Urdu Deccan

Monday, August 9, 2021

مرزا فیصل

 یوم پیدائش 08 اگست


جس نے کی اس سے بھی نہ نفرت کی

کیا کہیں بات ہے طبیعت کی


ہم فسانے میں بھی نہیں ہوں گے

جب سمجھ آئے گی حقیقت کی


میرا اس شہر میں نہیں ہے کوئی

میں نے دیوار سے شکایت کی


دل پہ اک زخم کی جگہ بھی نہیں

اس نے مجھ پر بڑی عنایت کی


صرف تنہائی کاٹنے والو

کون دیتا ہے داد ہمت کی


اس کے حاصل سے شوق جاتا رہا

میں تو مشکل میں ہوں سہولت کی


قید کر لی سیاہ آنکھوں میں 

ایک لڑکی سفید رنگت کی


زندگی سے گئی نہیں فیصل

اک گھڑی آئی تھی مصیبت کی


مرزا فیصل


بلال آدر

 سیاہ رات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں 

جو حادثات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں


مسافرانِ جنوں موت کے سمندر میں 

کبھی حیات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں


ہمارے بس میں میاں گھر تلک بنا لینا 

سو کائنات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں


محبتوں کا حسیں کھیل کھیلنے والے 

وبالِ مات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں


جہانِ غم میں وہی کامیاب ہیں آدر 

جو اپنی ذات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں


بلال آدر


ادریس آزاد

 یوم پیدائش 07 اگست 1969


ہماری لاش کی تصویر بھی اُتاری گئی

پھر اُس کے پاؤں سے زنجیر بھی اُتاری گئی


شہید ہونے کا پہلے ہُنر اُتارا گیا

پھر آسمان سے شمشیر بھی اُتاری گئی


ثمر کو عزم ِ مصمم کے ساتھ جوڑا گیا

قلم اُٹھانے پہ تحریر بھی اُتاری گئی


فقط بدن ہی گھسیٹا نہیں سر ِبازار

ہمارے خواب سے تعبیر بھی اُتاری گئی


جب آسماں سے محبت کا جرم اُترا تھا

تب انتظار کی تعزیر بھی اتاری گئی


گلے میں ڈالی گئی پہلے نام کی تختی

پھر ایک ایک کی تصویر بھی اُتاری گئی


ہمارے جیسوں کو دیوانگی عطاکرکے

دوائے تلخی ِ تقدیر بھی اُتاری گئی


ادریس آزاد


احمد امتیاز

 یوم پیدائش 08 اگست 1949


جواب ایک سا ہے اور سوال ایک سا ہے

یہ کیا ہوا ہے کہ دونوں کا حال ایک سا ہے


بلندیوں کا وہاں ہے تو پستیوں کا یہاں 

بس آسمان و زمیں کا کمال ایک سا ہے


ہر ایک شخص کا انجام رائیگانی ہے

یہ زندگی ہے تو سب پہ وبال ایک سا ہے


جدائی آنکھ میں آنسو ہیں ملنا خندہ بہ لب

فراق ایک سا سب کا وصال ایک سا ہے


کوئی بھی ساعت خوش رنگ آج تک نہ ملی

ہمارے واسطے ہر ایک سال ایک سا ہے


احمد امتیاز


نجیب احمد

 یوم پیدائش 08 اگست 1948


عشق آباد فقیروں کی ادا رکھتے ہیں

اور کیا اس کے سوا اہل انا رکھتے ہیں


ہم تہی دست کچھ ایسے بھی تہی دست نہیں

کچھ نہیں رکھتے مگر پاس وفا رکھتے ہیں


زندگی بھر کی کمائی یہ تعلق ہی تو ہے

کچھ بچے یا نہ بچے اس کو بچا رکھتے ہیں


شعر میں پھوٹتے ہیں اپنی زباں کے چھالے

نطق رکھتے ہیں مگر سب سے جدا رکھتے ہیں


ہم نہیں صاحب تکریم تو حیرت کیسی

سر پہ دستار نہ پیکر پہ عبا رکھتے ہیں


شہر آواز کی جھلمل سے دمک اٹھیں گے

شب خاموش کی رخ شمع نوا رکھتے ہیں


اک تری یاد گلے ایسے پڑی ہے کہ نجیبؔ

آج کا کام بھی ہم کل پہ اٹھا رکھتے ہیں


نجیب احمد


مجید اختر

 یوم پیدائش 08 اگست


بخش دے کچھ تو اعتبار مجھے

پیار سے دیکھ چشم یار مجھے


رات بھی چاند بھی سمندر بھی

مل گئے کتنے غم گسار مجھے


روشنی اور کچھ بڑھا جاؤں

سوز غم اور بھی نکھار مجھے


کچھ ہی دن میں بہار آ جاتی

اور کرنا تھا انتظار مجھے


دیکھ دنیا یہ پینترے نہ بدل

دیکھ شیشے میں مت اتار مجھے


آئینے میں نظر نہیں آتا

اپنا چہرہ کبھی کبھار مجھے


کس قدر شوخ ہو کے تکتا تھا

رات بند قبائے یار مجھے


دیکھ میں ساعت مسرت ہوں

اتنی عجلت سے مت گزار مجھے


مرکب خاک پر سوار ہوں میں

دیکھ اے شہر زر نگار مجھے


رزق مقسوم کھا کے جینا تھا

کھا گئی فکر روزگار مجھے


مجید اختر


عابد علی عابد حافظ آباد

 گرچہ وعدہ ترا وفا نہ ہوا

پیار کا ختم سلسلہ نہ ہوا


میں بھلا دوں تجھے کہ یاد رکھوں

آج تک یہ ہی فیصلہ نہ ہوا


بیچ دریا کے ڈوبی ہے کشتی

تم سے کچھ بھی تو نا خدا نہ ہوا


پیار کا میں نے کردیا اظہار

یہ ہے افسوس برملا نہ ہوا


سامنے وہ تھا ساتھ غیروں کے

مجھ سے طے وہ بھی فاصلہ نہ ہوا


زندگی سے میں تنگ آیا جب

پھر کبھی کوئی  حادثہ نہ ہوا


رند میخانہ پی گیا سارا

شومئ بخت کہ نشہ نہ ہوا


دل جلوں میں نہیں کوئی ایسا

تیرے کوچے کا جو گدا نہ ہوا


عشق کے سارے دور میں عابد

خوشگوار اک بھی واقعہ نہ ہوا


عابد علی عابد حافظ آباد


محمد حذیفہ

 یوم پیدائش 07 اگست


عجیب شخص ہے مجھ سے خفا نہیں ہوتا 

میرے ستانے سے اب فائدہ نہیں ہوتا 


تمہارے شہر کے حالات دیکھ آیا ہوں وہاں تو کوئی کسی کا سَگا نہیں ہوتا 


برا جو کہتے ہیں کچھ لوگ ان کو کہنے دو

کسی کے کہنے سے کوئی برا نہیں ہوتا۔


تمہارے عشق میں مجھکو ملا وفورِ غم وگرنہ رنج میں ایسے گِھرا نہیں ہوتا


حصولِ علم میں ہیں محنتیں بہت ناصح

کسی کو علم و ہنر یوں عطا نہیں ہوتا 


کہیں پہ گر ہو محبت کی بات، سنتا ہوں

مزاج میرا یونہی عشقیہ نہیں ہوتا 


 محمد حذیفہ


شائستہ کنول عالی

 یوم پیدائش 07 اگست


مجھ پر ترے خیال کا جوہر نہیں کھلا 

دل جیسے بادشہ پہ گداگر نہیں کھلا 


کھلنے لگیں دھمال کے چکر کی خوبیاں

کیسے کہوں کہ رازِ قلندر نہیں کھلا 


نظریں جمائے بیٹھی رہی مشتری پہ میں 

ایسے میں برج قوس کا اختر نہیں کھلا 


اسرارِ بے خودی میں فقط اس قدر ہوا   

قطرہ تو کھل چکا تھا سمندر نہیں کھلا 


تن کو جلا کے راکھ بنانے لگی خودی 

در دردِ دل کا ذات کے اندر نہیں کھلا 


پردے سے پڑ گئے مری آنکھوں پہ درد سے 

اشکوں میں تیرے پیار کا منظر نہیں کھلا 


اس با حجاب حسن کا جلوہ چھپا رہا 

بازارِ شوق میں رخِ انور نہیں کھلا 


صد شکر تیری ذات کا پردہ ہی رہ گیا  

عالی ترے گناہوں کا دفتر نہیں کھلا 


شائستہ کنول عالی


نگار صہبائی

 یوم پیدائش 07 اگست 1926


من کا سورج کب چمکے گا کتنی دور سویرا ہے

چنتا بن میں گھور اندھیرا پنچھی بہت اکیلا ہے


بادل کے پردے میں چھپ کر جس نے امرت چھڑکا ہے

ساون کی مہندی سے لکھ کر روپ سندیسہ بھیجا ہے

بند کواڑے کھل جاتے ہیں ایسا گیت بھی آتا ہے

میلے کپڑوں میں کیا ملنا سوچ کے من شرماتا ہے


اپنی اور سے دور بھی جاکر اپنی اور ہی پہنچے ہیں

جان و تن کے بیچ ہے کوئی کھوج میں جس کی پھرتے ہیں

ایک اتھاہ ساگر ہے تن میں جو امبر سے اترا ہے

من کا گاگر جتنا بھر لے اتنا جل تو میٹھا ہے


پنگھٹ پنگھٹ ایک ندی سے کتنے تن دھل جاتے ہیں

ایک منش پہ آٹھ کواڑے پل چھن میں کھل جاتے ہیں

کتنا کٹھن ہے اپنا ملنا میں نے جب بھی سوچا ہے

باڑھ آتی ہے وہ خوشبو کی ساگر بھر جاتا ہے 


چنتا بن میں گھور اندھیرا پنچھی بہت اکیلا ہے


نگار صہبائی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...