Urdu Deccan

Sunday, September 19, 2021

فیاض ہاشمی

 یوم پیدائش 18 اگست 1920


چلیں جو لوگ تو کاندھا بدل بدل کے چلیں

بڑا طویل سفر یے بڑی مسافت ہے

سفید پوش سیاست کے اس جنازے میں

کفن میں لپٹی ہوئی لاش آدمیت ہے 


فیاض ہاشمی


سعید صاحب

 یوم پیدائش 18 اگست 1962


اُس دن ،یاد ہے، کتنا تیز چلے تھے ہم

اپنے سائے پیچھے چھوڑ گئے تھے ہم


جسم ہمارے بیچ میں حائِل لگتے تھے

اک دُوجے سے ایسے لپٹ رہے تھے ہم


دُنیا و ما فیہا کا کچھ ہوش نہ تھا

جیسے دھرتی پر دو ہی بستے تھے ہم


لے دے کے یکساں بانٹی تھیں کُل سانسیں

گویا ساتھ جیے تھے ' ساتھ مَرے تھے ہم


خواب میں تم سے مل کر بچھڑے تھےجس رات

آنکھ کُھلی تَو دل پر ہاتھ رکھے تھے ہم !


 سعید صاحِبؔ 


گلزار

 یوم پیدائش 18 اگست 1934


خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں

ایک پرانا خط کھولا انجانے میں


شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں

چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں


رات گزرتے شاید تھوڑا وقت لگے

دھوپ انڈیلو تھوڑی سی پیمانے میں


جانے کس کا ذکر ہے اس افسانے میں

درد مزے لیتا ہے جو دہرانے میں


دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے

کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں


ہم اس موڑ سے اٹھ کر اگلے موڑ چلے

ان کو شاید عمر لگے گی آنے میں


گلزار


بشر نواز

 یوم پیدائش 18 اگست 1935


ہر نئی رت میں نیا ہوتا ہے منظر میرا

ایک پیکر میں کہاں قید ہے پیکر میرا


میں کہاں جاؤں کہ پہچان سکے کوئی مجھے

اجنبی مان کے چلتا ہے مجھے گھر میرا


جیسے دشمن ہی نہیں کوئی مرا اپنے سوا

لوٹ آتا ہے مری سمت ہی پتھر میرا


جو بھی آتا ہے وہی دل میں سما جاتا ہے

کتنے دریاؤں کا پیاسا ہے سمندر میرا


تو وہ مہتاب تکیں راہ اجالے تیری

میں وہ سورج کہ اندھیرا ہے مقدر میرا


بشر نواز


امداد امام اثر

 یوم پیدائش 17 اگست 1849


سولی چڑھے جو یار کے قد پر فدا نہ ہو

پھانسی چڑھے جو قیدی زلف رسا نہ ہو


مضموں وہ کیا جو لذت غم سے بھرا نہ ہو

شاعر وہ کیا کلام میں جس کے مزا نہ ہو


بد نام میرے واسطے وہ دل ربا نہ ہو

یارب عدو کے ہاتھ سے میری قضا نہ ہو


جب اپنی کوئی بات بغیر از دعا نہ ہو

دشمن کے کہنے سننے سے ناداں خفا نہ ہو


ہو وہ اگر خلاف موافق ہوا نہ ہو

ڈوبے وہ ناؤ جس کا خدا ناخدا نہ ہو


دلدادگی کو حسن خداداد کم نہیں

ناصح اگر نہیں ہے بتوں میں وفا نہ ہو


روز جزا وہ شوخ ملے ہم کو اے خدا

اس کے سوا کچھ اور عدو کی سزا نہ ہو


مشکل کا سامنا ہو تو ہمت نہ ہاریے

ہمت ہے شرط صاحب ہمت سے کیا نہ ہو


بت آذران وقت بنائیں اگر ہزار

تیرا نظیر ایک بھی نام خدا نہ ہو


دھوکے میں میرے قتل کیا اس نے غیر کو

قاتل کا کیا قصور جو میری قضا نہ ہو


سچ ہے کہ ہر کمال کو دنیا میں ہے زوال

ایسا بڑا ہے کون جو آخر گھٹا نہ ہو


روز جزا سے واعظ ناداں اسے ڈرا

صدمہ شب فراق کا جس نے سہا نہ ہو


ملتا نہیں پتا ترے چھلے کے چور کا

اے گل بدن یہ شوخی دزد حنا نہ ہو


تیرا گلہ نہ غیر کا شکوہ زباں پہ ہے

کرتا ہوں عرض حال ستم گر خفا نہ ہو


پاتے ہیں کج سرشت جزا اپنے فعل کی

کہتی ہے راستی کہ برے کا بھلا نہ ہو


بلبل نہ پھول خندۂ صبح بہار پر

ناداں کہیں یہ خندۂ دنداں نما نہ ہو


تیری زباں پہ آئے اگر حرف التیام

کیوں کر شکست دل کے لئے مومیا نہ ہو


غافل مریض عشق کی تو نے خبر نہ لی

تھا غیر اس کا حال وہ اب تک ہو یا نہ ہو


شرمندہ اے کریم نہ ہوں عاشقوں میں ہم

پرسش ہمارے قتل کی روز جزا نہ ہو


کرتا ہے اے اثرؔ دل خوں گشتہ کا گلہ

عاشق وہ کیا کہ خستۂ تیغ جفا نہ ہو


امداد امام اثرؔ


اختر حسین جعفری

 یوم پیدائش 15 اگست 1932


ہجر اک حسن ہے اس حسن میں رہنا اچھا

چشم بے خواب کو خوں ناب کا گہنا اچھا


کوئی تشبیہ کا خورشید نہ تلمیح کا چاند

سر قرطاس لگا حرف برہنہ اچھا


پار اترنے میں بھی اک صورت غرقابی ہے

کشتئ خواب رہ موج پہ بہنا اچھا


یوں نشیمن نہیں ہر روز اٹھائے جاتے

اسی گلشن میں اسی ڈال پہ رہنا اچھا


بے دلی شرط وفا ٹھہری ہے معیار تو دیکھ

میں برا اور مرا رنج نہ سہنا اچھا


دھوپ اس حسن کی یک لحظہ میسر تو ہوئی

پھر نہ تا عمر لگا سائے میں رہنا اچھا


دل جہاں بات کرے دل ہی جہاں بات سنے

کار دشوار ہے اس طرز میں کہنا اچھا


اختر حسین جعفری


آغا شورش کاشمیری

 امام الشہدا ( حضرت حسینؓ )


ٹل نہیں سکتا کسی حالت میں فرمان حسینؓ

ثبت ہے تاریخ کے چہرے یہ عنوان حسینؓ


معصیت سے بھی سوا ہے طاقت فسق و فجور

تھا کتاب اللہ کی تفسیر اعلان حسینؓ


سر کٹا کے دین ابراہیم کو زندہ کیا

دین قیم کا مرقع تھے جوانان حسینؓ


بڑھ گئی ان کے لہو سے کربلا کی آبرو

بن گیا تاریخ کی آواز میدان حسینؓ


ان کے ہونٹوں کو رسول اللہ نے بوسہ دیا

میں لکھوں، کیسے لکھوں، کیونکر لکھوں شان حسینؓ


منقبت شبیر کی انسان کے بس میں نہیں


حشر تک دونوں جہاں ہیں مرتبہ دان حسینؓ


جب کبھی ایثار و قربانی کی منزل آگئی

دیدہ و دل ٰمیں ترازو ہو گئی آن حسینؓ


مجھ میں وہ بوتا کہاں ان کی ثنا خوانی کروں

خود رسول اللہ ہیں شورش ثنا خوان حسینؓ


 آغا شورش کاشمیری

پرویز اختر

 یوم پیدائش 15 اگست


ہمارے گھر میں ہی ہم پر، یہ کیسا خوف طاری ہے

کسی کی چیخ سنتے ہیں، تو لگتا ہے ہماری ہے


قرار آجائے تو سانسوں سے رشتہ ٹوٹ ہی جائے

اثاثہ ہر جنوں والے کا ، ہردم بیقراری ہے


مری آمد سے کھلنے لگ گئے ہیں پھول آنکھوں میں

مگر بتلا ، محبت ہے کہ ، جذبہ اشتہاری ہے


ہے اس بنیاد پر، روشن مری پہچان کا چہرہ

انا کے ساتھ اس لہجے میں تھوڑی انکساری ہے


چلن رشتوں میں کاروبار کا، اب عام ہے اختر 

گلے ملتے ہیں ، لیکن درمیاں بے اعتباری ہے


پرویز اختر


لیاقت علی عاصم

 یوم پیدائش 14اگست 1951


عاجز تھا بے عجز نبھائی رسم جدائی میں نے بھی

اس نے مجھ سے ہاتھ چھڑایا جان چھڑائی میں نے بھی


جنگل کے جل جانے کا افسوس ہے لیکن کیا کرنا

اس نے میرے پر گرائے آگ لگائی میں نے بھی


اس نے اپنے بکھرے گھر کو پھر سے سمیٹا ٹھیک کیا

اپنے بام و در پہ بیٹھی گرد اڑائی میں نے بھی


نوحہ گران یار میں یاروں میرا نام بھی لکھ دینا

اس کے ساتھ بہت دن کی ہے نغمہ سرائی میں نے بھی


ایک دیا تو مرقد پر بھی جلتا ہے عاصمؔ آخر

دنیا آس پہ قائم تھی سو آس لگائی میں نے بھی


لیاقت علی عاصم


محسن اسرار

 یوم پیدائش 14 اگست 1948


گزر چکا ہے زمانہ وصال کرنے کا

یہ کوئی وقت ہے تیرے کمال کرنے کا


برا نہ مان جو پہلو بدل رہا ہوں میں

مرا طریقہ ہے یہ عرض حال کرنے کا


مجھے اداس نہ کر ورنہ ساکھ ٹوٹے گی

نہیں ہے تجربہ مجھ کو ملال کرنے کا


تلاش کر مرے اندر وجود کو اپنے

ارادہ چھوڑ مجھے پائمال کرنے کا


یہ ہم جو عشق میں بیمار پڑتے رہتے ہیں

یہ اک سبب ہے تعلق بحال کرنے کا


عجیب شخص تھا لوٹا گیا مرا سب کچھ

معاوضہ نہ لیا دیکھ بھال کرنے کا


پھر اس کے بعد ہمیشہ ہی چپ رہے محسنؔ

خراج دینا پڑا عرض حال کرنے کا


محسن اسرار


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...