Urdu Deccan

Sunday, September 19, 2021

پلو مشرا

 یوم پیدائش 03 سپتمبر


تمہاری دنیا کے باہر اندر بھٹک رہا ہوں 

میں بعد ترک جہاں یہی پر بھٹک رہا ہوں 


میں تجھ سے ملنے سمے سے پہلے پہنچ گیا تھا 

سو تیرے گھر کے قریب آ کر بھٹک رہا ہوں 


میں ایک خانہ بدوش ہوں جس کا گھر ہے دنیا 

سو اپنے کاندھوں پہ لے کے یہ گھر بھٹک رہا ہوں 


میں ہر قدم پر سنبھل سنبھل کر بھٹکنے والا 

بھٹکنے والوں سے کافی بہتر بھٹک رہا ہوں 


پلو مشرا


قیصر شمیم

 یوم وفات 3 سپتمبر 2021

انا اللہ وانا الیہ راجعون

 

شکستہ خواب کے ملبے میں ڈھونڈھتا کیا ہے

کھنڈر کھنڈر ہے یہاں دھول کے سوا کیا ہے


نظر کی دھند میں ہیں بھولی بسری تصویریں

پلٹ کے دیکھنے والے یہ دیکھنا کیا ہے


ابھی تو کاٹ رہی ہے ہر ایک سانس کی دھار

ازل جب آئے تو دیکھوں کہ انتہا کیا ہے


رہے گی دھوپ مرے سر پہ آخری دن تک

جواں ہے پیڑ مگر اس کا آسرا کیا ہے


تجھے پسند کہاں حال پوچھنا میرا

تری نگاہ میں لیکن سوال سا کیا ہے


دھواں نہیں نہ سہی آگ تو نظر آئے

یوں چپکے چپکے سلگنے سے فائدہ کیا ہے


اداس رات کی خاموشیوں میں اے قیصرؔ

قریب آتی ہوئی دور کی صدا کیا ہے


قیصر شمیم


پروین فنا سید

 یوم پیدائش 03 سپتمبر 1936


تجھ کو اب کوئی شکایت تو نہیں

یہ مگر ترک محبت تو نہیں


میری آنکھوں میں اترنے والے

ڈوب جانا تری عادت تو نہیں


تجھ سے بیگانے کا غم ہے ورنہ

مجھ کو خود اپنی ضرورت تو نہیں


کھل کے رو لوں تو ذرا جی سنبھلے

مسکرانا ہی مسرت تو نہیں


تجھ سے فرہاد کا تیشہ نہ اٹھا

اس جنوں پر مجھے حیرت تو نہیں


پھر سے کہہ دے کہ تری منزل شوق

میرا دل ہے مری صورت تو نہیں


تیری پہچان کے لاکھوں انداز

سر جھکانا ہی عبادت تو نہیں


پروین فنا سید


حنیف اخگر

 یوم پیدائش 03 سپتمبر 1928


تم خود ہی محبت کی ہر اک بات بھلا دو

پھر خود ہی مجھے ترک محبت کی سزا دو


ہمت ہے تو پھر سارا سمندر ہے تمہارا

ساحل پہ پہنچ جاؤ تو کشتی کو جلا دو


اقرار محبت ہے نہ انکار محبت

تم چاہتے کیا ہو ہمیں اتنا تو بتا دو


کھل جائے نہ آنکھوں سے کہیں راز محبت

اچھا ہے کہ تم خود مجھے محفل سے اٹھا دو


سچائی تو خود چہرے پہ ہو جاتی ہے تحریر

دعوے جو کریں لوگ تو آئینہ دکھا دو


انسان کو انسان سے تکلیف ہے اخگرؔ

انسان کو تجدید محبت کی دعا دو


حنیف اخگر


رند لکھنوی

 یوم پیدائش 03 سپتمبر 1797


آفت شب تنہائی کی ٹل جائے تو اچھا

گھبرا کے جو دم آج نکل جائے تو اچھا


او جان حزیں جانا ہے اک دن تجھے آخر

اب جائے تو بہتر ہے کہ کل جائے تو اچھا


جھکوا دیا سر ضعف نے قاتل کے قدم پر

تلوار اگر اس کی اگل جائے تو اچھا


بہتر نہیں ہے صورت جاناں کا تصور

دل اور کسی شے سے بہل جائے تو اچھا


اک سل ہے کلیجے پہ نہیں روح بدن میں

چھاتی کا پہاڑ آہ پہ ٹل جائے تو اچھا


دیوانہ عبث شہر کی گلیوں میں ہے برباد

مجنوں کسی جنگل کو نکل جائے تو اچھا


او آتش دل پھونک دے تن اشک بہا دے

بہہ جائے تو بہتر ہے یہ جل جائے تو اچھا


ہر مرتبہ ڈسنے کے ارادہ میں ہے وہ زلف

اژدر یہ اگر مجھ کو نگل جائے تو اچھا


پھر رکنا ہے دشوار یہ جب آئی تو آئی

ایسے میں طبیعت جو سنبھل جائے تو اچھا


تابوت مرا تھم کے اٹھاؤ مرے یارو

وہ بھی کف افسوس جو مل جائے تو اچھا


اے رندؔ ملو یار سے یا ہاتھ اٹھاؤ

جھگڑا چکے ہر شب کا خلل جائے تو اچھا 


رند لکھنوی


سعدیہ بشر

 ہاتھ خالی تھے سو ہم کو کاسے ملے 

بعد مرنے کے کتنے دلاسے ملے


ہم نے آنسو جنے تیسری جنس کے 

جب بھی ارزاں ہوئے تو خدا سے ملے


سانحوں سے مرتب کتب کھو گئیں 

فن ہوا ہو گیا , گم خلاصے ملے


 از قدم تا قدم بھاگتے پھر رہے 

ٹوٹ کر گر گئے تب دعا سے ملے


بھول جانا ہنر ہے, نہیں آ سکا

عشق میں کچھ دفینے خطا سے ملے


سعدیہ بشیر


جمیل مظہری

 یوم پیدائش 02 سپتمبر 1904


میں صدقے تجھ پہ ادا تیرے مسکرانے کی

سمیٹے لیتی ہے رنگینیاں زمانے کی


جو ضبط شوق نے باندھا طلسم خودداری

شکایت آپ کی روٹھی ہوئی ادا نے کی


کچھ اور جرأت دست ہوس بڑھاتی ہے

وہ برہمی جو ہو تمہید مسکرانے کی


کچھ ایسا رنگ مری زندگی نے پکڑا تھا

کہ ابتدا ہی سے ترکیب تھی فسانے کی


جلانے والے جلاتے ہی ہیں چراغ آخر

یہ کیا کہا کہ ہوا تیز ہے زمانے کی


ہوائیں تند ہیں اور کس قدر ہیں تند جمیلؔ

عجب نہیں کہ بدل جائے رت زمانے کی


جمیلؔ مظہری


شبیر نازش

 نہیں ہو سکتا مرے یار! نہیں ہو سکتا

عشق عاشق کا طرفدار نہیں ہو سکتا


مر رہا ہے جو مری ایک جھلک کی خاطر

اس کا کہنا تھا اسے پیار نہیں ہو سکتا


چاند سورج کو بھی آغوش میں لے لیتا ہے

اور اِس بات سے انکار نہیں ہو سکتا


تو مرا دوست ہے اور دوست بھی اچھا والا

تو مری راہ کی دیوار نہیں ہو سکتا


ہم بڑی عمر میں اے عشق! تری نذر ہوئے

کھل کے اِس عمر میں اِظہار نہیں ہو سکتا


جسم تو جسم، مری روح بھی ہے ایک ہی اِسم

اور اِس اِسم سے اِنکار نہیں ہو سکتا


جھوٹ کہتا ہے کوئی ایسا اگر کہتا ہے

وہ کسی حسن کا بیمار نہیں ہو سکتا


ایسے سردار کی سرداری نہیں مانتے ہم

جس کا سر اونچا سرِ دار نہیں ہو سکتا


عشق میں جو بھی روا رکھے دیانت نازشؔ!

ہجر اس شخص کو آزار نہیں ہو سکتا


شبّیر نازش، 


اظہر فراغ

 یوم پیدائش 31 اگست 1980


دھوپ میں سایہ بنے تنہا کھڑے ہوتے ہیں

بڑے لوگوں کے خسارے بھی بڑے ہوتے ہیں


ایک ہی وقت میں پیاسے بھی ہیں سیراب بھی ہیں

ہم جو صحراؤں کی مٹی کے گھڑے ہوتے ہیں


یہ جو رہتے ہیں بہت موج میں شب بھر ہم لوگ

صبح ہوتے ہی کنارے پہ پڑے ہوتے ہیں


ہجر دیوار کا آزار تو ہے ہی لیکن

اس کے اوپر بھی کئی کانچ جڑے ہوتے ہیں


آنکھ کھلتے ہی جبیں چومنے آ جاتے ہیں

ہم اگر خواب میں بھی تم سے لڑے ہوتے ہیں


ہے ملال ایسے ہمیں باغ کی ویرانی کا 

جیسے ہم لوگ درختوں سے جھڑے ہوتے ہیں


اظہر فراغ


شمشاد شاد

 شہرِ سنگدل ہے یا قاتلوں کی بستی ہے

 زندگی گراں قیمت اور موت سستی ہے

 

جبر ہے تشدد ہے اور چیرہ دستی ہے 

 پھر ترے نشانے پر میری فاقہ مستی ہے

 

ختم ہی نہیں ہوتا انتظار کا موسم

موت سے گلے ملنے زندگی ترستی ہے


کیا بتاؤں میں تم کو کیا گزرتی ہے دل پر

ہجر کی تمازت سے روح جب جھلستی ہے


وہ تو چاہتیں اپنی غیروں پر لٹاتے ہیں

ان کے پیار کی بارش ہم پہ کب برستی ہے


جذبہءِ جواں مردی مجھ میں کم نہیں لیکن 

فکر ناگہانی اب حوصلوں کو ڈستی ہے 


سرفراز ہوتی ہے جس کے قدموں میں جنت 

ماں جہانِ گلشن کی وہ عظیم ہستی ہے


شاؔد اپنے قامت پر ہم غرور کیا کرتے

عرش کی بلندی جب خود رہین پستی ہے


شمشاد شاد


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...