Urdu Deccan

Tuesday, September 21, 2021

سلمان ثروت

 یوم پیدائش 17 سپتمبر 1977


آنکھ ہے اک کٹورا پانی کا 

اور یہ حاصل ہے زندگانی کا 


رائیگاں کر گیا مجھے آخر 

خوف ایسا تھا رائیگانی کا 


چل نکلتا ہے سلسلہ اکثر

خوش گمانی سے بد گمانی کا 


کیا ٹھکانہ غم و خوشی کا ہو 

دل علاقہ ہے لا مکانی کا 


جا کے دریا میں پھینک آیا ہوں 

یہ کیا ہے تری نشانی کا 


جس کا انجام ہی نہیں کوئی 

میں ہوں کردار اس کہانی کا 


مدعا نظم ہو نہیں پایا 

شعر دھوکہ ہے ترجمانی کا


سلمان ثروت


سمیع احمد ثمر

 سوا خدا کے کسی کا بھی ڈر نہیں رکھتے

جھکا کے اپنا کہیں پر بھی سر نہیں رکھتے


یقین کیجئے ہم تو اصول والے ہیں

پراۓ دھن پہ کبھی بد نظر نہیں رکھتے


جو ہم نے سیکھا ہے دنیا میں وہ سکھاتے ہیں

چھپا کے اپنا کبھی ہم ہنر نہیں رکھتے


نہ جانے آنے لگے کب کہاں سے سنگ کوئی

یہ سوچ کر ہی تو شیشے کا گھر نہیں رکھتے


کبھی پہنچ نہیں پائے جو اپنی منزل تک

ہم اپنے ذہن میں ایسی ڈگر نہیں رکھتے


وہ بد گمان ہوئے ہیں کسی کے کہنے سے

ارادہ ترکِ وفا کا مگر نہیں رکھتے


وہ جو بھی کہتے ہیں اکثر ہی منہ پہ کہتے ہیں 

کبھی بھی شکوہ وہ دل میں ثمر نہیں رکھتے


سمیع احمد ثمرؔ


بیخود بدایونی


 یوم پیدائش 17 سپتمبر 1857


درد دل میں کمی نہ ہو جائے

دوستی دشمنی نہ ہو جائے


تم مری دوستی کا دم نہ بھرو

آسماں مدعی نہ ہو جائے


بیٹھتا ہے ہمیشہ رندوں میں

کہیں زاہد ولی نہ ہو جائے


طالع بد وہاں بھی ساتھ نہ دے

موت بھی زندگی نہ ہو جائے


اپنی خوئے وفا سے ڈرتا ہوں

عاشقی بندگی نہ ہو جائے


کہیں بیخودؔ تمہاری خودداری

دشمن بے خودی نہ ہو جائے


بیخود بدایونی

ارجمند بانو افشاں

 یوم پیدائش 17 سپتمبر 1962


جو راہ چلنا ہے خود ہی چن لو یہاں کوئی راہبر نہیں ہے 

یہی حقیقت ہے بات مانو تمہیں ابھی کچھ خبر نہیں ہے 


کسی کو سادہ دلی کا بدلہ ملا ہی کب ہے جو اب ملے گا 

وفا بھی دنیا میں ایک شے ہے مگر وہ اب معتبر نہیں ہے 


نہ جانے کب رخ ہوا بدل دے بھڑک اٹھیں پھر وہ بجھتے شعلے 

ہراس ہے وہ فضا پہ طاری کہیں بھی محفوظ گھر نہیں ہے 


جو چاہتے ہیں چمن کو باٹیں وہ کیسے باٹیں‌ گے فصل گلشن 

بہے گا غنچوں کا خون کتنا انہیں تو اس کا بھی ڈر نہیں ہے 


جو پشت پہ وار کر رہے ہیں کہو کہ اب سامنے سے آئیں 

جسے وہ غافل سمجھ رہے ہیں وہ اس قدر بے خبر نہیں ہے 


نہ کامیابی ملے گی تم کو ہمیں مٹانے کی کوششوں میں 

جھکے گا جو ظالموں کے آگے وہ حق پرستوں کا سر نہیں ہے 


جو بانٹتے ہیں متاع ہستی انہیں یہ افشاںؔ ذرا بتا دو 

جو میں نے مانگا ہے حق ہے میرا مجھے یہ کہنے میں ڈر نہیں ہے 


ارجمند بانو افشاں


نصرت گوالیاری

 یوم پیدائش 17 سپتمبر 1972


شفق کا رنگ کا خوشبو کا خواب تھا میں بھی

پرائے ہاتھ میں کوئی گلاب تھا میں بھی


نہ جانے کتنے زمانے مرے وجود میں تھے

خود اپنی ذات میں اک انقلاب تھا میں بھی


کہانیاں تو بہت تھیں مگر لکھی نہ گئیں

کسی کے ہاتھ میں سادہ کتاب تھا میں بھی


نہ جانے کیوں نظر انداز کر دیا مجھ کو

جہاں پہ تم تھے وہیں دستیاب تھا میں بھی


اندھیرے بونے کا ان کو جنون تھا جیسے

چمک میں اپنی جگہ آفتاب تھا میں بھی


تمہی نہیں تھے سمندر کے پانیوں کی طرح

کبھی سکون کبھی اضطراب تھا میں بھی


نہ پوچھو کتنا مزا گفتگو میں آیا ہے

ذہین وہ بھی تھا حاضر جواب تھا میں بھی


نصرت گوالیاری


انجم رہبر

 یوم پیدائش 17 سپتمبر 1962


جن کے آنگن میں امیری کا شجر لگتا ہے

ان کا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے


چاند تارے مرے قدموں میں بچھے جاتے ہیں

یہ بزرگوں کی دعاؤں کا اثر لگتا ہے


ماں مجھے دیکھ کے ناراض نہ ہو جائے کہیں

سر پہ آنچل نہیں ہوتا ہے تو ڈر لگتا ہے


انجم رہبر


سید عابد علی عابد

 یوم پیدائش 17 سپتمبر 1906


چین پڑتا ہے دل کو آج نہ کل

وہی الجھن گھڑی گھڑی پل پل


میرا جینا ہے سیج کانٹوں کی

ان کے مرنے کا نام تاج محل


کیا سہانی گھٹا ہے ساون کی

سانوری نار مدھ بھری چنچل


نہ ہوا رفع میرے دل کا غبار

کیسے کیسے برس گئے بادل


پیار کی راگنی انوکھی ہے

اس میں لگتی ہیں سب سریں کومل


بن پئے انکھڑیاں نشیلی ہیں

نین کالے ہیں تیرے بن کاجل


مجھے دھوکا ہوا کہ جادو ہے

پاؤں بجتے ہیں تیرے بن چھاگل


لاکھ آندھی چلے خیاباں میں

مسکراتے ہیں طاقچوں میں کنول


لاکھ بجلی گرے گلستاں میں

لہلہاتی ہے شاخ میں کونپل


کھل رہا ہے گلاب ڈالی پر

جل رہی ہے بہار کی مشعل


کوہ کن سے مفر نہیں کوئی

بے ستوں ہو کہیں کہ بندھیاچل


ایک دن پتھروں کے بوجھ تلے

خود بخود گر پڑیں گے راج محل


دم رخصت وہ چپ رہے عابدؔ

آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل


سید عابد علی عابد


شمسی مینائی

 یوم پیدائش 16 سپتمبر 1919


دیدۂ شوق لیے جذبۂ بے تاب لئے

آج تو حسن بھی ہے عشق کے آداب لئے


چشم مخمور لئے کاکل شب تاب لئے

رشک ایماں بھی ہیں وہ کفر کے اسباب لئے


ان کے ابرو پہ ہیں بل اور تبسم لب پر

میرے افسانۂ ہستی کا نیا باب لئے


اب تو یہ حال ہے دیکھے ہوئے مدت گزری

کوئی گزرا ہی نہیں خندۂ شاداب لئے


خواب کیا چیز ہے اب خواب کی تعبیر سنو

ورنہ ہر دیدۂ بے خواب ہے اک خواب لئے


راہ میں اب کوئی طوفاں کوئی سیلاب آئے

زندگی آج ہے خود فطرت سیلاب لئے


شمسی مینائی


تاج سعید

 یوم پیدائش 16 سپتمبر 1933


شہر کے دیوار و در پر رت کی زردی چھائی تھی

ہر شجر ہر پیڑ کی قسمت میں اب تنہائی تھی


جینے والوں کا مقدر شہرتیں بنتی رہیں

مرنے والوں کے لیے اب دشت کی تنہائی تھی


چشم پوشی کا کسی ذی ہوش کو یارا نہ تھا

رت صلیب و دار کی اس شہر میں پھر آئی تھی


میں نے ظلمت کے فسوں سے بھاگنا چاہا مگر

میرے پیچھے بھاگتی پھرتی مری رسوائی تھی


بارشوں کی رت میں کوئی کیا لکھے آخر سعیدؔ

لفظ کے چہروں کی رنگت بھی بہت دھندلائی تھی


تاج سعید


صہیب فاروقی

 یوم پیدائش 16 سپتمبر 1969


ہوس کی حکم رانی ہو رہی ہے 

محبت پانی پانی ہو رہی ہے 


بسر یوں زندگانی ہو رہی ہے 

کہ جیسے لن ترانی ہو رہی ہے 


سخنور ہو زباں اپنی سنبھالو 

سخن میں بد زبانی ہو رہی ہے 


پرایا ہے وہ اب میرا نہیں ہے 

کسی کو خوش گمانی ہو رہی ہے 


بلا کر مجھ کو محفل سے نکالا 

یہ کیسی میزبانی ہو رہی ہے 


بسا رکھی ہے دل میں ایک دنیا 

پشیماں زندگانی ہو رہی ہے 


یہ کس کا ذکر آیا ہے غزل میں 

یہ کیسی گل فشانی ہو رہی ہے 


حساب زندگی دینا پڑے گا 

رقم ہر اک کہانی ہو رہی ہے 


جفا اس کی کرونا کی طرح سے 

بلائے ناگہانی ہو رہی ہے 


کہاں آتی ہے مجھ کو شعر گوئی 

خدا کی مہربانی ہو رہی ہے 


کسی طوفان کا ہے پیش خیمہ 

خموشی ذو معانی ہو رہی ہے 


کوئی رنگین لمحہ ذہن میں ہے 

جو صورت زعفرانی ہو رہی ہے 


کرشمہ ہے یہ سب اس کی نظر کا 

جوانی جاودانی ہو رہی ہے 


مبرا اس سے اب کوئی نہیں ہے 

انا بھی خاندانی ہو رہی ہے


صہیب فاروقی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...