیوں مجھے روکھا بہت لگا


جو واقعہ سنایا ہے عنبر کو آپ نے

وہ واقعہ تو کم لگا قصہ بہت لگا


ڈاکٹر عنبر عابد


آفاق حاشر

 یوم پیدائش 05 اگست


گھٹن میں تازگی کو گھولتا ہوں

میں جب بھی بند کھڑکی کھولتا ہوں


بگڑتا ہے توازن زلزلوں سے

زمیں ڈولے تو میں بھی ڈولتا ہوں


میں خاموشی ہٹا کر راستے سے

نٸی آواز کے در کھولتا ہوں


تری قیمت کا اندازہ ہے مجھ کو

تجھے میزانِ دل میں تولتا ہوں


آفاق حاشر


اسد لاہوری

 شہرِ وفا کی دید ہے، بندے کی آرزو

محبوب کے مقام کو تکنے کی آرزو


آداب، اے حضور! کہ لازم ہے کچھ شعور

ہے شہرِ دلربا میں جو جینے کی آرزو


یہ وہ مقامِ ناز ہے جس کے عروج پر

ملتی ہے ہر عروج کو ڈھلنے کی آرزو


قربت میں ان کی آئے، تو حالت عجب ہے اب

"ہر گام پر جبیں کو ہے سجدے کی آرزو"


ڈانٹیں ہمیں، یا دور ہی جانے کا حکم دیں

کانوں کو ہے جناب کے لہجے کی آرزو


ان کا وصال ہم کو اگر ہو کبھی نصیب

پوری ہو جائے موت پہ قبضے کی آرزو


اسعد جی! آپ یاس میں کاٹیں نہ کل حیات

زندہ رکھیں بچھڑ کے بھی ملنے کی آرزو


اسعدلاہوری


خورشید بھارتی

 یوم پیدائش 05 اگست


عشق کرنے کا صلہ دربار میں رکھا ہوا ہے

جسم اس کا آج بھی دیوار میں رکھا ہوا ہے


پڑھ کے خبریں آنکھوں سے میری ٹپکتا ہے لہو اب

حادثہ در حادثہ اخبار میں رکھا ہوا ہے


جلوہء پرنور دیکھا آپ کا تو دل یہ بولا

چاند جیسے کاٹ کر رخسار میں رکھا ہوا ہے


دوستو سچ بولنے کا میں نے یہ انعام پایا

سر قلم کر کے مرا دربار میں رکھا ہوا ہے 


خورشید بھارتی


لطیف ساجد

 یوم پیدائش 05 اگست


کانپتے ہونٹ ہیں آواز میں دھیما پن ہے

کتنا دشوار کنیزوں کا کنوارا پن ہے


یہ کسی ایک کہانی سے نہیں اَخذ شدہ

جھوٹ تاریخ کا مجموعی کمینہ پن ہے


اشک ہیں نُوری خزینوں کے نگینے جیسے

تیرے غمگین کی آنکھوں میں اچھوتا پن ہے


معذرت آپ کی آواز نہیں سُن پایا

میرے ہمراہ کئی سال سے بہرا پن ہے


ہم خد و خال سے اندازہ لگا لیتے ہیں

واقعی دشت ہے یا ذہن کا سُوکھا پن ہے


جلتے خیموں کا دھواں ساتھ لیے پھرتا ہوں

غم کا احساس مری ذات کا کڑوا پن ہے


خوبصورت ہے مگر شک میں گھری ہے ساجد

جیسے دنیا کسی مٹیار کا سُونا پن ہے


لطیف ساجد


جلیل نظامی

 یوم پیدائش 05 اگست 1957


سر پھر نہ اٹھا پاؤں ترے در پہ جھکا کر

اتنی تو بلندی مجھے اللہ عطا کر


رکھوں ترے ہر غم کو میں سینے سے لگا کر

چھوڑے گی یہ خواہش مجھے دیوانہ بنا کر


آنسو ہوں تو کردے کسی دامن کے حوالے

موتی ہوں تو رکھ لے مجھے پلکوں پہ سجا کر


آئینہ دکھانا تو حریفوں کا عمل ہے

ائے دوست نصیحت نہیں امداد کیا کر


ہم پیاس بجھانے میں رہے دشت بلا کی

وہ آ بھی گئے جاکے سمندر کو جلا کر


آزردگئی شوق کی روداد مفصل

ہم اور بھی رسوا ہوئے یاروں کو سناکر


قدموں سے لپٹ جاتی ہے کمبخت یہ دنیا

دھتکاروں جلیل اس کو جو نظروں سے گرا کر


 جلیل نظامی


منظر ایوبی

 یوم پیدائش 04 اگست 1932


وصال و ہجر کے قصے نہ یوں سناؤ ہمیں

اب اس عذاب شب و روز سے بچاؤ ہمیں


کسی بھی گھر میں سہی روشنی تو ہے ہم سے

نمود صبح سے پہلے تو مت بجھاؤ ہمیں


نہیں ہے خون شہیداں کی کوئی قدر یہاں

لگا کے داؤ پہ ہم کو نہ یوں گنواؤ ہمیں


تمام عمر کا سودا ہے ایک پل کا نہیں

بہت ہی سوچ سمجھ کر گلے لگاؤ ہمیں


گزر چکے ہیں مقام جنوں سے دیوانے

یہ جان لینا اگر کل یہاں نہ پاؤ ہمیں


ہمارے خوں سے نکھر جائے غم تو کیا کہنا

بڑھاؤ دست ستم دار پر چڑھاؤ ہمیں


کرشمہ سازیٔ فکر و نظر سے کیا حاصل

بنے ہو خضر تو پھر راستہ دکھاؤ ہمیں


یہ لمحہ بھر کا تصور تو جان لیوا ہے

جو یاد آؤ تو تا عمر یاد آؤ ہمیں


کتاب عشق ہیں لیکن نہ اتنی فرسودہ

کہ بے پڑھے ہی فقط میز پر سجاؤ ہمیں


اجڑ نہ جائے عروس سخن کی مانگ کہیں

خیال و فن کی نئی جنگ سے بچاؤ ہمیں


منظر ایوبی


اختر انصاری اکبرآبادی

 یوم پیدائش 05 جولائی 1920


دور تک روشنی ہے غور سے دیکھ

موت بھی زندگی ہے غور سے دیکھ


ان چراغوں کے بعد اے دنیا

کس قدر تیرگی ہے غور سے دیکھ


رہنماؤں کا جذبۂ ایثار

یہ بھی اک رہزنی ہے غور سے دیکھ


دشمنی کو برا نہ کہہ اے دوست

دیکھ کیا دوستی ہے غور سے دیکھ


ترک تدبیر و جستجو کے بعد

زندگی زندگی ہے غور سے دیکھ


گر یہ شبنم کا رنگ لایا ہے

ہر طرف تازگی ہے غور سے دیکھ


ہیں تحیر میں وہ بھی اے اخترؔ

کیا تری شاعری ہے غور سے دیکھ


اختر انصاری اکبرآبادی


ایس ڈی عابد

 عقل ہے تو گیان بھی ہو گا 

ہے زباں تو بیان بھی ہو گا


جانے والے کو ۔۔ ڈھونڈ لوں گا میں

کچھ کہیں تو نشان بھی ہو گا


سوچ لینا تُو پہلے کرنے سے 

عشق میں امتحان بھی ہو گا


آج محفل ہے حُسن والوں کی

صاحبِ صاحبان بھی ہو گا


سارے دشمن نہیں زمانے میں 

کوئی تو مہربان بھی ہو گا


شہر سارا تو بدزبان نہیں  

ایک تو خوش گمان بھی ہو گا


اِن دنوں جو فقط کہانی ہے 

کل وہی داستان بھی ہو گا


قتل پُھولوں کا کرنے والوں میں

دیکھنا باغبان بھی ہو گا


عشق میں سب تو مر نہیں جاتے

کوئی تو نیم جان بھی ہوگا 


مانتا ہوں کہ سارے طالب ہیں 

طالبِ طالبان بھی ہو گا 


حشر کے دن کی ایک خوبی ہے 

سیّدِ سیّدان بھی ہو گا 


حُسن ہے یہ حساب کے دن کا

جلوہ گر لامکان بھی ہوگا 


عاجزی جس نے عابدؔ اپنا لی

ایک دن کامران بھی ہو گا


 ایس،ڈی،عابدؔ


فرید پربتی

 یوم پیدائش 04 اگست 1961


اور کچھ اس کے سوا اہل نظر جانتے ہیں

پگڑیاں اپنی بچانے کا ہنر جانتے ہیں


اک ستارے کو ضیا بار دکھانے کے لئے

وہ بجھائیں گے سبھی شمس و قمر جانتے ہیں


خواب میں دیکھتے ہیں کھڑکیاں ہر گھر کی کھلی

دور ہو جائے گا اب شہر سے ڈر جانتے ہیں


میزبانی تھی کبھی جن میں میسر تیری

پلٹ آئیں گے وہی شام و سحر جانتے ہیں


تری جھولی میں ستارے یہ نہیں گرنے کے

ہر طلب گار کا وہ طرز نظر جانتے ہیں


یہ جو سستانے یہاں آتے ہیں صاحب اک دن

سائے کے ساتھ وہ مانگیں گے شجر جانتے ہیں


تیز آندھی سے دیے سارے بچانے کو فریدؔ

خود کو رکھے گا سر راہ گزر جانتے ہیں


فرید پربتی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...