یوم پیدائش 16 سپتمبر 1969
ہوس کی حکم رانی ہو رہی ہے
محبت پانی پانی ہو رہی ہے
بسر یوں زندگانی ہو رہی ہے
کہ جیسے لن ترانی ہو رہی ہے
سخنور ہو زباں اپنی سنبھالو
سخن میں بد زبانی ہو رہی ہے
پرایا ہے وہ اب میرا نہیں ہے
کسی کو خوش گمانی ہو رہی ہے
بلا کر مجھ کو محفل سے نکالا
یہ کیسی میزبانی ہو رہی ہے
بسا رکھی ہے دل میں ایک دنیا
پشیماں زندگانی ہو رہی ہے
یہ کس کا ذکر آیا ہے غزل میں
یہ کیسی گل فشانی ہو رہی ہے
حساب زندگی دینا پڑے گا
رقم ہر اک کہانی ہو رہی ہے
جفا اس کی کرونا کی طرح سے
بلائے ناگہانی ہو رہی ہے
کہاں آتی ہے مجھ کو شعر گوئی
خدا کی مہربانی ہو رہی ہے
کسی طوفان کا ہے پیش خیمہ
خموشی ذو معانی ہو رہی ہے
کوئی رنگین لمحہ ذہن میں ہے
جو صورت زعفرانی ہو رہی ہے
کرشمہ ہے یہ سب اس کی نظر کا
جوانی جاودانی ہو رہی ہے
مبرا اس سے اب کوئی نہیں ہے
انا بھی خاندانی ہو رہی ہے
صہیب فاروقی