یوم پیدائش 18 اگست 1920
چلیں جو لوگ تو کاندھا بدل بدل کے چلیں
بڑا طویل سفر یے بڑی مسافت ہے
سفید پوش سیاست کے اس جنازے میں
کفن میں لپٹی ہوئی لاش آدمیت ہے
فیاض ہاشمی
یوم پیدائش 18 اگست 1920
چلیں جو لوگ تو کاندھا بدل بدل کے چلیں
بڑا طویل سفر یے بڑی مسافت ہے
سفید پوش سیاست کے اس جنازے میں
کفن میں لپٹی ہوئی لاش آدمیت ہے
فیاض ہاشمی
یوم پیدائش 18 اگست 1962
اُس دن ،یاد ہے، کتنا تیز چلے تھے ہم
اپنے سائے پیچھے چھوڑ گئے تھے ہم
جسم ہمارے بیچ میں حائِل لگتے تھے
اک دُوجے سے ایسے لپٹ رہے تھے ہم
دُنیا و ما فیہا کا کچھ ہوش نہ تھا
جیسے دھرتی پر دو ہی بستے تھے ہم
لے دے کے یکساں بانٹی تھیں کُل سانسیں
گویا ساتھ جیے تھے ' ساتھ مَرے تھے ہم
خواب میں تم سے مل کر بچھڑے تھےجس رات
آنکھ کُھلی تَو دل پر ہاتھ رکھے تھے ہم !
سعید صاحِبؔ
یوم پیدائش 18 اگست 1934
خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں
ایک پرانا خط کھولا انجانے میں
شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں
چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں
رات گزرتے شاید تھوڑا وقت لگے
دھوپ انڈیلو تھوڑی سی پیمانے میں
جانے کس کا ذکر ہے اس افسانے میں
درد مزے لیتا ہے جو دہرانے میں
دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے
کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں
ہم اس موڑ سے اٹھ کر اگلے موڑ چلے
ان کو شاید عمر لگے گی آنے میں
گلزار
یوم پیدائش 18 اگست 1935
ہر نئی رت میں نیا ہوتا ہے منظر میرا
ایک پیکر میں کہاں قید ہے پیکر میرا
میں کہاں جاؤں کہ پہچان سکے کوئی مجھے
اجنبی مان کے چلتا ہے مجھے گھر میرا
جیسے دشمن ہی نہیں کوئی مرا اپنے سوا
لوٹ آتا ہے مری سمت ہی پتھر میرا
جو بھی آتا ہے وہی دل میں سما جاتا ہے
کتنے دریاؤں کا پیاسا ہے سمندر میرا
تو وہ مہتاب تکیں راہ اجالے تیری
میں وہ سورج کہ اندھیرا ہے مقدر میرا
بشر نواز
یوم پیدائش 17 اگست 1849
سولی چڑھے جو یار کے قد پر فدا نہ ہو
پھانسی چڑھے جو قیدی زلف رسا نہ ہو
مضموں وہ کیا جو لذت غم سے بھرا نہ ہو
شاعر وہ کیا کلام میں جس کے مزا نہ ہو
بد نام میرے واسطے وہ دل ربا نہ ہو
یارب عدو کے ہاتھ سے میری قضا نہ ہو
جب اپنی کوئی بات بغیر از دعا نہ ہو
دشمن کے کہنے سننے سے ناداں خفا نہ ہو
ہو وہ اگر خلاف موافق ہوا نہ ہو
ڈوبے وہ ناؤ جس کا خدا ناخدا نہ ہو
دلدادگی کو حسن خداداد کم نہیں
ناصح اگر نہیں ہے بتوں میں وفا نہ ہو
روز جزا وہ شوخ ملے ہم کو اے خدا
اس کے سوا کچھ اور عدو کی سزا نہ ہو
مشکل کا سامنا ہو تو ہمت نہ ہاریے
ہمت ہے شرط صاحب ہمت سے کیا نہ ہو
بت آذران وقت بنائیں اگر ہزار
تیرا نظیر ایک بھی نام خدا نہ ہو
دھوکے میں میرے قتل کیا اس نے غیر کو
قاتل کا کیا قصور جو میری قضا نہ ہو
سچ ہے کہ ہر کمال کو دنیا میں ہے زوال
ایسا بڑا ہے کون جو آخر گھٹا نہ ہو
روز جزا سے واعظ ناداں اسے ڈرا
صدمہ شب فراق کا جس نے سہا نہ ہو
ملتا نہیں پتا ترے چھلے کے چور کا
اے گل بدن یہ شوخی دزد حنا نہ ہو
تیرا گلہ نہ غیر کا شکوہ زباں پہ ہے
کرتا ہوں عرض حال ستم گر خفا نہ ہو
پاتے ہیں کج سرشت جزا اپنے فعل کی
کہتی ہے راستی کہ برے کا بھلا نہ ہو
بلبل نہ پھول خندۂ صبح بہار پر
ناداں کہیں یہ خندۂ دنداں نما نہ ہو
تیری زباں پہ آئے اگر حرف التیام
کیوں کر شکست دل کے لئے مومیا نہ ہو
غافل مریض عشق کی تو نے خبر نہ لی
تھا غیر اس کا حال وہ اب تک ہو یا نہ ہو
شرمندہ اے کریم نہ ہوں عاشقوں میں ہم
پرسش ہمارے قتل کی روز جزا نہ ہو
کرتا ہے اے اثرؔ دل خوں گشتہ کا گلہ
عاشق وہ کیا کہ خستۂ تیغ جفا نہ ہو
امداد امام اثرؔ
یوم پیدائش 15 اگست 1932
ہجر اک حسن ہے اس حسن میں رہنا اچھا
چشم بے خواب کو خوں ناب کا گہنا اچھا
کوئی تشبیہ کا خورشید نہ تلمیح کا چاند
سر قرطاس لگا حرف برہنہ اچھا
پار اترنے میں بھی اک صورت غرقابی ہے
کشتئ خواب رہ موج پہ بہنا اچھا
یوں نشیمن نہیں ہر روز اٹھائے جاتے
اسی گلشن میں اسی ڈال پہ رہنا اچھا
بے دلی شرط وفا ٹھہری ہے معیار تو دیکھ
میں برا اور مرا رنج نہ سہنا اچھا
دھوپ اس حسن کی یک لحظہ میسر تو ہوئی
پھر نہ تا عمر لگا سائے میں رہنا اچھا
دل جہاں بات کرے دل ہی جہاں بات سنے
کار دشوار ہے اس طرز میں کہنا اچھا
اختر حسین جعفری
امام الشہدا ( حضرت حسینؓ )
ٹل نہیں سکتا کسی حالت میں فرمان حسینؓ
ثبت ہے تاریخ کے چہرے یہ عنوان حسینؓ
معصیت سے بھی سوا ہے طاقت فسق و فجور
تھا کتاب اللہ کی تفسیر اعلان حسینؓ
سر کٹا کے دین ابراہیم کو زندہ کیا
دین قیم کا مرقع تھے جوانان حسینؓ
بڑھ گئی ان کے لہو سے کربلا کی آبرو
بن گیا تاریخ کی آواز میدان حسینؓ
ان کے ہونٹوں کو رسول اللہ نے بوسہ دیا
میں لکھوں، کیسے لکھوں، کیونکر لکھوں شان حسینؓ
منقبت شبیر کی انسان کے بس میں نہیں
حشر تک دونوں جہاں ہیں مرتبہ دان حسینؓ
جب کبھی ایثار و قربانی کی منزل آگئی
دیدہ و دل ٰمیں ترازو ہو گئی آن حسینؓ
مجھ میں وہ بوتا کہاں ان کی ثنا خوانی کروں
خود رسول اللہ ہیں شورش ثنا خوان حسینؓ
آغا شورش کاشمیری
یوم پیدائش 15 اگست
ہمارے گھر میں ہی ہم پر، یہ کیسا خوف طاری ہے
کسی کی چیخ سنتے ہیں، تو لگتا ہے ہماری ہے
قرار آجائے تو سانسوں سے رشتہ ٹوٹ ہی جائے
اثاثہ ہر جنوں والے کا ، ہردم بیقراری ہے
مری آمد سے کھلنے لگ گئے ہیں پھول آنکھوں میں
مگر بتلا ، محبت ہے کہ ، جذبہ اشتہاری ہے
ہے اس بنیاد پر، روشن مری پہچان کا چہرہ
انا کے ساتھ اس لہجے میں تھوڑی انکساری ہے
چلن رشتوں میں کاروبار کا، اب عام ہے اختر
گلے ملتے ہیں ، لیکن درمیاں بے اعتباری ہے
پرویز اختر
یوم پیدائش 14اگست 1951
عاجز تھا بے عجز نبھائی رسم جدائی میں نے بھی
اس نے مجھ سے ہاتھ چھڑایا جان چھڑائی میں نے بھی
جنگل کے جل جانے کا افسوس ہے لیکن کیا کرنا
اس نے میرے پر گرائے آگ لگائی میں نے بھی
اس نے اپنے بکھرے گھر کو پھر سے سمیٹا ٹھیک کیا
اپنے بام و در پہ بیٹھی گرد اڑائی میں نے بھی
نوحہ گران یار میں یاروں میرا نام بھی لکھ دینا
اس کے ساتھ بہت دن کی ہے نغمہ سرائی میں نے بھی
ایک دیا تو مرقد پر بھی جلتا ہے عاصمؔ آخر
دنیا آس پہ قائم تھی سو آس لگائی میں نے بھی
لیاقت علی عاصم
یوم پیدائش 14 اگست 1948
گزر چکا ہے زمانہ وصال کرنے کا
یہ کوئی وقت ہے تیرے کمال کرنے کا
برا نہ مان جو پہلو بدل رہا ہوں میں
مرا طریقہ ہے یہ عرض حال کرنے کا
مجھے اداس نہ کر ورنہ ساکھ ٹوٹے گی
نہیں ہے تجربہ مجھ کو ملال کرنے کا
تلاش کر مرے اندر وجود کو اپنے
ارادہ چھوڑ مجھے پائمال کرنے کا
یہ ہم جو عشق میں بیمار پڑتے رہتے ہیں
یہ اک سبب ہے تعلق بحال کرنے کا
عجیب شخص تھا لوٹا گیا مرا سب کچھ
معاوضہ نہ لیا دیکھ بھال کرنے کا
پھر اس کے بعد ہمیشہ ہی چپ رہے محسنؔ
خراج دینا پڑا عرض حال کرنے کا
محسن اسرار
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...