قد یوں بھی کم کہاں ہے جو اب تن پہ سر نہیں
اس حادثے کا مجھ پہ زیادہ اثر نہیں
کس کس طرف سفر پہ گۓ ہیں ہمارے خواب
اب تک کہیں سے کوئی بھی خیر و خبر نہیں
لو سینہ داغ داغ ہوا کائنات کا
سورج بھی اب تو چشم و چراغِ نظر نہیں
اس نے بھری تھی جست مرے ساتھ اور اب
میں کن بلندیوں پہ ہوں شاید خبر نہیں
وہ بد گماں کہ ذات ہے اُس کی مرا ہدف
میں مطمئن کہ بات مری بے اثر نہیں
لائی سفر سے کھینچ کے جب مجھکو گھر کی یاد
کیا دیکھتا ہوں کوئی مرا منتظر نہیں
کم ہیں مرے سخن میں پُراسرار باب یاسؔ
پڑھ لو کُھلی کتاب ہوں میں بند گھر نہیں
نور محمد یاس