Urdu Deccan

Sunday, September 19, 2021

نور محمد یاس

 قد یوں بھی کم کہاں ہے جو اب تن پہ سر نہیں

اس حادثے کا مجھ پہ زیادہ اثر نہیں


کس کس طرف سفر پہ گۓ ہیں ہمارے خواب

اب تک کہیں سے کوئی بھی خیر و خبر نہیں


لو سینہ داغ داغ ہوا کائنات کا

سورج بھی اب تو چشم و چراغِ نظر نہیں


اس نے بھری تھی جست مرے ساتھ اور اب

میں کن بلندیوں پہ ہوں شاید خبر نہیں


وہ بد گماں کہ ذات ہے اُس کی مرا ہدف

میں مطمئن کہ بات مری بے اثر نہیں


لائی سفر سے کھینچ کے جب مجھکو گھر کی یاد

کیا دیکھتا ہوں کوئی مرا منتظر نہیں


کم ہیں مرے سخن میں پُراسرار باب یاسؔ

پڑھ لو کُھلی کتاب ہوں میں بند گھر نہیں


نور محمد یاس


ہارون علی ماجد عادل آبادی

 مانا نہیں کسی کا مقدر پہ اختیار

اعمال اور دعاؤں سے تقدیر کو سنوار


ایذا رساں ملیں گے ہر اک موڑ پر مگر

ملتا نہیں ہے کوئی بھی غمخوار وغمگسار


کوٸی دوا بتا یا کوئی حل مرے طبیب

بڑھتا ہی جارہا ہے مرا نفسی خلفشار


جب تک کہ زندگی میں تغیر نہ لاؤ گے

ہونگے نہیں اے دوستو حالات ساز گار


دھوکہ ضرور کھاتے ہیں اک روز دوستو

دورنگی دنیا پر وہ جو کرتے ہیں اعتبار


ہوں پاک ذہن ودل ترے بغض وعناد سے

ہو ذکر مدتوں ترا یوں زندگی گزار


سادہ مزاج ہوتے ہیں ماجد جو واقعی

وہ لوگ ہی جہان میں ہوتے ہیں ذی وقار


ہارون علی 

ماجدؔ عادل آبادی


ہوش نعمانی

 یوم وفات 22 اگست 2014


ایسا ہنر کہ سارا زمانہ مثال دے

یارب جسے زوال نہ ہو وہ کمال دے


عیبوں کو اپنے دن کے اجالے میں کر شمار

ہوتے ہی شام نیکیاں دریا میں ڈال دے


اے میری پیاس اس کا تو امکان ہی نہیں

دریا خود اپنے آپ کو مجھ پر اچھال دے


یہ بھی نہیں کہ اینٹ کا پتھر سے دے جواب

یہ بھی نہیں کہ ظلم سہے اور ٹال دے


اےمیری پیاس اس کا تو امکان ہی نہیں

دریا خود اپنے آپ کو مجھ پر اچھال دے


ساری امیدیں ٹوٹ چکی ہیں جواب کی

میرا سوال ہی مری جھولی میں ڈال دے


اے ہوش احتیاط رہے ایسے شخص سے

جو اپنی گفتگو سے کسی کو ملال دے


ہوش نعمانی


زین احترام

 یوم پیدائش 22 اگست


دوستوں کا یہ بہانہ عام ہے

آ نہیں سکتے ضروری کام ہے


دل دکھانے میں قریبی تھے مرے

دشمنی تو نام سے بدنام ہے


کچھ نہیں تو یومِ پیدائش سہی

سال کا اک دن ہمارے نام ہے


کیا کہا مجھ میں وفا شامل نہیں

یہ سراسر آپ کا الزام ہے


اپنے اپنے راستے سب چل دئیے

بس کہانی کا یہی انجام ہے


یار کوئی ڈھونڈ کر لاۓ مجھے

زین ہو کر بھی کہیں گمنام ہے


زین احترام


ظہور نظر

 یوم پیدائش 22 اگست 1923


رکھا نہیں غربت نے کسی اک کا بھرم بھی

مے خانہ بھی ویراں ہے کلیسا بھی حرم بھی 


لوٹا ہے زمانے نے مرا بیش بھی کم بھی

چھینا تھا تجھے چھین لیا ہے ترا غم بھی


بے آب ہوا اب تو مرا دیدۂ نم بھی

اے گردش عالم تو کسی موڑ پہ تھم بھی


سن اے بت جاندار بت سیمبر اے سن

توڑے نہ گئے ہم سے تو پتھر کے صنم بھی


میں وصل کی بھی کر نہ سکا شدت غم کم

آیا نہ کسی کام ترے ہجر کا سم بھی


دیوار سکوں بیٹھ گئی شدت نم سے

برسا ہے مرے گھر پہ اگر ابر کرم بھی


تنہائی نہ پوچھ اپنی کہ ساتھ اہل جنوں کے

چلتے ہیں فقط چند قدم راہ کے خم بھی


صحرائے غم جاں میں بگولوں سے بچا کون

مٹ جائیں گے اے دوست ترے نقش قدم بھی


سنتے ہیں چمکتا ہے وہ چاند اب بھی سر بام

حسرت ہے کہ بس ایک نظر دیکھ لیں ہم بھی


ظہور نظر


ادا جعفری

 یوم پیدائش 22 اگست 1790


لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے

اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے


ہو عمر خضر بھی تو ہو معلوم وقت مرگ

ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے


ہم سے بھی اس بساط پہ کم ہوں گے بد قمار 

جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے 


بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے

پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے


لیلیٰ کا ناقہ دشت میں تاثیر عشق سے

سن کر فغان قیس بجائے حدی چلے


نازاں نہ ہو خرد پہ جو ہونا ہے ہو وہی

دانش تری نہ کچھ مری دانش وری چلے


دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ

تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے


جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوقؔ

اپنی بلا سے باد صبا اب کبھی چلے


شیخ ابراہیم ذوق


شیخ ابراہیم ذوق

 یوم پیدائش 22 اگست 1790


لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے

اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے


ہو عمر خضر بھی تو ہو معلوم وقت مرگ

ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے


ہم سے بھی اس بساط پہ کم ہوں گے بد قمار 

جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے 


بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے

پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے


لیلیٰ کا ناقہ دشت میں تاثیر عشق سے

سن کر فغان قیس بجائے حدی چلے


نازاں نہ ہو خرد پہ جو ہونا ہے ہو وہی

دانش تری نہ کچھ مری دانش وری چلے


دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ

تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے


جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوقؔ

اپنی بلا سے باد صبا اب کبھی چلے


شیخ ابراہیم ذوق


میر محبوب علی خان آصف جاہ ششم

 یوم پیدائش 17 اگست 1866


لاؤ تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں 

کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی 


میر محبوب علی خان آصف جاہ ششم


 (فیض احمد فیض نے اس شعر کی تضمین میں غزل کہہ دی ہے در اصل یہ شعر میر محبوب علی خان آصف جاہ ششم کا ہے)


زبیر فاروق

 یوم پیدائش 19 اگست 1952


واقعہ کوئی تو ہو جاتا سنبھلنے کے لیے

راستہ مجھ کو بھی ملتا کوئی چلنے کے لیے 


کیوں نہ سوغات سمجھ کر میں اسے کرتا قبول

بھیجتے زہر وہ مجھ کو جو نگلنے کے لیے


اتنی سردی ہے کہ میں بانہوں کی حرارت مانگوں

رت یہ موزوں ہے کہاں گھر سے نکلنے کے لیے


چاہیے کوئی اسے ناز اٹھانے والا

دل تو تیار ہے ہر وقت مچلنے کے لیے


اب تو فاروقؔ اسی حال میں خوش رہتے ہیں

وقت ہے پاس کہاں اپنے بدلنے کے لیے


زبیر فاروقؔ


حسن رضوی

 یوم پیدائش 18 اگست 1946


نہ وہ اقرار کرتا ہے نہ وہ انکار کرتا ہے

ہمیں پھر بھی گماں ہے وہ ہمیں سے پیار کرتا ہے


میں اس کے کس ستم کی سرخیاں اخبار میں دیکھوں

وہ ظالم ہے مگر ہر ظلم سے انکار کرتا ہے


منڈیروں سے کوئی مانوس سی آواز آتی ہے

کوئی تو یاد ہم کو بھی پس دیوار کرتا ہے


یہ اس کے پیار کی باتیں فقط قصے پرانے ہیں

بھلا کچے گھڑے پر کون دریا پار کرتا ہے


ہمیں یہ دکھ کہ وہ اکثر کئی موسم نہیں ملتا

مگر ملنے کا وعدہ ہم سے وہ ہر بار کرتا ہے


حسنؔ راتوں کو جب سب لوگ میٹھی نیند سوتے ہیں

تو اک خواب آشنا چہرہ ہمیں بیدار کرتا ہے


حسن رضوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...