یوم پیدائش 03 سپتمبر 1797
آفت شب تنہائی کی ٹل جائے تو اچھا
گھبرا کے جو دم آج نکل جائے تو اچھا
او جان حزیں جانا ہے اک دن تجھے آخر
اب جائے تو بہتر ہے کہ کل جائے تو اچھا
جھکوا دیا سر ضعف نے قاتل کے قدم پر
تلوار اگر اس کی اگل جائے تو اچھا
بہتر نہیں ہے صورت جاناں کا تصور
دل اور کسی شے سے بہل جائے تو اچھا
اک سل ہے کلیجے پہ نہیں روح بدن میں
چھاتی کا پہاڑ آہ پہ ٹل جائے تو اچھا
دیوانہ عبث شہر کی گلیوں میں ہے برباد
مجنوں کسی جنگل کو نکل جائے تو اچھا
او آتش دل پھونک دے تن اشک بہا دے
بہہ جائے تو بہتر ہے یہ جل جائے تو اچھا
ہر مرتبہ ڈسنے کے ارادہ میں ہے وہ زلف
اژدر یہ اگر مجھ کو نگل جائے تو اچھا
پھر رکنا ہے دشوار یہ جب آئی تو آئی
ایسے میں طبیعت جو سنبھل جائے تو اچھا
تابوت مرا تھم کے اٹھاؤ مرے یارو
وہ بھی کف افسوس جو مل جائے تو اچھا
اے رندؔ ملو یار سے یا ہاتھ اٹھاؤ
جھگڑا چکے ہر شب کا خلل جائے تو اچھا
رند لکھنوی