Urdu Deccan

Sunday, October 31, 2021

شعیب بن عزیز

 یوم پیدائش 21 اکتوبر 1950


اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں 

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں 


اب تو اس کی آنکھوں کے مے کدے میسر ہیں 

پھر سکون ڈھونڈوگے ساغروں میں جاموں میں 


دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب 

میں ترے فقیروں میں میں ترے غلاموں میں 


زندگی بکھرتی ہے شاعری نکھرتی ہے 

دلبروں کی گلیوں میں دل لگی کے کاموں میں 


جس طرح شعیبؔ اس کا نام چن لیا تم نے 

اس نے بھی ہے چن رکھا ایک نام ناموں میں 


شعیب بن عزیز


شہباز ندیم ضیائی

 یوم پیدائش 21 اکتوبر 1951


ساعت آسودگی دیکھے ہوئے عرصہ ہوا

مفلسی کو میرے گھر ٹھہرے ہوئے عرصہ ہوا


لمحۂ راحت رسا دیکھے ہوئے عرصہ ہوا

ماں ترے شانے پہ سر رکھے ہوئے عرصہ ہوا


ہجر کی تاریکیوں کا سلسلہ ہے دور تک

چاندنی کو چاند سے بچھڑے ہوئے عرصہ ہوا


زندگی بے خواب لمحوں میں سمٹ کر رہ گئی

ہجر میں تیرے پلک جھپکے ہوئے عرصہ ہوا


خوف سے سہما ہوا ہے دل پرندہ آج بھی

سر سے سیلاب الم گزرے ہوئے عرصہ ہوا


دل کو رہتا ہے مسلسل منتشر ہونے کا خوف

یعنی اندر سے مجھے ٹوٹے ہوئے عرصہ ہوا


کاروبار زیست میں کچھ اس قدر الجھا کہ بس

تیرے بارے میں بھی کچھ سوچے ہوئے عرصہ ہوا


اے ہجوم آرزو اب چاہتا ہوں تخلیہ

خانۂ دل میں تجھے رہتے ہوئے عرصہ ہوا


میں کہاں ہوں کون سی منزل میں ہوں کوئی بتائے

مجھ کو اپنی کھوج میں نکلے ہوئے عرصہ ہوا


دشمنی گم ہو گئی ہے دوستوں کی بھیڑ میں

چہرہ ہائے دشمناں دیکھے ہوئے عرصہ ہوا


جا تو اپنی راہ لے اب اے دل عشرت طلب

پہلوئے شہبازؔ میں بیٹھے ہوئے عرصہ ہوا


شہباز ندیم ضیائی


شہاب دہلوی

 یوم پیدائش 20 اکتوبر 1922


حادثے راہِ طلب میں ابھی کچھ اور بھی ہیں

قابلِ غور سوالات پسِ غور بھی ہیں


ہم نے ناموسِ وفا کو ہی رکھا پیش نظر

ورنہ جینے کے طریقے تو یہاں اور بھی ہیں


کہیں مرجھائے ہوئے پھول کہیں تازہ بہار

چند دستور پرانے بھی نئے طور بھی ہیں


انقلابات جہاں کے ہیں ہزاروں پہلو

قابلِ دید ہی کیا قابلِ صد غور بھی ہیں


میکدہ تیری ہی جاگیر نہیں ہے ساقی

ہم بھی ہیں جام طلب تشنہ یہاں اور بھی ہیں


خار و خس کو گل و غنچہ پہ فضیلت ہوگی

گردشِ وقت کی تحویل میں وہ دور بھی ہیں


جا نہ گلزار میں پھولوں کے تبسم پہ شہاب

غم کے پابند یہاں تیری طرح اور بھی ہیں


شہاب دہلوی


ذکیہ غزل

 یوم پیدائش 20 اکتوبر 1963


اک بار مدینے کا سفر ہو تو کرم ہو

روضہ پہ پہنچ جاؤں تو پھر نعتؐ رقم ہو


خواہش مجھے دنیا کی نہیں ہے مرے آقاؐ

اب جو بھی سفر ہو، سوئے بطحا و حرم ہو


منگتی ہوں ترے در کی نہ خالی مجھے لوٹا

قائم یونہی بس میری دعاؤں کا بھرم ہو


ہونٹوں پہ ثنا سامنے ہو گنبدِ خضرا

بارش تری رحمت کی ہو اور صحنِ حرم ہو


شرمندہ گناہوں پہ ہوں مایوس نہیں ہوں

آقاؐ درِ اقدس پہ نہ رسوائی کا غم ہو


جاؤ جو غزل تم بھی کبھی شہرِ مدینہ

دامانِ طلب اشکِ ندامت سے بھی نم ہو


ذکیہ غزل


صدا انبالوی

 یوم پیدائش 20 اکتوبر 1951


اب کہاں دوست ملیں ساتھ نبھانے والے

سب نے سیکھے ہیں اب آداب زمانے والے


دل جلاؤ یا دیئے آنکھوں کے دروازے پر

وقت سے پہلے تو آتے نہیں آنے والے


اشک بن کے میں نگاہوں میں تری آؤں گا

اے مجھے اپنی نگاہوں سے گرانے والے


وقت بدلا تو اٹھاتے ہیں اب انگلی مجھ پر

کل تلک حق میں مرے ہاتھ اٹھانے والے


وقت ہر زخم کا مرہم تو نہیں بن سکتا

درد کچھ ہوتے ہیں تا عمر رلانے والے


اک نظر دیکھ تو مجبوریاں بھی تو میری

اے مری لغزشوں پر آنکھ ٹکانے والے


کون کہتا ہے برے کام کا پھل بھی ہے برا

دیکھ مسند پہ ہیں مسجد کو گرانے والے


یہ سیاست ہے کہ لعنت ہے سیاست پہ صداؔ

خود ہیں مجرم بنے قانون بنانے والے


صدا انبالوی 


ایلزبتھ کورین مونا

 یوم پیدائش 18 اکتوبر 1949


دامن تیرا مجھ سے چھوٹا ملنے کے حالات نہیں

لیکن تجھ کو بھول سکوں میں ایسی بھی تو بات نہیں


بدلے بدلے سے لگتے ہیں آج یہ تیرے تیور کیوں

پہلے جیسے کیوں اب تیرے پیار کے وہ جذبات نہیں


میرے ہاتھ کی ساری لکیریں الجھی الجھی لاکھ سہی

ان میں مجھ کو تو مل جائے ہوگی میری مات نہیں


تم سے بچھڑے عرصہ بیتا پھر بھی عکس ہے آنکھوں میں

آئے نہ ہو تم خوابوں میں جو ایسی کوئی رات نہیں


خوش قسمت ہیں لوگ وہ جن کو پیار کے بدلے پیار ملا

اس دنیا میں ہر انساں کو حاصل یہ سوغات نہیں


جاتے جاتے غم کی دولت تم نے بھر دی جھولی میں

اب یہ زیست کا سرمایہ ہے معمولی خیرات نہیں


درد بھری ہے یاد ماضی پھر بھی بس جی لیتے ہیں

ہم نے جانا ہر منڈپ میں آتی ہے بارات نہیں


چاہے بہار کا موسم ہو یا وصل کا کوئی عالم ہو

بیت گئے جو پھر سے واپس آتے وہ لمحات نہیں


جب جب تم یاد آئے موناؔ بھر آئیں میری آنکھیں

آگ لگائے دل میں آنسو یہ کوئی برسات نہیں


ایلزبتھ کورین مونا


محسن نقوی

 نظم موج ادراک


اے عالمِ نجوم و جواہر کے کِردگار !

اے کارسازِ دہر و خداوندِ بحر و بر

اِدراک و آگہی کے لیے منزلِ مراد

بہرِ مسافرانِ جنوں ، حاصلِ سفر !

یہ برگ و بار و شاخ و شجر ، تیری آیتیں

تیری نشانیاں ہیں یہ گلزار و دشت و در

یہ چاندنی ہے تیرے تبسم کا آئینہ

پرتَو ترے جلال کا بے سایہ دوپہر !

موجیں سمندروں کی ، تری رہگزر کے موڑ

صحرا کے پیچ و خم ، ترا شیرازہ ہُنر !

اُجڑے دلوں میں تیری خموشی کے زاویے

تابندہ تیرے حرف ، سرِ لوحِ چشم تر

موجِ صبا ، خرام ترے لطفِ عام کا

تیرے کرم کا نام ، دُعا در دُعا ، اثر


اے عالمِ نجوم و جواہر کے کِردگار !

پنہاں ہے کائنات کے ذوقِ نمو میں تُو

تیرے وجود کی ہے گواہی چمن چمن !

ظاہر کہاں کہاں نہ ہُوا ، رنگ و بُو میں تُو

مری صدا میں ہیں تری چاہت کے دائرے

آباد ہے سدا مرے سوزِ گلو میں تُو

اکثر یہ سوچتا ہوں کہ موجِ نفس کے ساتھ

شہ رگ میں گونجتا ہے لہُو ، یا لہُو میں تُو ؟


اے عالمِ نجوم و جواہر کے کِردگار 

مجھ کو بھی گِرہِ شام و سحر کھولنا سکھا 

پلکوں پہ میں بھی چاند ستارے سجا سکوں

میزانِ خس میں مجھ کو گہر تولنا سکھا

اب زہر ذائقے ہیں زبانِ حروف کے

اِن ذائقوں میں "خاک شفا” گھولنا سکھا

دل مبتلا ہے کب سے عذابِ سکوت میں

تو ربِّ نطق و لب ہے ، مجھے "بولنا” سکھا


عاشور کا ڈھل جانا ، صُغرا کا وہ مر جانا

اکبر تِرے سینے میں ، برچھی کا اُتر جانا

اے خونِ علی اصغر میدانِ قیامت میں

شبیر کے چہرے پر کچھ اور نکھر جانا

سجاد یہ کہتے تھے ، معصوم سکینہ سے

عباس کے لاشے سے چپ چاپ گزر جانا

ننھے سے مجاہد کو ماں نے یہ نصیحت کی

تِیروں کے مقابل بھی ، بے خوف و خطر جانا

محسن کو رُلائے گا ، تا حشر لہُو اکثر

زہرا تیری کلیوں کا صحرا میں بکھر جانا


یہ دشت یہ دریا یہ مہکتے ہوئے گلزار

اِس عالمِ امکاں میں ابھی کچھ بھی نہیں تھا

اِک "جلوہ” تھا ، سو گُم تھا حجاباتِ عدم میں

اِک "عکس” تھا ، سو منتظرِ چشمِ یقیں تھا


یہ موسمِ خوشبو یہ گُہَر تابیِ شبنم

یہ رونقِ ہنگامۂ کونین کہاں تھی؟

گُلنار گھٹاؤں سے یہ چَھنتی ہوئی چھاؤں

یہ دھوپ ، دھنک ، دولتِ دارین کہاں تھی ؟


یہ نکہتِ احساس کی مقروض ہوائیں

دلداری الہام سے مہکے ہوئے لمحات

دوشیزہ انفاس کی تسبیح کے تیوَر

کس کنجِ تصوُّر میں تھے مصروفِ مناجات


"شیرازہ آئینِ قِدَم” کے سبھی اِعراب

بے رَبطیِ اجزائے سوالات میں گُم تھے

یہ رنگ یہ نَیرنگ یہ اورنگ یہ سب رنگ

اِک پردۂ افکار و خیالات میں گُم تھے


یہ پھُول یہ کلیاں یہ چَٹکے ہوئے غُنچے

بے آب و ہوا تشنۂ آیات و مناجات

یہ برگ یہ برکھا یہ لچکتی ہوئی شاخیں

بیگانۂ آدابِ سحر ، بے لِم جذبات


کُہسار کے جَھرنوں سے پھسلتی ہوئی کرنیں

اِک خوابِ مسلسل کے تحیّر میں نہاں تھیں

چپ چاپ فضاؤں میں مچلتی ہوئی لہریں

ماحول کے بے نطق تصوّر پہ گراں تھیں


غم خانۂ ظلمت ، نہ کوئی بزمِ چراغاں

خورشید نہ مہتاب ، نہ انجم نہ کواکِب

شورش گۂ "کُن” تھی نہ یہ آوازِ دمادم

تفریقِ مَن و تُو ، نہ مساوات و مراتب


ہنگامۂ شادی ، نہ کوئی مجلسِ ماتم

یلغارِ حریفاں ، نہ جلوسِ غمِ یاراں

آنکھوں میں کوئی زخم ، نہ سینے میں کوئی چاک

انبوۂ رقیباں ، نہ رُخِ لالہ عذاراں


اَفلاس کا احساس ، نہ پندارِ زَر و سیم

بخشش کے تقاضے ، نہ یہ دریوزہ گَری تھی

پتھر کا زمانہ تھا ، نہ شیشے کے مکاں تھے

یہ عقل کا دستور ، نہ شَوریدہ سَری تھی


مقتول کی فریاد ، نہ آوازۂ قاتل

مقتل تھے ، نہ شہ رگ میں لہو تھا ، نہ ہَوَس تھی

دربار ، نہ لشکر ، نہ کوئی عَدل کی زنجیر

دِل تھا ، نہ کہیں تیرگیِ کنجِ قفس تھی


رہبر تھے ، نہ منزل تھی ، نہ رستے ، نہ مسافر

قندیل ، نہ جُگنو ، نہ ستارے ، نہ گُہر تھے

یہ اَبیض و اَسود ، نہ اَبّ و جَد ، نہ زَر و سیم

اِنساں تھے ، نہ حیواں ، نہ حَجر تھے ، نہ شَجر تھے


ہر سمت مسلط تھے تحیّر کے طلِسمات

جیسے کسی مدفن میں ہو صدیوں کا کوئی راز

جس طرح کِسی اُجڑے ہوئے شہر کے سائے

یا موت کی ۂ چکی میں پگھلتی ہوئی آواز


جیسے کسی گھر میں صَفِ ماتم کی خموشی

یا دشت و بیاباں میں نزولِ شبِ آفات

جیسے کسی کہسار پہ تنہا کوئی خیمہ

یا شامِ غریباں کے تصرف میں سمٰوات


ہَولے سے سِرکنے لگے ہستی کے حجابات

دھیرے سے ڈھلکنے لگا تخلیق کا آنچل

چھَن چھَن کے بکھرنے لگا "شیرازۂ کُن کُن”

رِم جھِم سے برسنے لگے احساس کے بادل


پلکیں سی جھپکنے لگی دوشیزۂ کونین

ہلچل سی ہوئی پیکرِ عالم کی رگوں میں

آفاق کے سینے میں دھڑکنے لگیں کرنیں

"شیرازہ کُن” ڈھل بھی گیا تھا "فَیَکُوں” میں


ہر سمت بکھرنے لگیں وجدان کی کرنیں

کرنوں سے کھِلے رنگ تو رنگوں سے گلستاں

بیدار ہوئی خواب سے خوشبوئے رگِ گُل

خوشبو سے مہکنے لگا دامانِ بیاباں


دامانِ بیاباں میں نہاں سینہ برفاب

برفاب کے سینے میں تلاطم بھی شَرر بھی

اعجازِ لبِ کُن سے ہوئے خَلق بیک وقت

صحرا بھی ، سمندر بھی ، کہستاں بھی ، شجر بھی


پھر حِدّتِ تخلیق کی شدت سے پگھل کر

جاگے کئی طوفان ، تہِ سینہ برفاب

ہر موج تھی پَروَردۂ آغوشِ تلاطم

ہر قطرہ کا دل ، صورتِ بے خوابی سِیماب


شانوں پہ اُٹھائے ہوئے بارِ کفِ سیلاب

بے سمت بھٹکنے لگیں منہ زور ہوائیں

مُنہ زور ہواؤں کے تھپیڑوں کی دھمک سے

دِل بن کے دھڑکنے لگیں بے رنگ فضائیں


بے رنگ فضاؤں کے تحیر کی کَسک میں

پنہاں تھے شب و روز سے آلود زمانے

بے اَنت زمانوں کے اُفق تھے نہ حدیں تھیں

آخر دیا ترتیب انہیں دَستِ قضا نے


پھر چشمِ تحیر نے یہ سوچا کہ فضا میں

شادابیِ گلزارِ طرب کس کے لیے ہے ؟

یہ کون ہُوا باعثِ تخلیقِ دو عالم ؟

یہ ارض و سما کیوں ہیں ، یہ سب کس کے لیے ہے ؟


تزئینِ مَہ و انجمِ افلاک کا باعث

ہے کون ؟ جو خلوت کے حجابوں میں چھُپا ہے؟

تخلیقِ رگ و ریشۂ کونین کا مقصد

ہے کیا ؟ جو سرِ لوحِ شب روز لکھا ہے ؟


ہے کس کے لیے عَشوہ بلقیسِ تصوّر

یہ غمزۂ رخسارِ جہاں کس کے لیے ہے ؟

آرائشِ خال و خدِ ہستی کا سبب کون ؟

یہ انجمنِ کون و مکاں کس کے لیے ہے ؟


پھر ریشمِ انوار کا ملبوس پہن کر

ظاہر ہوا اِک پیکرِ صد رنگ بصد ناز

نِکھرے کئی بکھرے ہوئے رنگوں کے مناظر

فطرت کی تَجلّی ہوئی آمادۂ اعجاز


وہ پیکرِ تقدیس ، وہ سرمایہ تخلیق

وہ قبلۂ جاں ، مقصدِ تخلیقِ دو عالم

وجدان کا معیار ، مَہ و مہر کا محوَر

وہ قافلہ سالارِ مزاجِ بنی آدم


وہ منزلِ اربابِ نظر ، فکر کی تجسیم

وہ کعبۂ تقدیرِ دو عالم ، رخِ احساس

وہ بزمِ شب و روز کا سلطانِ مُعظّم

وہ رونقِ رخسارۂ فیروزہ و الماس


وہ شعلگیِ شمعِ حرم ، تابشِ خورشید

وہ آئینہ حُسنِ رُخِ ارض و سماوات

وہ جس سے رواں موجِ تبسم کی سبیلیں

وہ جس کے تکلم کی دھنک چشمہ آیات


وہ جس کا ثنا خواں دلِ فطرت کا تکلم

ہستی کے مناظر ، خمِ ابرو کے اشارے

آفاق ہیں دامن کی صباحت پہ تصدُّق

قدموں کے نشاں ڈھونڈتے پھرتے ہیں ستارے


اُس رحمتِ عالم کا قصیدہ کہوں کیسے؟

جو مہرِ عنایات بھی ہو ، ابرِ کرم بھی

کیا اُس کے لیے نذر کروں ، جس کی ثنا میں

سجدے میں الفاظ بھی ، سطریں بھی ، قلم بھی


چہرہ ہے کہ انوارِ دو عالم کا صحیفہ

آنکھیں ہیں کہ بحرین تقدس کے نگین ہیں

ماتھا ہے کہ وحدت کی تجلی کا ورق ہے

عارِض ہیں کہ "والفجر” کی آیات کے اَمیں ہیں


گیسُو ہیں کہ "وَاللَّیل” کے بکھرے ہوئے سائے

ابرو ہیں کہ قوسینِ شبِ قدر کھُلے ہیں

گردن ہے کہ بَر فرقِ زمیں اَوجِ ثُریا

لَب صورتِ یاقوت شعاعوں میں دھُلے ہیں


قَد ہے کہ نبوت کے خدوخال کا معیار

بازو ہیں کہ توحید کی عظمت کے عَلم ہیں

سینہ ہے کہ رمزِ دل ہستی کا خزینہ

پلکیں ہیں کہ الفاظِ رُخِ لوح و قلم ہیں


باتیں ہیں کہ طُوبٰی کی چٹکتی ہوئی کلیاں

لہجہ ہے کہ یزداں کی زباں بول رہی ہے

خطبے ہیں کہ ساون کے اُمنڈتے ہوئے دریا

قرأت ہے کہ اسرارِ جہاں کھول رہی ہے


یہ دانت ، یہ شیرازہ شبنم کے تراشے

یاقوت کی وادی میں دمکتے ہوئے ہیرے

شرمندہ تابِ لب و دندانِ پَیمبرؐ

حرفے بہ ثنا خوانی و خامہ بہ صریرے


یہ موجِ تبسم ہے کہ رنگوں کی دھنک ہے

یہ عکسِ متانت ہے کہ ٹھہرا ہوا موسم

یہ شُکر کے سجدے ہیں کہ آیات کی تنزیل

یہ آنکھ میں آنسو ہیں کہ الہام کی رِم جھم


یہ ہاتھ یہ کونین کی تقدیر کے اوراق

یہ خط ، یہ خد و خالِ رُخِ مصحف و اِنجیل

یہ پاؤں یہ مہتاب کی کِرنوں کے مَعابِد

یہ نقشِ قدم ، بوسہ گہِ رَف رَف و جِبریل


یہ رفعتِ دستار ہے یا اوجِ تخیل

یہ بند قبا ہے کہ شگفتِ گُلِ ناہید

یہ سایہ داماں ہے کہ پھیلا ہوا بادل

یہ صبحِ گریباں ہے کہ خمیازۂ خورشید


یہ دوشِ پہ چادر ہے کہ بخشش کی گھٹا ہے

یہ مہرِ نبوت ہے کہ نقشِ دلِ مہتاب

رُخسار کی ضَو ہے کہ نمو صبحِ ازل کی

آنکھوں کی ملاحت ہے کہ روئے شبِ کم خواب


ہر نقشِ بدن اتنا مناسب ہے کہ جیسے

تزئین شب و روز کہ تمثیلِ مہ و سال

ملبوسِ کُہن یوں شِکن آلود ہے جیسے

ترتیب سے پہلے رخِ ہستی کے خدوخال


رفتار میں افلاک کی گردش کا تصور

کردار میں شامل بنی ہاشم کی اَنا ہے

گفتار میں قرآں کی صداقت کا تیقُّن

معیار میں گردُوں کی بلندی کفِ پا ہے


وہ فکر کہ خود عقلِ بشر سَر بگریباں

وہ فقر کے ٹھوکر میں ہے دنیا کی بلندی

وہ شُکر کے خالق بھی ترے شُکر کا ممنون

وہ حُسن کہ یوسفؑ بھی کرے آئینہ بندی


وہ علم کہ قرآں کا تِری عِترت کا قصیدہ

وہ حِلم کہ دشمن کو بھی اُمیدِ کرم ہے

وہ صبر کہ شَبِّیر تِری شاخِ ثمر دار

وہ ضبط کہ جس ضبط میں عرفانِ اُمم ہے


"اورنگِ سلیمان” تری نعلین کا خاکہ

"اِعجازِ مسیحا” تری بکھری ہوئی خوشبو

"حُسنِ یدِ بیضا” تری دہلیز کی خیرات

کونین کی سَج دھج تِری آرائشِ گیسُو


سَرچشمۂ کوثر ترے سینے کا پسینہ

سایہ تری دیوار کا معیارِ اِرَم ہے

ذرے تِری گلیوں کے مہ و انجمِ افلاک

"سُورج” ترے رہوار کا اک نقشِ قدم ہے


دنیا کے سلاطیں ترے جارُوب کشوں میں

عالم کے سکندر تِری چوکھٹ کے بھکاری

گردُوں کی بلندی ، تری پاپوش کی پستی

جبریل کے شہپر ترے بچوں کی سواری


دھرتی کے ذوِی العدل ، تِرے حاشیہ بردار

فردوس کی حوریں ، تِری بیٹی کی کنیزیں

کوثر ہو ، گلستانِ ارم ہو کہ وہ طُوبٰی

لگتی ہیں ترے شہر کی بکھری ہوئی چیزیں


ظاہر ہو تو ہر برگِ گُلِ تَر تِری خوشبو

غائب ہو تو دنیا کو سراپا نہیں ملتا

وہ اِسم کہ جس اِسم کو لب چوم لیں ہر بار

وہ جسم کہ سُورج کو بھی سایہ نہیں ملتا


احساس کے شعلوں میں پگھلتا ہوا سورج

انفاس کی شبنم میں ٹھٹھرتی ہوئی خوشبو

اِلہام کی بارش میں یہ بھیگے ہوئے الفاظ

اندازِ نگارش میں یہ حُسن رمِ آہُو


حیدر تری ہیبت ہے تو حَسنین ترا حُسن

اصحاب وفادار تو نائب تِرے معصوم

سلمٰی تری عصمت ہے ، خدیجہ تری توقیر

زہرا تری قسمت ہے تو زینب ترا مقسوم


کس رنگ سے ترتیب تجھے دیجیے مولا ؟

تنویر ، کہ تصویر ، تصور ، کہ مصور ؟

کس نام سے امداد طلب کیجیے تجھ سے

یٰسین ، کہ طہٰ ، کہ مُزمِّل ، کہ مدثر ؟


پیدا تری خاطر ہوئے اطرافِ دو عالم

کونین کی وُسعت کا فَسوں تیرے لیے ہے

ہر بحر کی موجوں میں تلاطم تِری خاطر

ہر جھیل کے سینے میں سَکوں تیرے لیے ہے


ہر پھول کی خوشبو تِرے دامن سے ہے منسوب

ہر خار میں چاہت کی کھٹک تیرے لیے ہے

ہر دشت و بیاباں کی خموشی میں تِرا راز

ہر شاخ میں زلفوں سی لٹک تیرے لیے ہے

دِن تیری صباحت ہے ، تو شب تیری علامت

گُل تیرا تبسم ہے ، ستارے ترے آنسو

آغازِ بہاراں تری انگڑائی کی تصویر

دِلداریِ باراں ترے بھیگے ہوئے گیسُو


کہسار کے جھرنے ترے ماتھے کی شعاعیں

یہ قوسِ قزح ، عارضِ رنگیں کی شکن ہے

یہ "کاہکشاں” دھُول ہے نقشِ کفِ پا کی

ثقلین ترا صدقۂ انوارِ بدن ہے


ہر شہر کی رونق ترے رستے کی جمی دھول

ہر بَن کی اُداسی تری آہٹ کی تھکن ہے

جنگل کی فضا تیری متانت کی علامت

بستی کی پھبن تیرے تَبسُّم کی کرن ہے


میداں ترے بُوذر کی حکومت کے مضافات

کہسار ترے قنبر و سلماں کے بسیرے

صحرا ترے حبشی کی محبت کے مُصلّے

گلزار ترے میثم و مِقداد کے ڈیرے


کیا ذہن میں آئے کہ تو اُترا تھا کہاں سے ؟

کیا کوئی بتائے تِری سرحد ہے کہاں تک ؟

پہنچی ہے جہاں پر تِری نعلین کی مٹی

خاکسترِ جبریل بھی پہنچے نہ وہاں تک


سوچیں تو خدائی تِری مرہونِ تصوّر

دیکھیں تو خدائی سے ہر انداز جُدا ہے

یہ کام بشر کا ہے نہ جبریل کے بس میں

تو خود ہی بتا اے میرے مولا کہ تو کیا ہے ؟


کہنے کو تو ملبوسِ بشر اوڑھ کے آیا

لیکن ترے احکام فلک پر بھی چلے ہیں

انگلی کا اشارہ تھا کہ تقدیر کی ضَربت

مہتاب کے ٹکڑے تری جھولی میں گِرے ہیں


کہنے کو تو بستر بھی میسر نہ تھا تجھ کو

لیکن تری دہلیز پہ اترے ہیں ستارے

اَنبوہِ ملائک نے ہمیشہ تری خاطر

پلکوں سے ترے شہر کے رستے بھی سنوارے


کہنے کو تو امی تھا لقب دہر میں تیرا

لیکن تو معارف کا گلستاں نظر آیا

ایک تو ہی نہیں صاحبِ آیاتِ سماوات

ہر فرد ترا وارثِ قرآں نظر آیا


اے فکرِ مکمل ، رُخِ فطرت ، لبِ عالم

اے ہادی کُل ، خَتم رُسل ، رحمت پیہم

اے واقفِ معراجِ بشر ، وارثِ کونین

اے مقصدِ تخلیقِ زماں ، حُسنِ مُجسّم

ن سلِ بنی آدم کے حسِین قافلہ سالار

انبوہِ ملائک کے لیے ظلِ الٰہی 

پیغمبرِ فردوسِ بریں ، ساقی کوثر

اے منزلِ ادراک ، دِل و دیدہ پناہی


اے باعثِ آئینِ شب و روزِ خلائق

اے حلقۂ ارواحِ مقدس کے پیمبرؐ

اے تاجوَرِ بزمِ شریعت ، مرے آقا 

اے عارفِ معراجِ بشر ، صاحبِ منبر 


اے سید و سَرخیل و سرافراز و سخن ساز

اے صادق و سجاد و سخی ، صاحبِ اسرار

اے فکرِ جہاں زیب و جہاں گیر و جہاں تاب

اے فقرِ جہاں سوز و جہاں ساز و جہاں دار


اے صابر و صناع و صمیم وصفِ اوصاف

اے سرورِ کونین و سمیع یمِ اصوات

میزان اَنا ، مکتبِ پندارِ تیقُّن

اعزازِ خود مصدرِ صد رُشد و ہدایت


اے شاکر و مشکور و شکیلِ شبِ عالم

اے ناصر و منصور و نصیرِ دلِ انسان

اے شاہد و مشہود و شہیدِ رُخِ توحید

اے ناظر و منظور و نظیرِ لبِ یزداں


اے یوسف و یعقوب کی اُمّید کا محور

اے بابِ مناجاتِ دلِ یونس و ادریس

اے نوح کی کشتی کے لیے ساحلِ تسکیں

اے قبلہ حاجاتِ سلیماں شہِ بلقیس


اے والی یثرب میری فریاد بھی سن لے !

اے وارثِ کونین لَب کھول رہا ہوں

زخمی ہے زباں ، خامۂ دل خون میں تر ہے

شاعر ہوں مگر دیکھ ! مَیں سچ بول رہا ہوں


تُو نے تو مجھے اپنے معارف سے نوازا

لیکن میں ابھی خود سے شناسا بھی نہیں ہوں

تُو نے تو عطا کی تھی مجھے دولتِ عِرفاں

لیکن میں جہالت کے اندھیروں میں گھرا ہوں


بخشش کا سمندر تھا تِرا لطف و کرم بھی

لیکن میں تیرا لطف و کرم بھول چکا ہوں

بکھری ہے کچھ ایسے شبِ تیرہ کی سیاہی

میں شعلگیِ شمعِ حرم بھول چکا ہوں


تُو نے تو مجھے کفر کی پستی سے نکالا

میں پھر بھی رہا قامتِ الحاد کا پابند

تُو نے تو مرے زخم کو شبنم کی زباں دی

میں پھر بھی تڑپتا ہی رہا صورتِ اَسپند


تُو نے تو مجھے نکتۂ شیریں بھی بتایا

میں پھر بھی رہا معتقدِ تلخ کلامی

تُو نے تو مِرا داغِ جبیں دھو بھی دیا تھا

میں پھر بھی رہا صید و ثناخوانِ غلامی


تُو نے تو مسلط کیا افلاک پہ مجھ کو

میں پھر بھی رہا خاک کے ذروں کا پجاری

تُو نے تو ستارے بھی نچھاور کیے مجھ پر

میں پھر بھی رہا تیرگیِ شب کا شکاری


تُو نے تو مجھے درسِ مساوات دیا تھا

میں پھر بھی مَن و تُو کے مراحل میں رہا ہوں

تُو نے تو جدا کر کے دکھایا حق و باطل

میں پھر بھی تمیزِ حق و باطل میں رہا ہوں


تُو نے تو کہا تھا کہ زمیں سب کے لیے ہے

میں نے کئی خطوں میں اسے بانٹ دیا ہے

تُو نے جسے ٹھوکر کے بھی قابل نہیں سمجھا

میں نے اسی کنکر کو گُہر مان لیا ہے


تُو نے تو کہا تھا کہ زمانے کا خداوند

اِنساں کے خیالوں میں کبھی آ نہیں سکتا

لیکن میں جہالت کے سبب صرف یہ سمجھا

وہ کیسا خدا ؟ جس کو بشر پا نہیں سکتا


تُو نے تو کہا تھا کہ وہ اُونچا ہے خِرد سے

میں نے یہی چاہا اتر آئے وہ خِرد میں

تو نے تو کہا تھا "احد” ہے وہ ازل سے

میں نے اسے ڈھونڈا ہے سدا "حِس و عدد” میں


اب یہ ہے کہ دنیا ہے مِری تیرہ و تاریک

سایہ غمِ دوراں کا محیطِ دل و جاں ہے

ہر لمحہ اُداسی کے تصرف میں ہے احساس

تا حدِ نظر خوفِ مسلسل کا دھواں ہے


صحرائے غم و یاس میں پھیلی ہے کڑی دھُوپ

کچھ لمسِ کفِ موجِ صبا تک نہیں ملتا

بے انت سرابوں میں کہاں جادۂ منزل ؟

اپنا ہی نشانِ کفِ پا تک نہیں ملتا


اَعصاب شکستہ ہیں تو چھلن


ی ہیں نگاہیں

احساسِ بہاراں ، نہ غمِ فصلِ خزاں ہے

آندھی کی ہتھیلی پہ ہے جگنو کی طرح دل

شعلوں کے تصرف میں رگِ غُنچہ جاں ہے


ہر سمت ہے رنج و غم و آلام کی بارش

سینے میں ہر اک سانس بھی نیزے کی انی ہے

اب آنکھ کا آئینہ سنبھالوں میں کہاں تک

جو اَشک بھی بہتا ہے وہ ہیرے کی کنی ہے


احباب بھی اعداء کی طرح تیر بکف ہیں

اب موت بھٹکتی ہے صفِ چارہ گراں میں

سنسان ہے مقتل کی طرح شہرِ تصور

سہمی ہوئی رہتی ہے فغاں خیمۂ جاں میں


 #اردو #شعراء #اردودکن #urdudeccan

اسرار الحق مجاز

 حجاب فتنہ پرور اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا 

خود اپنے حسن کو پردا بنا لیتی تو اچھا تھا 


تری نیچی نظر خود تیری عصمت کی محافظ ہے 

تو اس نشتر کی تیزی آزما لیتی تو اچھا تھا 


تری چین جبیں خود اک سزا قانون فطرت میں 

اسی شمشیر سے کار سزا لیتی تو اچھا تھا 


یہ تیرا زرد رخ یہ خشک لب یہ وہم یہ وحشت 

تو اپنے سر سے یہ بادل ہٹا لیتی تو اچھا تھا 


دل مجروح کو مجروح تر کرنے سے کیا حاصل 

تو آنسو پونچھ کر اب مسکرا لیتی تو اچھا تھا 


ترے زیر نگیں گھر ہو محل ہو قصر ہو کچھ ہو 

میں یہ کہتا ہوں تو ارض و سما لیتی تو اچھا تھا 


اگر خلوت میں تو نے سر اٹھایا بھی تو کیا حاصل 

بھری محفل میں آ کر سر جھکا لیتی تو اچھا تھا 


ترے ماتھے کا ٹیکا مرد کی قسمت کا تارا ہے 

اگر تو ساز بے داری اٹھا لیتی تو اچھا تھا 


عیاں ہیں دشمنوں کے خنجروں پر خون کے دھبے 

انہیں تو رنگ عارض سے ملا لیتی تو اچھا تھا 


سنانیں کھینچ لی ہیں سرپھرے باغی جوانوں نے 

تو سامان جراحت اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا 


ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن 

تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا 


اسرالحق مجاز


عادل راہی جامنیری

 دوڑتا ہے خوں رگوں میں جذبۂ شبیر کا

اب نہیں ہے خوف ہم کو تیغ کا اور تیر کا


اک حرارت دوڑ جاتی ہے ہمارے خون میں 

جب خیال آتا ہے دل میں حضرت شبیر کا


کہہ دو ان سے شرط ہے محنت، بلندی کے لئے

کرتے ہیں جو لوگ شکوہ کاتبِ تقدیر کا


اس زمیں کی خاک میں پیوند ہونا ہے ہمیں 

مت بتاؤ راستہ لاہور کا کشمیر کا


غالب و اقبال و راحت کا میں پیروکار ہوں  

یا الٰہی کر عطا لہجہ مجھے کچھ میر کا


اہل باطل کے جگر ہوتے ہیں لرزاں خوف سے

 پڑھتے ہیں جب ہم ترانہ نعرۂ تکبیر کا


فیصلہ میراث کا راہی وہ کر پائیں گے کیا 

حق ادا جو کر نہیں سکتے ہیں خود ہمشیر کا


عادل راہی جامنیری


جمال نقوی

 یوم پیدائش 18 اکتوبر 1946


ہر صدی میں قصۂ منصور دہرایا گیا

سچ کہا جس نے اسے سولی پہ لٹکایا گیا


ہم پہ ہی صدیوں سے ہیں ظلم و ستم جبر و الم

اور ہمیں ہی مورد الزام ٹھہرایا گیا


ہر زمانے میں ملے گا اک صداقت کا نقیب

ہر زمانے میں اسے ہی طوق پہنایا گیا


رخ بدل کر آندھیاں حالات کی اٹھتی رہیں

عزم میں میرے نہ کوئی فرق بھی پایا گیا


کیا سنائیں ہم شکست دل کا افسانہ جمالؔ

یہ وہ شیشہ ہے جو ہر پتھر سے ٹکرایا گیا


جمال نقوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...